تحریر: آرتھور عمرے(ناروے)
اردو ترجمہ: شگفتہ شاہ(ناروے)
بورتن نے لباس تبدیل کیا ، ایک پرانی پتلون اور پرانی سوئیٹرزیبِ تن کی، ہلکی سی ہنسی ہنسا اور لالٹین کو جلانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نےلالٹین میں گیس بھری، اسےجلایا اور پھرفوراً ہی بجھا دیا۔لالٹین قابلِ مرمت تھی۔باورچی خانہ میں کافی والی کیتلی سے بھاپ اُٹھ رہی تھی اور کافی کی خوشبو پھیل رہی تھی۔اس نے گھڑی پر ایک نگاہ ڈالی اورنشست گاہ میں کھانے کی میز پردھیرے دھیرے کھانا چننے لگا،پھر کرسی پر براجمان ہوا،خوب سیر ہوکر ناشتہ کیا اور کافی سے لطف اندوز ہوا۔ابھی بہت سویر تھی۔ اس نے ایک سگار سلگایااور لالٹین کی مرمت کرنے میں مصروف ہو گیا۔ -بہترین ،بہترین، اس نےگنگناتے ہوئے کہا۔
داخلی دروازے کی گھنٹی بڑے زور سے بجی۔ بورتن نےلالٹین میز پر رکھی اور باہرکی طر ف لپکا۔دروازے پراوورکوٹ میں ملبوس ایک قدرے چھوٹے قد کا فربہ جسم آدمی کھڑا تھا۔ بورتن بھی فربہ جسم تھا ،مگر اس کا قدلمبا تھا۔ وہ اپنی پرانی پتلون اور سوئیٹر میں ملبوس ایک سمندری خارپشت کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔
” میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟” بورتن نےدریافت کیا،وہ گنگنا نے کے انداز میں بات کررہا تھا۔
” کیا آپ کے پاس فرصت کے چند لمحات ہوں گے؟”آدمی نے اونچی آواز میں پوچھا۔
تشریف لائیے، بورتن نے کہا اور نشست گاہ کا دروازہ کھول دیا۔وہ اس آدمی کے پیچھے کمرےمیں داخل ہوا،اسے ایک کرسی پیش کی اور دوسری کرسی پر بیٹھ کر اس کی بات کا انتظارکرنے لگا۔
” میرا نام حامر ہے۔” آدمی نے حامر کوپُر زورانداز میں ادا کیا۔
“اوہ، اچھا”، بورتن نےقدرے حیرانگی سے کہا۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ۔ ” آپ سے مل کر خوشی ہوئی، جناب حامر۔ ”
” کیا آپ یہ بات وثوق سے کہہ رہے ہیں؟”حامر نے استفسار کیا۔
“میرے دوست،اس سے آپ کا کیا مطلب ہے؟” بورتن نے رکھائی سے پوچھا۔
“میرا خیال ہے کہ آپ کو یہ سن کر اچھا نہیں لگا کہ میرا نام حامر ہے،میرا یہی مطلب ہے”،اس نے پُر زور انداز میں کہا۔
“نہیں، آپ میری بات توسنیں، جناب حامر ۔ ۔ ۔”
” آپ کا ضمیر آپ کو ملامت کر رہا ہو گا”، حامر نے کہا۔
” وہ کیوں،میرے دوست؟نہیں،آپ کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے۔ ”
” میں خود کو یہ اجازت دیتا ہوں کہ میں جو کہنا چاہتاہوں وہ کہہ دوں”،حامرنے کہا۔”اور عین اس لمحے میری خواہش یہ ہے کہ میں آپ کوسچی بات بتا دوں ، صرف سچ۔میری بات پرغور فرمائیں، جناب بور تن۔”
