طالبان کے پاس ایک ایسا ہتھیار ہے جو پاکستانی حکومت کے پاس نہیںع
مرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے
اور وہ ہے یونٹی آف کمانڈ۔فیصلہ اُن کے امیر نے کرنا ہے یا شوریٰ نے۔ اس کے علاوہ کوئی دُم ہے نہ پخ جو اُن کی قوتِ فیصلہ کو متاثر کرے اور فیصلہ ہو جانے کے بعد فیصلے کو غیر موثر کر دے۔ انہوں نے کسی فضل الرحمن کو خوش کرنا ہے نہ کسی منّور حسن کو ۔ کوئی اے پی سی نہیں جو انہیں زنجیر بہ پا کر دے۔ نہ ہی یہ کام‘ جو کچھ بھی یہ کام ہے‘ اُن کا جُزوقتی (پارٹ ٹائم) کام ہے اور نہ یہ کوئی بزنس ہے جو اُن کی ترجیحات پر شب خون مارے۔
اس کے مقابلے میں حکومتِ پاکستان نے ہر معاملے میں اتنے پیچ ڈالے ہوئے ہیں کہ ہر طرف پہیلیاں ہی پہیلیاں ہیں‘ کوئی منظر شفاف نہیں! کبھی کسی ایسے مولانا صاحب کو خوش کرنا ہے جو سر تاپا مفادات کی سیاست میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اخلاص سے ان کا صرف اتنا ہی تعلق ہے کہ وہ سورہ اخلاص کی تلاوت کرتے ہیں۔ کبھی کسی ایسے مذہبی رہنما کو ساتھ ملانے کی فکر ہے جو تاریک قوتوں کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں اور شاید ہی کوئی بات انہوں نے کبھی منطقی اور معقول (Rational)کی ہو۔ایک مرحوم رہنما نے تو واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ طالبان کسی بھی کارروائی کا بے شک اقرار کریں‘ ہم نہیں مانیں گے!
اے پی سی کیا ہے؟ذمّہ داری سے اغماض برتنے کا سیاسی حربہ۔ قوتِ فیصلہ کی کمی پر پردہ ڈالنے کی ایسی کوشش جو صاف بتا رہی ہے کہ اصل مقصد التوا ہے۔ ٹالتے رہو‘ ٹالتے رہو‘ تاوقتیکہ حالات کا ریلا خود ہی کسی سمت لے جائے۔ پہلے پاکستان اس غلطی کا خمیازہ بھگت رہا ہے کہ غیر ریاستی عناصر (نان سٹیٹ ایکٹرز) کی کفالت و پرورش کرتا رہا۔ اب یہ حکومت ایسے اداروں کو تقویت پہنچا رہی ہے جو ’’ماورائے پارلیمنٹ‘‘ ہیں۔ کیا دنیا میں دوسرے جمہوری ممالک معاملات طے کرنے کے لیے پارلیمنٹ سے باہر اُن قوتوں کو اکٹھا کرتے پھرتے ہیں جو انتخابات میں مسترد ہو گئیں؟ حکومت کی مثال اُس شخص کی ہے جو طوفان کے بعد ایک درخت کی شاخ سے لٹکا ہوا تھا ۔نیچے متلاطم دریا تھا۔ اُس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ اُسے بچائے۔ فرشتے نے آواز دی کہ ٹہنی چھوڑ دو۔اُس شخص نے بلند آواز میں کہا۔’’کیا کوئی اور ہے؟‘‘عوام نے انتخابات میں مسلم لیگ کو مینڈیٹ دیا ہے۔ فیصلے کرنے کے لیے پارلیمنٹ موجود ہے۔ اب حکومت چیختی پھر رہی ہے کہ ’’کیا کوئی اور ہے؟‘‘ایک ایسی سیاسی جماعت جس کے پورے ملک میں بتیس ہزار سے زیادہ ممبر نہیں‘ اے پی سی پر زور نہ دے تو کیا کرے؟لیکن جس ملک کے وزیر اعظم چھ ماہ بعد پارلیمنٹ میں جلوہ افروز ہوں اور یہ بھی ایک ’’خبر‘‘ بن جائے اُس ملک میں پارلیمنٹ کی کیا قدرو قیمت ہو گی!
