نیب نے کرپشن کے ایک سو پچاس مقدموں کی فہرست سپریم کور ٹ کو پیش کی ہے۔ اس میں مندرجہ ذیل مشاہیر کے اسمائے گرامی آتے ہیں: میاں نوازشریف، شہباز شریف، اسحاق ڈار، آصف علی زرداری، چودھری شجاعت حسین، پرویز الٰہی، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی، ہارون اختر خان، آفتاب شیرپاؤ، جہانگیر صدیقی، نواب اسلم رئیسانی، میاں محمد منشا، ایاز خان نیازی، فردوس عاشق اعوان، عبداللہ یوسف، سلمان صدیق، علی ارشد حکیم، آصف ہاشمی، سحر کامران، حسین حقانی، شوکت ترین، ملک نوید، توقیر صادق، محمد صدیق میمن، یونس حبیب، علی احمد لونڈ، ذکی اللہ، نصیر حیات، عبدالغفور لہڑی، صدیق میمن، انجم عقیل خان، جنرل سعید الظفر‘ شاہد رفیع، اسماعیل قریشی، شاہنواز مری، میر شاہ جہان کھیتران۔ ہو سکتا ہے کچھ نام یہاں نقل کرنے میں رہ گئے ہوں۔ عوام کی طرف سے درج ذیل عرضداشت انہی مشاہیر کے نام ہے۔
معزز حضرات! آپ سب کا مؤقف… کیا مشترکہ اور کیا فرداً فرداً‘ایک ہی ہے کہ آپ بے قصور ہیں اور یہ الزامات‘ جرائم کی یہ فہرست، سازش کے علاوہ کچھ نہیں!
آپ درست فرما رہے ہیں۔ ہم عوام نہتے ہیں، اس ضمن میں ہمارے ہاتھ میں کوئی ثبوت نہیں؛ تاہم ہمیں تعجب اس بات پر ہے کہ سالہاسال گزر گئے، عشروں پر عشرے بیتے جا رہے ہیں مگر یہ مقدمات آر ہوتے ہیں نہ پار۔ کبھی نیب سے عدالتوں میں جاتے ہیں اور سو جاتے ہیں، کبھی عدالتوں سے واپس نیب میں آتے ہیں اور مدتوں دکھائی نہیں دیتے۔ اتفاق فاؤنڈری ہو، سرے محل، رائے ونڈ کی سڑک ہو یا اصغر خان کیس، مدتیں بیت جاتی ہیں، کچھ بھی پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچتا۔ آپ حضرات کی معصومیت اور بے گناہی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ ظاہری سیاسی مخالفتوں کے باوجود، آپ حق کے راستے پر بانہوں میں بانہیں اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیب، عدالتوں اور ایف آئی اے سے بچاتے ہیں۔ سعدی نے یہ شعر آپ حضرات کی باہمی دوستی دیکھ کر ہی تو کہا تھا ؎
دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست
در پریشاں حالی و درماندگی!
دوست ہوتا ہی وہ ہے جو مشکل وقت میں دوست کی دستگیری کرے۔ ایک برس پہلے جولائی 2014ء ہی کی تو بات ہے‘ جناب یوسف رضا گیلانی اور سندھ کی روحانی شخصیت جناب مخدوم امین فہیم کے خلاف ایک درجن انکوائریاں چل رہی تھیں۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے معاملات تھے، غیر متعلقہ کمپنیوں کو اربوں روپوں کی سبسڈی دے دی گئی تھی۔ خردبرد شدہ رقم کی بیرون ملک ناجائز منتقلی کا مقدمہ الگ تھا۔ جناب یوسف رضا گیلانی نے ضمانت کرا لی۔ اس پر ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے عدالت میں درخواست دائر کر دی کہ اس ضمانت کا کوئی جواز نہیں! اس نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کے پاس اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ جناب گیلانی نے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ جناب نوازشریف کی حکومت کس طرح برداشت کر سکتی تھی کہ اُن کے یعنی بالائی طبقے کا ایک رکنِ رکین ابتلا میں ہو اور وہ اس کی مدد کو نہ پہنچیں۔ مرکزی حکومت کے ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت بروقت پہنچتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ایف آئی اے یہ مقدمہ واپس لینا
چاہتی ہے۔ مقدمہ عدالت نے خارج کر دیا۔ جناب گیلانی یوں محفوظ رہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان! چار کروڑ روپے جناب امین فہیم کے بینک اکاؤنٹ میں گئے، پھر واپس ہوئے۔ قانون کو اس میں کوئی مضائقہ نظر آیا نہ حکومت کو!