” کیا واقعی، جناب حامر ۔ ۔ ۔”
” سچی بات تو یہ ہے کہ میری بیوی کے ساتھ آپ کے روابط ہیں،” حامر نےبلند آواز میں کہا۔
” جھوٹ ۔ ۔ ۔،بالکل جھوٹ ۔ ۔ ۔”
” ہاہاہاہا”،حامر ہنسنے لگا۔”اس نے بھی بالکل یہی بات کہی تھی، – جھوٹ ،بالکل جھوٹ ۔ اس نےبھی آپ کا انداز ِ بیان اپنا لیا ہے۔اس سےقبل اس نےکبھی یہ الفاظ استعمال نہیں کیے۔میں شرط لگا سکتا ہوں کہ آپ یہ الفاظ اکثر بولتے ہوں گے۔”
” جھوٹ”، بورتن نے کہا۔”میں یہاں بیٹھ کر آپ کی یہ فضولیا ت نہیں سننا چاہتا۔آپ یہاں سےچلے جائیں،ورنہ ۔ ۔ ۔”
” ورنہ؟”حامر نے خوشامدانہ انداز میں حلیمی سے پوچھا۔
“ورنہ میں آپ کو باہر پھینک دوں گا۔”
” ہا ہا ہاہا، آپ بھی بہت خوب ہیں،جناب بورتن۔”
بورتن اُٹھ کھڑا ہوا۔
” بیٹھ جائیں”،حامر نے بلند آواز میں کہا۔
بورتن بیٹھ گیا۔- “آپ یا تو بالکل ہی پاگل ہو گئے ہیں یا پھر نشہ کی حالت میں ہیں۔”
” میں صاف پانی کی مانندآلائشوں سے پاک اورمکمل ہوش وحواس میں ہوں”، حامر نے جواب دیا۔ “ا ب غور سے میری بات سنیں۔ میری بیو ی پچھلے چھ ہفتوں سے ہر ہفتہ وار کویہاں گاؤں والے گھر آتی اور پیر کو واپس جاتی رہی ہے۔ میں اس بات کا بغور جائزہ لیتا رہا ہوں کہ اسے یہاں والے گھر کے کام کاج کے لئے اتنا وقت کیوں درکار تھا۔ہم کل ہی حسبِ معمول موسمِ گرما کے دن گزارنےیہاں آئے ہیں۔ میں اس جانب رہنے والی ایک خاتون سے پوچھ گچھ کر چکاہوں اورمیرے لئے یہ سب معلومات حاصل کرنا قطعاً مشکل نہیں تھا۔اس خاتون نےمجھے بتایا کہ میری بیوی ہر ہفتہ وارکی رات آپ کے ہاں گزارتی رہی ہے،اس بات پر غور کیجئے،جناب بورتن،ہر ہفتہ کی رات آپ کے ساتھ گزارتی تھی۔اُس کمرے میں۔”
حامر نے اپنے پستول کے ساتھ خواب گاہ کی طرف اشارہ کیا۔
” جھوٹ ۔ ۔ ۔،بالکل جھوٹ”،بورتن نے کہا۔
” میرے پاس اس بات کا ثبوت موجود ہے”، حامر نے کہا، “بالکل صحیح ثبوت۔میرے پاس کئی ایسے گواہ بھی ہیں جومیری بیوی کا تعاقب کرتےرہے ہیں اور جنہوں نے سب کچھ دیکھا اور سنا ہے۔میرے پاس سب تحریری طور پر موجود ہے۔آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ایسی جگہوں کے لوگ اس قسم کی حرکتوں کوناپسند کرتے ہیں، ہاہاہاہا۔آپ غیر محتاط تھے، بہت ہی غیر محتاط۔ آپ ان گواہوں میں سے ایک گواہ کا بیان پڑھ سکتے ہیں۔اگر آپ اس کاغذ کے پرزے بھی کر دیں تومجھےاس سےکوئی فرق نہیں پڑے گا۔میرے پاس ایسے اوربھی کاغذات ہیں، اور میں اسےبھی دوبارہ حاصل کر سکتا ہوں۔یہ لیجئے، جناب بورتن۔”
