مجھے خوشی ھے کہ آپ نے ماضی کے جھروکے سے ایک تاریخی شھر کی جھلک دیکھی تو پسندیدگی کی سند عطا کی لیکن یہ اطمینان زیادہ اھم ھے کہ میری رپورٹنگ میں خامی یا غلطی کی نشاندھی انھوں نے بھی نھیں کی جو جدی پشتی ؎ رھنے والے تھے اسی اجڑے دیار کے۔۔ اسے میں اج بھی اجاڑ نھیں کہہ سکتا کیونکہ یہ پھلے سے زیادہ آباد ھے۔۔بس سیاسی حالات کے جبر نے اس کے روایتی حسن کو ناقابل شناخت حد تک بدل ڈالا ھے۔۔لاکھوں افغان جو ‘پاوندے’ کھلاتے تھے پھلے بھی موسم سرما کی سختی سے بچنے کیلۓاپنے خاندانوں اور مال مویشی کے ساتھ یھاں آجاتے تھے اور پٹھان اپنے روایتی جذبہ مھمان داری کے ساتھ ان کی میزبانی کرتے تھے۔ اب وہ کیؑ گنا تعداد میں ان پر مسلط کی جانے والی جنگ کی تباہ کاری سے بھاگ کر اس شھر میں آباد ھو گۓ ھیں تو صرف روایات ھی نھیں کچھ بھی وہ نھیں رھا کہ جو تھا،پشاور کی میٹھی بولی ھندکو اب کھیں سنایٰ نھیں دیتی۔دھشت گردی کے اندیشوں نے سکون کی فضا کو مسموم کر دیا ھے۔