ایک معروف سیاسی شخصیت کے جنوبی پنجاب میں واقع کارخانے میں کروڑوں روپے کے بجلی کے واجبات تھے‘ مگر انہیں ایسا کوئی خوفناک اشتہار نما نوٹس نہ دیا گیا جو اب عام پاکستانیوں کو دہشت زدہ کرنے کے لئے دیے جا رہے ہیں‘ غریب آدمی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دکھایا جا رہا ہے۔ یکم اکتوبر کو ڈیفالٹرز کی فہرست نیب کے حوالے کر دی جائے گی۔ اس فہرست میں آپ مشاہیر حضرات میں سے کوئی نہیں ہو گا۔ آپ حضرات کے خلاف اگر کوئی رقم واجب الادا ہو تو وہ جمہوریت کے خلاف سازش ہوتی ہے۔
ہم عوام کالانعام، آپ کی بے گناہی کو چیلنج نہیں کرتے، ہم ہیں بھی کون جو چیلنج کر سکیں! ہم غریب ٹیکس دہندگان ‘ہم گیس بجلی پانی اور ٹیلی فون کے بل وقت پر ادا کرنے والے ڈرپوک عوام! ہم ایمان لاتے ہیں آپ کی معصومیت پر! مگر ہم ایک گزارش کرتے ہیں!
اے مشاہیر کے گروہِ بلند مقام! اے عالی مرتبت شخصیات! اے ہماری جمہوریت اور بیوروکریٹک نظام کے ستونو! ہم ہاتھ باندھ کر، خدا کا اور رسولؐ کا اور خلفائے راشدین کا اور بارہ معصوم اماموں کا واسطہ دے کر منت اور زاری کرتے ہیں کہ آپ سب حضرات اِس ملک کو چھوڑ کر کہیں باہر تشریف لے جائیے! آپ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیجئے۔ ہم جمہوریت میں مریں یا آمریت میں ایڑیاں رگڑیں، آپ فکرمند نہ ہوں۔ آپ اپنی جمع شدہ پونجی! اپنے خزانے، اپنے سونے چاندی کے انبار، کارخانے، فیکٹریاں، جاگیریں، جائیدادیں… سب اٹھائیں اور لِلّہ! یہاں سے تشریف لے جائیں! آپ کا وطن تو پوری دنیا میں کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ جدہ ہو یا نیویارک، لندن ہو یا پیرس، آپ کے لیے کون سی جگہ نئی ہے۔ آخر آپ کے گروہ کے معزز رکن، آپ میں سے اکثر کے یارِ خوش زبان جناب شوکت عزیز بھی تو بیرون ملک ہی ہیں۔ آپ جیسے ایک اور سیاسی سردار، اپنے قبیلے کے سرخیل، جناب الطاف حسین بھی تو آخر ملک چھوڑ گئے ہیں۔ ان کے معیار زندگی میں، لائف سٹائل میں، سیاسی، خاندانی اور شخصی معمولات میں کیا فرق پڑا؟
ہم اس ملک کے عوام آپ کویقین دلاتے ہیں کہ آپ کو یاد کرتے رہیں گے، ہم سارے ویرانوں، قبرستانوں، خرابوں، کھنڈروں، دھول اڑاتے کچے راستوں اور اندھیرے میں ڈوبے محلوں‘ بستیوں پر آپ کے مقدس ناموں کے بورڈ آویزاں کر دیں گے۔ ہم اپنے بچوں کو پڑھائی جانے والی تاریخ کی کتابوں میں آپ کے روشن کارناموں پر پورے پورے باب شامل کریں گے۔ خدا کے لئے اس ملک کو چھوڑ کر چلے جائیے تاکہ یہ کبھی نہ ختم ہونے والے بکھیڑے ہی ختم ہو جائیں! کیونکہ جب تک آپ سلامت ہیں (خدائے بزرگ و برتر آپ سب حضرات کو ہم عوام کی عمریں بھی عطا کر دے) کسی مقدمے میں کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ بس اتنی گزارش اور ہے کہ جاتے ہوئے جناب جنرل پرویز مشرف اور حضرت مولانا کو بھی ساتھ لے جائیے۔
اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر ہم پر اتنا رحم کیجئے کہ ہم بیس کروڑ عوام کو اس ملک سے چلتا کر دیجئے۔ آپ کے اس گروہ باصفا کے معزز رکن جناب یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران فرمایا بھی تھا کہ جو ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں انہیں کس نے روکا ہے، تو ہمیں کوئی ٹھکانا بتائیے، ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں، اس ملک کے وسائل تو پہلے ہی آپ حضرات کی مٹھیوں میں ہیں، ہمارے پاس تو گرتی اینٹوں اور کچی مٹی کے گھروندے ہی ہیں، ہم وہ بھی آپ کو نذر کرنے کے لئے تیار ہیں، ہمیں افریقہ کے کسی جنگل میں، صحرائے گوبی کے کسی کونے میں، ہمالیہ کی کسی چوٹی پر، کہیں بھی بھجوا دیجئے۔ ہو سکتا ہے ہماری نسلوں میں سے کوئی یہاں اپنی جڑوں کا معائنہ کرنے آ نکلے تو اس وقت تک نیب اور عدالتوں کے درمیان لڑھکتے ہوئے ان مقدمات کا فیصلہ ہو چکا ہو!
اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو ہمیں، ہم بیس کروڑ عوام کو جنوب کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں پھینک دیجئے، ہمیں یقین ہے کہ شارک مچھلیوں کے جبڑے، آپ حضرات کے دانتوں اور پنجوں سے کہیں زیادہ نرم ہوں گے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“