بورتن نے تحریر پڑھی اورپرچہ ایک طرف رکھ دیا۔حامر نے کاغذ اٹھا کر اندرونی جیب میں ڈال لیا۔
” علاوہ ازیں”،اس نے کہا،”میری بیوی بھی اس بات کااقرار کر چکی ہے، میرے پاس وہ بھی تحریری طور پر موجود ہے۔مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے، ہاں یوں لگتا ہے کہ وہ آپ کو پسند کرتی ہے، وہ مجھ سےزیادہ آپ کو پسند کرتی ہے۔”
” پھر آپ کیا چاہتے ہیں؟”بورتن نے نپے تلے انداز میں پوچھا۔
” میں ابھی آپ کو بتاتا ہوں کہ میں کیا چاہتا ہوں”،حامر نے کہا،اس نےپرنٹنگ مشین پر لکھا ہوا ایک پرچہ نکالا اور ایک قلم سمیت اسے میز پر پھیلا دیا۔
” میں اس پرچہ پر دستخط نہیں کروں گا”، بورتن نے کہا۔
” دستخط کریں! ” حامر نے کہا۔
بورتن نے لمحہ بھر کو اسے دیکھا ، پھر قلم پکڑا اور دستخط کر دئیے۔
” شکریہ”،حامر نے کہا، “بہت بہت شکریہ، جناب بورتن۔میں آپ کو خبر دار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ ہماری طلاق کے بعد میری بیوی سے دو ماہ کے اندر اندر شادی نہیں کریں گے تو آپ کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑیں ے۔میں آپ کو کوئی اور نقصان بھی پہنچا سکتا ہوں، آپ کوئی مالدار آدمی تو ہیں نہیں،بلکہ میں کہنا چاہوں گا کہ کھاتے پیتے آدمی بھی نہیں ہیں۔اب آپ بھرپور جوان بھی نہیں رہے۔آپ کے پاس صرف ایک اچھی اسامی ہی ہے اور بنیادی طور پر آپ کا یہ کام بہت آسان ہے۔اگر آپ میری بیوی سے شادی کرلیں گے تو آپ کی ملازمت بحال رہے گی۔ پہلے اس کاروباری ادارے میں میرامعمولی سا حصّہ تھا،مگر اب میں ساٹھ فیصد حصص کا مالک ہوں۔آپ خود تحقیق کروا سکتے ہیں۔”
” بہت خوب”،بورتن نےپر زور انداز سے کہا۔”مگر،مگر ۔ ۔ ۔، کیا آپ اپنی بیوی سے چھٹکار احاصل کرنا چاہتے ہیں؟”
“میں مکروفریب کے جال میں پھنسے رہنے کا خواہش مند نہیں ہوں”،حامر نے کہا۔”میں ایک عزت دار آدمی ہوں،آپ بھی یہی خواہش رکھتے ہوں گے،مگرآپ کو اپنے کئے کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرنی ہو گی۔ آپ کو ایک عورت کو اس کا جائز مقام دینا ہو گا۔”
بورتن نے پریشانی میں لالٹین کی جگہ تبدیل کر دی۔
” لالٹین کو اپنی جگہ پر پڑا رہنے دیں”،حامر نے کہا۔”کیا آپ اسے پھینکنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟اچھا، میں اب چلتا ہوں۔میرے باہر نکلنے تک آپ آرام سےاپنی کرسی پر بیٹھے رہیں اور اپنے ہاتھ اپنی گود میں رکھ لیں۔”