اب اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ مسلم لیگ نون کی حکومت کی ترجیحات میں بزنس ہے یا صوبہ پروری‘امن و امان ہرگز نہیں‘ نہ ہی طالبان کے مسئلے کو حل کرنا ہے۔ ہتھیلی پر بال اُگ سکتے ہیں‘ کبوتری انڈے دینے کی بجائے براہِ راست بچّے جَن سکتی ہے۔بحرالکاہل اور بحرِ اوقیانوس ساری زمینی رکاوٹوں کو ہٹا کر ایک دوسرے سے گلے مل سکتے ہیں لیکن لاہور کے شاہی خاندان کا شاہانہ اسلوبِ حکومت نہیں بدل سکتا۔ جنرل پرویز مشرف نے تختہ الٹا تھا تو اخبارات کارناموں سے بھر گئے تھے۔ ایف آئی اے میں تیس اہلکار بھرتی ہوئے۔ اٹھائیس ایک شہر اور ایک گروہ سے تھے۔ چالیس سے زیادہ ازحد کلیدی اسامیوں پر ایک ہی شہر سے تعلق رکھنے والے بیورو کریٹ فائز تھے۔ پندرہ سال بعد کون سی تبدیلی آئی ہے؟اخبارات میں کھلم کھلا یہ خبر چھپ چکی ہے کہ پارلیمنٹ میں تیس سے زیادہ خواتین کا تعلق ایک ہی شہر سے ہے۔ شیخ رشید نے دو دن پہلے کہا ہے کہ حکومت پر لاہور گروپ قابض ہے۔ یہ کالم نگار پہلا شخص تھا جس نے مہینوں پہلے لکھا تھا کہ مسلم لیگ کی حکومت وسطی پنجاب کے اردگرد گھومتی ہے اور چودھری نثار علی خان کے سوا تمام کے تمام اہم کردار اُس تنگ پٹی سے ہیں جو فیصل آباد سے شروع ہوتی ہے اور رائے ونڈ لاہور اور گوجرانوالہ کے نواح سے ہوتی ہوئی سیالکوٹ جا پہنچتی ہے۔ ان حضرات کا رجحان
مشرق کی طرف‘سرحد پار‘اُن علاقوں کی طرف ضرور ہے جہاں سے ان کے بزرگ آئے تھے۔ لیکن مغربی پنجاب اور جنوبی پنجاب صرف اس لیے ہیں کہ صوبے کا رقبہ اور آبادی بتانا ہو تو کام آئیں!قومی یکجہتی کے نکتۂ نظر سے یہ خبر کس قدر دلگداز ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ نون کے سیاستدان پارٹی چھوڑتے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے جب غوث علی شاہ نے پارٹی کو خدا حافظ کہا تو دو سو سے زیادہ ضلع اور تحصیل سطح کے عہدیدار بھی رخصت ہو گئے۔ لیاقت جتوئی شاکی ہیں کہ سندھ سے تعلق رکھنے والوں کی پارٹی میں کوئی اہمیت نہیں‘ شکایات لکھ کروزیر اعظم کو پیش کی گئیں لیکن کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ تھرپار کے ارباب ہیں یا نوشہرو فیروز کے جتوئی‘ شکار پور کے جتوئی ہیں یا ٹھٹھہ کے شیرازی‘ سب نالاں ہیں اور تغافل سے زخم زخم۔ پیپلز پارٹی لیاقت جتوئی کو اپنی طرف بلا رہی ہے۔ ممتاز بھٹو گروپ بھی مسلم لیگ نون سے فاصلے پر ہو گیا ہے۔ وزراء کی مشترکہ شکایت یہ ہے کہ انہیں سونپی گئی وزارتوں میں وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ جس اسلوبِ حکومت کے لیے شاہی خاندان معروف ہے‘ اُس پر غور کریں تو یہ شکایات چونکا دینے والی ہرگز نہیں!رسوائے زمانہ اسلوب یہ ہے کہ اپنے شہر کے‘ اپنے گروہ کے‘ اپنی قومیت کے مُہرے ہر جگہ اِس طرح بٹھا دیجیے کہ جو کچھ بھی ہونا ہو‘ انہی مُہروں کے ذریعے ہو۔ غلط ہیں وہ تجزیہ کار جو یہ کہتے ہیں کہ یہ خاندان حکومت اس طرح
چلاتا ہے جیسے کارخانے کو مالک چلاتا ہے یا کارپوریٹ سیکٹر میں ایم ڈی معاملات طے کرتا ہے۔ کارخانہ اور کارپوریٹ سیکٹر تو بہت ماڈرن صورتیں ہیں‘ یہاں تو حکومت یوں کی جا رہی ہے جیسے جاگیر ہو۔ اُس ننھے منے جزیرے کے سفید فام باشندے‘ جسے برطانیہ کہا جاتا ہے‘ اِسے Fiefdomکہتے ہیں!
اپنے شہر‘اپنے گروہ اور اپنی پٹی سے باہر نکلنے کے لیے ذہنی بلوغت درکار ہے اور مصیبت یہ ہے کہ ذہنی بلوغت بازار میں نہیں ملتی۔ انسانی آنکھ میں نقص ہے کہ دیوار کے پار نہیں دیکھ سکتی لیکن اگر کوئی دیوار کے اِس طرف بھی نہ دیکھنا چاہے تو کتنا بڑا المیہ ہو گا۔ قبیلہ پروری کی انتہا یہ ہے کہ پہلے طے کر لیا جاتا ہے کہ برادری کے فلاں رکن کو نوازناہے۔ پھر ’’کام‘‘کی تلاش شروع ہوتی ہے۔ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے لیے پہلے کوشش کی گئی کہ عبوری حکومت میں وزیر اعلیٰ ہو جائیں‘ اس میں کامیابی نہ ہوئی تو ایڈوائزر بنا دیا گیا۔ ایسی کئی مثالیں ہیں دوسری طرف چھوٹے صوبوں کے جو لوگ ساتھ آ ملے تھے‘ وہ بھی رو پیٹ کر واپس جا رہے ہیں ؎
ناوک نے تیرے صیدنہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
جہاں معمول کا کاروبارِ حکومت ابتری‘ گروہ پروری‘اور ’’کچن کیبنٹ‘‘کے ذریعے چل رہا ہو اور معاملات پارلیمنٹ سے باہر طے کرنا عام روٹین ہو‘وہاں طالبان جیسے ازحد پیچیدہ اور ہشت پہلو مسئلے سے کون نمٹے گا اور کیسے نمٹے گا؟ ؎
آرزوئے وصال کرتے ہو؟
یار تم بھی کمال کرتے ہو!