نوبل لیکچر: ہیرلڈ پِنٹر ( Harold Pinter ) ،نوبل انعام یافتہ (2005)
میں نے 1958 ء میں درج ذیل لکھا تھا:
’حقیقی اور غیر حقیقی کے درمیان واضح امتیاز نہیں ہوتا اور نہ ہی سچ اور جھوٹ میں یہ ہوتا ہے ..۔ ضروی نہیں کہ ایک شے جھوٹ یا سچ ہو۔ یہ بیک وقت سچ ہو سکتی ہے اور جھوٹ بھی۔‘
میرا ماننا ہے کہ یہ بیان اب بھی وزن رکھتا ہے اور ابھی بھی آرٹ کے واسطے سے حقیقت کی کھوج کے لیے برتا جاتا ہے۔ میں، اس لیے، بطور ایک ادیب اس کے ساتھ کھڑا ہوں لیکن ایک شہری کی حیثیت سے نہیں۔ بطور ایک شہری، مجھے یہ ضرور پوچھنا چاہیے: سچ کیا ہے؟ جھوٹ کیا ہے؟
ڈرامے میں سچ ہمیشہ سے مبہم اور فریبی رہا ہے۔ آپ اسے پا نہیں سکتے لیکن اس کی تلاش لازم ہے۔ کھوج البتہ واضح ہے جو اس سعی کو آگے بڑھاتی ہے۔ کھوج آپ کا کام ہے۔ اکثر تو نہیں لیکن پھر بھی آپ تاریکی میں سچ سے ٹھوکر کھاتے ہیں، اس سے ٹکراتے ہیں یا اک عکس یا اک شکل کی جھلک دیکھتے ہیں جو لگتا ہے جیسے یہ سچ سے ملتی جلتی ہے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی اس حرکت کا ادراک بھی نہیں ہوتا البتہ کلی طور پر ایک حقیقی سچ کچھ ایسا ہوتا ہے جو ڈرامیٹک آرٹ میں کبھی نہیں پایا جاتا۔ یہ کئی ہوتے ہیں۔ یہ سچ ایک دوسرے کو مقابلے کی دعوت دیتے ہیں۔ ایک دوسرے میں گتھے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو منعکس کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو تنگ کرتے ہیں لیکن یہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں پاتے۔ بعض اوقات آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ ایک لمحے کے لیے سچ آپ کے ہاتھ میں ہے لیکن یہ آپ کی انگلیوں سے پھسلتا ہے اور گم ہو جاتا ہے۔
مجھ سے اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ میرے ڈرامے کیونکر تشکیل پاتے ہیں۔ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں اپنے ڈراموں کا خلاصہ بیان نہیں کر سکتا ہوں سوائے یہ کہنے کے کہ یہی کچھ ہے جو وقوع پذیر ہوا۔ انہوں نے یہی کہا۔ انہوں نے یہی کیا۔
زیادہ تر ڈرامے ایک سطر، ایک لفظ یا ایک چھوی ، ایک خیال سے جنم لیتے ہیں۔ خیال فوراً ہی اس دئیے گئے لفظ کا تعاقب کر تا ہے۔ میں یہاں دو سطروں کی مثالیں دوں گا جو نجانے کہاں سے میرے دماغ میں آئیں جس کے بعد ایک خیال آیا اور میں اس کے پیچھے چل پڑا۔
یہ ڈرامے ’کمنگ ہوم‘ (گھر واپسی)اور ’اولڈ ٹائمز‘ (بیتے وقت) ہیں۔’گھر واپسی‘ کی پہلی سطر یہ ہے: ’تم نے قینچی کے ساتھ کیا کیا ہے؟،‘بیتے وقت‘ کی پہلی سطر ہے:’سیاہ‘
دونوں صورتوں میں میرے پاس مزید کوئی معلومات نہیں تھیں۔
ظاہر ہے، پہلی صورت میں کوئی بندہ ایک قینچی ڈھونڈ رہا تھا اور وہ کسی ایسے کا اتہ پتہ جاننا چاہ رہا تھا جس کے بارے میں اسے شک تھا کہ شاید اُس نے اِِسے چرا لیا ہو گا۔ مجھے لیکن کسی نہ کسی طرح یہ معلوم تھا کہ جس بندے کو مخاطب کیا جا رہا تھا اسے نہ تو قئنچی کی اور نہ ہی اسے سوال کرنے والے کوئی پرواہ تھی ۔
‘ سیاہ‘، میں نے اسے کسی کے بالوں، کسی عورت کے بالوں کی وضاحت اور ایک سوال کا جواب جانا۔ دونوں صورتوں میں، میں نے خود کو مجبور پایا کہ معاملوں کو آگے بڑھاؤں۔ یہ نظری طور پر ایک ہولے سے مدہم ہوتا منظر تھا جو سائے سے روشنی میں آ رہا تھا۔