بورتن نے ہاتھ میز سے اٹھا لیے۔
” آپ اس لالٹین کا کیا استعمال کرتے ہیں؟باہر والی کوٹھری؟”حامر نے پو چھا۔
” نہیں،وہاں بھی بجلی ہے۔ برقی لیمپ ہے۔ ”
” ٹراؤٹ کاشکار ؟”
” کبھی کبھار دریائی ٹراؤٹ ،خصوصاً ہیرنگ کے لئے۔”
” اُس طرف ،دوسری جانب؟ ”
” ان دنوں۔ ۔ ۔وہاں اُدھر، تھوڑا سا شمال کی جانب۔بلکہ خلیج کےقریب۔مگرآپ کی وہاں بھی نظرہوتی ہے،لعنتی چغل خور۔ آپ خود تو غیر قانونی طور پر مچھلیاں پکڑتے ہیں ،مگر دوسروں کی مخبری کرتے ہیں۔”
” جی ہاں، وہ تومیں کروں گا”،حامر نے کہا۔”چھ سال قبل اس جگہ پر۔ ۔ ۔ادھر شمال کی جانب، کیاآپ کومچھلی ملنے کا یقین تھا؟”
” چند ایک جگہیں ایسی ہیں،اگرانسان ان جگہوں کے بارے میں جانتا ہو تو۔وہاں بہت اچھی۔ ۔ ۔ ”
” میں جنوب کی طرف ایک جگہ کے بارے میں جانتا ہوں،وہاں سے میں نےبہت اعلیٰ قسم کی بڑی بڑی مچھلیاں پکڑی ہیں”،حامر نے کہا۔
” اوہ اچھا، لیکن بہت بڑی مچھلی تو اتنی لذیذ نہیں ہوتی۔ درمیانے سائز کی ۔ ۔ ۔”
” آپ صحیح کہہ رہے ہیں،بورتن۔کیا آپ تل کر کھاتےہیں؟”
” تل کر؟” بورتن نے چیخ کر کہا۔
” جی ہاں،میں پوچھ رہا ہوں کہ کیا آپ مچھلی تل کر ۔ ۔ ۔” حامر نے قدرے بلند لہجے میں کہا۔
” ا ب آپ میری بات سنیں،بورتن۔ ایسا کریں،سب سے پہلےمچھلی پر نمک مل کراسے رات بھرپڑی رہنے دیں ، پھراس کو پانچ، پانچ سینٹی میٹر لمبے ٹکڑوں میں کاٹ لیں ، نیم گرم پانی کے ساتھ اچھی طرح دھو لیں،چھ سات گھنٹوں کے لئے سرخ بلکہ گہری سرخ شراب میں بھگو کر رکھ دیں،اب گرم کڑاہی میں بہت سا مکھن ڈال کر تل لیں ۔ صرف کالی مرچ ڈالیں ، اور کچھ بھی نہیں۔اس ترکیب کو آزمائیں۔ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ ۔ ۔ ۔”
” میں تو عام ڈینش طریقے سےکری مصالحہ ڈال کر مچھلی پکاتاہوں”، بورتن نے کہا۔
” تازہ خراسانی اجوائن بھی ؟”
” جی ہاں۔ ۔ ۔،جی ہاں، عام طور پرخراسانی اجوائن نہیں ڈالتا، مگر ۔ ۔ ۔”
” کری مصالحہ میں تو مچھلی لذیذ بنتی ہو گی۔کیا آج شام بھی یہی ارادہ ہے؟”
” جی ہاں، لیکن ابھی بہت سویرہے۔”
حامر نے پردہ ہٹا یا، باہر دیکھا۔ –”ابھی تو واقعی بہت سویر ہے”،اس نے کہا۔”میری کشتی تیار کھڑی ہے،مگراس جگہ کوئی کھیویّا نہیں ہے، جس پرمیں ا عتماد کر سکوں۔بڑی مشکل ہے ۔کیا آپ کے پا س کوئی مانجھی ہے؟”
” میں نیلسن سے مدد لیتا ہوں۔مگروہ بہت غصّیلا آدمی ہے۔ ”
” اگر میں نے مناسب لباس پہناہوتا تو میں خود کشتی چلا لیتا”،حامر نے کہا ۔
