ارون دھتی رائے کہتی ہے ’’آگے بڑھو۔۔۔!!‘‘
چائے کے باغات میں
جنم لینے والی
وہ سانولی سلونی لڑکی
جس کی ماں ایک اداس عورت
اور جس کا باپ
ایک شرابی مرد تھا!
جو گوا کے ساحلوں پر
تازہ کیک بیک کرکے
بیچا کرتی تھی!
جو مردوں کے معاشرے میں
ایک جرم بن کر جیتی تھی!
جو دل کو ڈھال اور قلم کو تلوار بنا کر
میڈیا کے میدان میں اتری!
جس نے بڑے دیوتاؤں کی پوجا سے بغاوت کی
اور لکھی ایک کہانی:The God of Small Things
کیریلا کے ساحلوں پر سوشلزم کے نعرے لگانے والے
نوجوانوں کی ناراض دوست
پوری دنیا میں بغاوت کا پرچار کرنے والی
وہ نوجوان لڑکی اس طرح اظہار کرتی رہی
جیسے بانس کے جنگلوں سے تیز ہوا گذرے
وہ لڑکی جس نے مظلوموں کا ساتھ دیا
جس نے محکوموں سے محبت کی
جس کے دامن پر کسی ’’افيئر‘‘ کا داغ نہیں!
نثر میں شاعری کے پھول کھلانے والی وہ رائٹر
بیس برس کے بعد
اپنی آغوش میں نومولود بچے جیسا ناول لائی ہے
The Ministry of Utmost Happiness
آئیں! اس ناول کا استقبال کریں
اور اسے بتائیں’’تم تنہا نہیں ہو!
تم ایک عورت ہو
ایک حکومت ہو
ایک ریاست ہو
ایک عبادت ہو
تم ایک دھرم ہو
تم ایک کرم ہو
ایک بھرم ہو
تم قلمکاری کے میدان میں
کرشن کا نیا جنم ہو
تم نے ایک نئی گیتا گائی ہے
اور اس دور کے ہر ارجن کو
یہ بات بتائی ہے:
’’ساتھی زخموں پر مرہم مت ملو
آگے بڑھو۔۔۔۔!!‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