” اوہ ، لباس؟اس کا انتظام تو ہوہی جائے گا۔ سائزمیں قدرےبڑا ہو گا، مگر ۔ ۔ ۔اسے اوپر کی جانب موڑا جا سکتا ہے۔میرے پاس ربڑ کے بوٹ بھی ہیں،عمدہ قسم کے بوٹ۔ربڑ کے بوٹ مناسب رہیں گے۔”
” تو آپ کا یہ مشورہ ہے،بورتن؟واقعی میں ۔ ۔ ۔”
بورتن اس کے لئے لباس لے آیا۔ حامر نے باورچی خانہ میں جا کر لباس تبدیل کیا،پستول نکال کر باورچی خانہ کے تختہ پر رکھا اور پھر اسے قمیض کی داہنی جیب میں ڈال لیا۔
تواس کے پاس یہ’’ دستی آلہ‘‘ بھی ہے،بورتن نے سوچا۔اسےڈر ہو گا کہ میں اسے کوئی گزند پہنچاؤں گا ۔ مگرمجھے اب کچھ نہیں کرنا۔ میں بھی کس قدر احمق تھا۔ کیا میں ایک بار پھر شادی کروں گا؟ توبہ ۔ ۔ ۔اور وہ بھی بیگم حامر سے؟اُف ۔۔ ۔اس حد تک تو ٹھیک تھا،مگر وہ تو بہت جھگڑالوہے، دماغ چاٹ لیتی ہے۔ ۔ ۔
” حامر،کیا آپ تھوڑی سی کافی لیں گے؟”
” جی شکریہ”، حامر نے کہا، -“تھوڑی سی پی جا سکتی ہے۔ میں نے آج کافی نہیں پی، میں مصروف تھا، ہاہاہاہا۔ ۔ ۔”اس نے باورچی خانہ سے ایک کپ اٹھایا، کرسی پر بیٹھا اور دودھ ملائے بغیر ایک بڑا پیالہ کافی پی گیا، پھر وہ تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
“بورتن،میں بہت خوش ہوں۔کیا ہم جنوب کی طرف جائیں گے؟”
” نہیں،شمال کی جانب”، بورتن نے کہا۔
چِت یا پٹ،حامر نے کہا اور جیب سے ایک کراؤن کا سکہ نکالا۔
فیصلہ شمال کی طرف جانے کا ہوا۔ بورتن خوشی سے چلّا اٹھا۔ – شکار کوجاتےوقت کشتی کھینے کی ذمہ داری میری ہو گی، اس نے کہا، اور واپسی پر بھی۔مجھے ناؤ کھیناپسندہے،اس سےبازو مضبوط اور انسان کی صحت اچھی رہتی ہے۔
حامر نے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔
آپ ایک فراخ دل انسان ہیں۔ میں بھی آپ کا ہاتھ بٹا سکتا ہوں،میں بھی کشتی کھینے کا شوقین ہوں۔ میں بہت موٹا ہوتا جا رہا ہوں، میں کھانوں کا بھی شوقین ہوں،ہاہاہاہا۔ہم دونوں آدھا آدھا گھنٹہ مچھلیاں پکڑیں گے،کیا خیال ہے؟آدھ گھنٹہ فوراً ہی گزر جاتا ہے۔
” ہاں بہت ہی تیزی سے”،بورتن نے کہا۔ “دونوں کے لئے آدھا آدھا گھنٹہ مناسب رہےگا۔”وہ کونے والی الماری کے قریب گیا اوراس نے ایک کپی میں شراب بھر ی۔
” کیا یہ لئیتن شراب ہے؟ “حامر نے پوچھا۔”مجھے بھی ابھی ابھی خیال آیا تھا کہ تھوڑی سی ساتھ لے لینا اچھا ہوتا ،میں بھی لئیتن شراب ہی پیتا ہوں۔اگلی مرتبہ ایک بوتل لیتا آؤں گا۔ ”
انہوں نے قدم باہر نکالے،دونوں لحیم وشحیم تھے۔ بورتن دراز قد مگر حامر سے نسبتاً زیادہ صحت مند تھا۔ حامربہت کھلے لباس کی وجہ سے پھولا ہوا تھا،قمیض کے اوپر پہنی پرانی جیکٹ ، چھوٹی، کھلی اور بے ڈھنگی تھی۔ مچھیروں والی ٹوپیاں سروں پر رکھے، دو مچھیرے۔بورتن عقبی چھپر سے مچھلیاں پکڑنے کا ڈنڈا لے آیا۔حامر لالٹین اٹھائے نیچے پگڈنڈی کی طرف بڑھا،وہ دونوںسست روی سے،ارد گرد نگاہ دوڑاتے ہوئے، خاموشی سےگھاٹ کی جانب بڑھ رہے تھے۔وہ بہت احتیاط سے کشتی میں اترے اور بورتن چپوؤں کو کنڈوں میں پھنسانے کے بعد خاموشی سے کشتی کھینے لگا موسم خوشگوارتھا، قدرےہلکی ہلکی ہواچل رہی تھی۔یہ موسم ماہی گیری کے لئے مناسب تھا۔آبنائے میں ان کی کسی سے بھی مڈبھیڑ نہ ہوئی ،وہ شمال کی جانب پہنچ گئے، انہوں نےکشتی کوکھلاچھوڑ دیا اور آوازوں پر کان لگا دئیے۔
“سب ٹھیک ہے”،حامر نے کہا۔
بورتن نے لالٹین جلائی،اب وہ ٹھیک جل رہی تھی۔ اس نے لالٹین کو کشتی کے سامنےوالے حصّےپر نصب کنڈے پر لٹکایا اور اس کےاوپر لوہے کا ایک پترا رکھ دیا ، روشنی پانی پر پھیل گئی۔
” ایک بات ہے”،بورتن نے کہا۔- ” اگر جرمانہ ہوا تو ہم دونوں مل کر ادا کریں گے،کیا خیال ہے؟”
” بلاشبہ” ،حامر نے کہا۔ “بلاشبہ، بورتن ،پہلی دفعہ ایک سو کراؤ ن جرمانہ ہوگا اور یہ جھٹکا تو میں اکیلاہی سہہ لوں گا ۔ میرے لئے کو ئی مشکل نہیں ہے،یہاں تو ایک ہزارکراؤن بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔”
کشتی کو ذراخشکی کے قریب لےچلیں ،بورتن نے کہا، ہاں یوں،آہستہ آہستہ،ہاں یوں،اب ساحل کے بالکل قریب رہیں۔
بورتن مچھلی پکڑنے کی چھڑی کو پوری تیاری سے تھامے،سامنے کے حصّے سے نیچے کو جھکاپانی کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔- آہا،اس نے کہا، اور فوراً ہی چھڑی کو پانی میں پھینکااور پھر تیزی سےاوپر کھینچنے لگا ۔ ایک بڑی سی بام مچھلی کانٹے اورچھڑی کے گرد لپٹی تھی۔
” نمکین ۔ ۔ ۔”،حامر نے کہا۔
” شش”، بورتن نے سر گوشی کی۔”کشتی کاتوازن قائم رکھتے ہوئے،دھیرے دھیرےکھیتے رہیں،ہاں اس طرح۔۔۔آہا”، پھنس گئی، اس نے کہا۔
پانچ گھنٹوں کے بعد حامر اور بورتن ایک ٹوکری کواپنی اپنی جانب سے تھامے گھر والی پگڈنڈی پر چلے جا رہے تھے۔
” بھاری ہے ناں؟” بورتن نے پوچھا۔
” ہاں،قدرے بھاری ہے، پانی کی مقدار کچھ زیادہ ہی ہے”، حامر کہا۔
” اچھی بات ہے،ہم کل سویرے انہیں صاف کریں گے” ، بورتن نے وضاحت کی۔
انہوں نے ٹوکری کو عقبی کوٹھری میں رکھا اور دروازے پر تالا لگا دیا۔”اُف”، حامر نے کہا، “اب کافی اورڈبل روٹی توملے گی ناں؟”
اس نے باورچی خانہ میں جا کر لباس تبدیل کیا۔
” بورتن ، آپ کی کاٹیج بہت مناسب ہے، میری سے بہتر ہے۔قدرے خستہ حالت میں ہے،مگر جیسی ہے اچھی ہے۔”
” مجھے اسی حالت میں پسند ہے”،بورتن نے کہا۔”مجھے رنگ روغن اچھا نہیں لگتا،مجھے یہ تختے اسی حالت میں اچھے لگتے ہیں۔کبھی کبھار فرش پر روغن پھیر لیتا ہوں،ورنہ اسی حالت میں رہنے دیتا ہوں۔مجھے جنگل میں حویلی نہیں چاہیے،یہ جگہ جیسی ہے مجھے پسند ہے۔مچھلیاں پکڑتا ہوں، کشتی مرمت کرتا ہوں اور صنوبر کےچند درخت کاٹ لیتا ہوں۔لعنت ہے،اگر کوئی اس جگہ پر آدھا سال بھی بسر نہ کرسکے۔”
” بورتن،تم تو اکثر وبیشتریہاں ہی رہتے ہو۔دیکھیں،میں نے ’’تم‘‘کہا ہے،یوں جیسے یہ فطری سی بات ہو۔”
” ادھر بھی یہی حال ہے،ظاہر ہے اس وقت ہم دونوں ایک دوسرے کی سنگت میں خوش ہیں”،بورتن نے کہا۔
” ایک خاندان کی مانند، حامر نے کہا۔ ہاہاہاہا ۔ ۔ سالا،بہنوئی – ”
” ہاہاہاہا “، بورتن نے بآوازِ بلند قہقہہ لگایا اور قدرے توقف کے بعد دبی ہنسی ہنسا۔اس نے کیتلی چولہے پر رکھی اورچولہے کی آگ تیز کر دی۔ پھر وہ نشست گاہ میں گیا اورآتشدان میں آگ جلائی،لکڑیاں چٹخےلگیں اور آگ جل اٹھی۔اس نے دیکھا کہ حامر نے پستول باورچی خانہ کی میز پر رکھ دیا تھا۔
” اس میں گولیاں نہیں ہیں”، حامر نے کہا۔
“مجھے یقین نہیں تھا”،بورتن نے جواب دیا۔
” آپ خوف زدہ تھے؟”
” اس سے مبّرا بھی نہیں تھا۔”
” میں نےآج تک ایک بھی وار نہیں کیا”، حامرنے کہا۔”گولی چلانے کی جرأت ہی نہیں کر سکتا،مجھے گولی چلنے کی آواز اچھی نہیں لگتی۔”
انہوں نے رات ایک بجے کافی پی ،گوشت کے باریک قتلےا ورڈبل روٹی کھائی۔انہیں بہت بھوک لگی تھی۔
” تم کل صبح تک یہاں رکو گے ناں؟تمہارا گھریہاں سے دور ہے”،بورتن نے کہا۔ “میرے پاس کافی جگہ ہے ۔ آرام دہ بستر بھی۔ ۔ ۔”
” وہ تو میں جانتا ہوں”، حامر نے کہا ، “ہاہاہاہا۔سوچ رہا ہوں کہ گوشت کا ایک قتلا اور کھا لوں ۔ گوشت کےیہ قتلےبہت لذیذ ہیں، بہت ہی خوش ذائقہ۔” اس نے ایک بڑا ساقتلا اٹھاتے ہوئے کہا۔
” کل شام کے کھانے میں بام مچھلی پکےگی”،بورتن نے کہا۔”تم تب تک یہاں ہی رکو گے ناں؟”
” کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟”حامر نے کہا۔”ظاہر ہے کہ میں یہاں قیام کروں گا۔ تمہارے ہاں کر ی مصالحہ تو ہو گا ناں؟”
” یقیناً”، بورتن بولا۔”بہت سا کری مصالحہ ۔”
” اور وہ تمام کاغذات،تمہیں ان کے بارے میں پریشان ہونے کی قطعاًکوئی ضرورت نہیں ۔”
“نہیں؟”
حامر آتشدان کے قریب گیا،قمیض کی اندرونی جیب سے وہ تمام کاغذات نکالےاور انہیں نذرِآتش کر دیا۔ “تمہیں معاف کیا جاتا ہے” ، حامر نے کہا۔ “اب میں تمہیں اصل بات بتاتا ہوں۔اس قصّہ میں تھوڑی سی میرے اپنے ذہن کی اختراع بھی شامل تھی۔ ہاہاہاہا،میری بیوی نینسی قدرے رومان پرور اور جذباتی واقع ہوئی ہے۔ ”
“میں جانتا ہوں”،بورتن نے کہا۔
” تم اس کے پہلے عاشق نہیں ہو۔”
” میں یہ بھی جانتا ہوں”،بورتن نے کہا۔
” ہر موسمِ بہار میں اسے ایک نیا عاشق چاہیے ہوتا ہے،البتہ وہ لوٹ کر ہمیشہ میرے پاس ہی آتی ہے۔”
” میں جانتا ہوں”،بورتن نے کہا۔
” اب میں اس سب سے اوب چکا ہوں، میں نے سوچا کہ اس کی خوشی کی خاطرمجھےاسے چلتا کر دینا چاہیے،اسے خوشی حاصل ہوجائے گی ۔اوریہ آپ کے ساتھ ہی ممکن تھا۔یوں آپ بھی میری گرفت میں رہتے۔ہاہاہاہا۔”
” ہاں ایساہی ہوتا”،بورتن نے کہا،”مگر وہ توکسی حد تک اب بھی ہوں۔ ۔ ۔”
” ہر گز نہیں،بورتن،ہر گز نہیں۔میں تمہیں ایسی تکلیف نہیں دے سکتا ،تم بہت اچھے انسان ہو۔مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،میں تو اس خاتون کا عادی ہوں،میں اس سے نمٹناجانتا ہوں۔اب وہ بھی میری کمی محسوس کر رہی ہوگی، بلکہ بہت زیادہ۔ اب وہ ایک لمبی مدت تک حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرتی رہے گی۔ میں باقی ماندہ زندگی اس کے ساتھ گزار سکتا ہوں۔بورتن، اب کوئی دقت نہیں ہو گی، بالکل بھی نہیں۔ ۔۔”
“شکریہ”، بورتن دھیمی ہوتی آواز میں گنگنایا۔اس پر غنودگی چھا رہی تھی۔”میں کل کے کھانے کے متعلق سوچ کر خوشی محسوس کر رہا ہوں، دوایک درمیانے سائز کی مچھلیاں،جن پر سؤر کی طرح چربی چڑھی ہواور بہت سا کری مصالحہ ۔ ۔ ۔”
” ہاں ،تم یہ کہہ سکتے ہو ۔ ۔ ۔”
بورتن اور حامرخواب گاہ میں جا کر بستروں پر دراز ہو گئے۔بورتن پر آہستہ آہستہ نیند کا غلبہ طار ی ہونےلگا۔
” کل شام جنوب کی جانب جائیں گے اور قسمت آزمائی کریں گے،حامر اُونگھتے ہوئے بولا،اگر قسمت نےساتھ دیا توپھر مچھلی کودھواں اٹھتی آگ پر پکائیں گے۔”
” ٹراؤٹ؟” بورتن نیند کے خمار میں بڑبڑایا۔
” نہیں، بام مچھلی”،حامر نے کہا ۔اورپھروہ سو گیا۔
(نارویجین زبان سے براہِ راست اردو ترجمہ)
Writer:
Arthur Omre (17 December 1887, in Brunlanes – 16 August 1967) was a Norwegian novelist and writer of short stories.
Story title: Ål i Karri
Book title: Utvalgte noveller
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...