میں ہمیشہ اپنا ڈرامہ کرداروں کو اے، بی اور سی کہتے ہوئے شروع کرتا ہوں۔
اس ڈرامے میں، جو ’گھر واپسی‘ بنا، میں نے ایک آدمی کو ایک سادہ بڑے خالی کمرے میں داخل ہوتے اور ایک جوان آدمی سے سوال پوچھتے دیکھا جو ایک بھدے سے صوفے پر بیٹھا گھڑ دوڑوں کا اخبار پڑھ رہا ہے۔ میں نے کسی طور یہ جانا کہ ’اے‘ ایک باپ تھا اور ’بی‘ اس کا بیٹا، لیکن میرے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ بہرحال کچھ ہی دیر بعد اس کی تصدیق ہو گئی کہ بی (بعد میں جو ’ لینی‘ بنتا ہے) اے (بعد میں جو ’ میکس‘ بنتا ہے) سے کہتا ہے، ’ڈیڈی، اگر آآپ بُرا نہ منائیں تو میں موضوع بدل دوں؟میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ ہم نے کچھ دیر پہلے جو ڈنر کھایا تھا، اس کا کیا نام ہے۔ آپ اسے کیا کہتے ہیں؟ آپ ایک کتا کیوں نہیں خرید لیتے؟ ایمان سے، آپ کتوں کے باورچی ہو۔ آپ کا خیال ہے کہ آپ بہت سے کتوں کے لیے کھانا بنا رہے ہو۔‘ اب بی چونکہ اے کو ’ڈیڈی‘ کہہ رہا ہے تو مجھے یہی مناسب لگتا ہے کہ میں یہ فرض کر لوں، وہ باپ اور بیٹا ہیں۔ ’اے‘ واضح طور پر ایک باورچی تھا اور لگتا تھا کہ اس کا پکایا ہوا کھانا اس کے لیے باعث عزت نہیں۔ کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہاں ماں نہیں تھی؟ مجھے یہ پتہ نہیں لیکن میں نے اس وقت خود کو بتایا کہ ہماری شروعات ہمارے انجام نہیں جانتیں۔
’سیاہ۔‘ ایک بڑی کھڑکی۔ شام کا آسمان۔ ایک آدمی، اے (بعد میں ڈیلے بنا) اور ایک عورت، بی (بعد میں کیٹ بنی)، جام لیے بیٹھے ہیں۔ ’موٹی یا پتلی؟‘، آدمی پوچھتا ہے۔ یہ کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟ اور پھر میں کھڑکی میں کھڑی ایک عورت، سی (بعد میں جو اینا بنی)، ایک اور طرح کی روشنی میں دیکھتا ہوں، اس کی پشت ان کی طرف ہے، اس کے بال سیاہ ہیں۔
یہ ایک عجیب لمحہ ہے، ایسا لمحہ جو کردار تخلیق کرنے کا لمحہ ہے، ایسے کردار جو اس لمحے سے پہلے وجود ہی نہ رکھتے تھے۔ اس کے بعد جو ہوتا ہے، وہ ہموار نہیں ہے، غیر یقینی ہے یہاں تک کہ یہ واہمہ بھی ہے گو بعض اوقات یہ ایسا ’ایوالانچ‘ ( برفانی تودوں کا طوفان ) بھی ہوتا ہے جسے روکا نہیں جا سکتا۔ لکھاری کی حیثیت عجیب ہوتی ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو کردار اسے پسند نہیں کرتے۔ کردار اس سے الجھتے اور مزاحمت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ رہنا آسان نہیں ہوتا۔ ان کی تعریف طے کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ آپ انہیں قطعی طور پر ہدایات یا حکم نہیں دے سکتے۔ آپ ان سے ایک حد تک ہی نہ ختم ہونے والا کھیل، جیسے چھون چھوائی، چوہے بلی کا کھیل، چھپن چھپائی کھیل سکتے ہیں اور آخر آپ کو پتہ لگ ہی جاتا ہے کہ آپ کے ہاتھ میں گوشت پوست والے لوگ ہی ہیں، ایسے لوگ جن کی اپنی مرضی ہے، ان کی اپنی اپنی سمجھ بوجھ ہے ، وہ ایسے گتھے ہوئے اجزاء سے بنے ہیں جنہیں آپ تبدیل یا بگاڑ نہیں سکتے اور نہ ہی حسب ِ منشا اپنے اشاروں پر نچا سکتے ہیں۔
اس لیے آرٹ میں زبان کا استعمال ایک بہت ہی غیر یقینی معاملہ بن جاتا ہے۔ یہ ایسی ڈھیلی ریت، تراپلین ( تنے کینوس ) اور جمے ہوئے تالاب کی سطح ہے جو آپ کے، لکھاری و ادیب کے نیچے سے کسی وقت بھی سرک سکتی ہے۔
لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا، سچ کی کھوج کبھی نہیں رکتی۔ اسے موخر نہیں کیا جا سکتا۔ اسے ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا وہیں، اسی جگہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سیاسی تھیئٹر ایک بالکل ہی مختلف طرح کے مسائل کا مجموعہ پیش کرتا ہے۔ وعظ سے ہر قیمت پربچا جانا چاہیے۔ معروضیت بہت ضروری ہے۔ کرداروں کو یہ چھوٹ لازماً دینی چاہیے کہ وہ اپنی اپنی ہوا میں سانس لے سکیں۔ ادیب انہیں اپنے تعصب، پسند اور مزاج کو مطمئن اور خوش کرنے کے لیے محدود کرکے اور دبا کر نہیں رکھ سکتا۔ اسے انہیں مختلف زاویوں سے رسائی حاصل کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ انہیں بھرپور اورکھلے ڈُلے تناظروں سے دیکھنا چاہیے۔ انہیں اچنبھے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ وہ ایسا بے شک اور شاید کبھی کبھار ہی کر پائے لیکن یہ آزادی تو اسے اِن کو بہرحال دینی ہی چاہیے کہ وہ جو چاہے رخ اختیار کریں اور اپنی مرضی سے جہاں جانا چاہیں، جا سکیں۔ یہ ہر بار کام نہیں کرتا۔۔۔ اور سیاسی طنز تو بالکل بھی ان قاعدوں کی تابع نہیں ہوتی۔ یہ درحقیقت ان کے الٹ ہوتی ہے اور اس کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ میں نے اپنے ڈرامے ’برتھ ڈے پارٹی‘ میں محکومیت اور تابعداری کے ایک عمل پر اسے مرکوز کرنے سے پہلے، اس میں کرداروں کو امکانات کے گھنے جنگل میں ساری امکانی صورتوں کو کھل کھیلنے کی اجازت دی ہے۔
’ماؤننٹین لینگویج‘ البتہ اس طرح کی کوئی واردات بظاہر نہیں دکھاتا۔ یہ ظالمانہ، مختصر اور بھدا ہے لیکن اس ڈرامے میں بھی سپاہی اس سے کچھ نہ کچھ لطف اور مزاح حاصل کر ہی لیتے ہیں اور بندہ بسا اوقات اس میں ہونے والے تشدد کی بوریت کو باآسانی بھلا دیتا ہے۔ انہیں کچھ قہقہوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اپنے حوصلے بلند رکھ سکیں۔ اس کی تصدیق بغداد میں ابو غریب پر ہونے والے واقعات سے بھی ہوتی ہے۔ ’ماؤننٹین لینگویج‘ ویسے تو 20 منٹ کا ڈرامہ ہے لیکن یہ گھنٹوں جاری رہ سکتا ہے۔ آگے سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ اس کی یہی شکل بار بار دہرائی جاسکتی ہے۔ اسے گھنٹے کے بعد دوسرے گھنٹے میں آگے سے آگے لے جایا جا سکتا ہے۔
اس کے برعکس’ایشز ٹو ایشز‘ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے یہ پانی کے نیچے کھیلا جا رہا ہے۔ ایک ڈوبتی ہوئی عورت، لہروں سے ابھرتا اس کا ہاتھ، دوسروں کا متلاشی اور پانی تلے یا اس کے اوپر کسی کو نہ پا کر، اس کا نظر سے اوجھل ہوتے اس ہاتھ کو صرف تیرتے سائے اور عکس ہی نظر آتے ہیں۔ یہ عورت ڈوب جانے کے منظر نامے میں ایک گم شدہ ہیت ہے۔ یہ ایک ایسی عورت ہے جو اس بدنصیبی سے فرار حاصل نہیں کر پا رہی جو اسے دوسروں کا ہی مقدر لگتی ہے۔
۔۔۔ لیکن دوسرے جو مر چکے ہیں تو اسے بھی لازماً مرنا ہی ہے۔
سیاسی زبان جیسا کہ سیاست دان استعمال کرتے ہیں، اس دیار میں اپنا کھیل نہیں کھیلتی کیونکہ سیاست دانوں کی اکثریت، جیسا کہ ہمیں شواہد میسر ہیں، سچائی میں نہیں، طاقت اور فقط طاقت کو برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ عوام کو لاعلمی میں رکھا جائے، وہ سچائی سے لاعلم رہتے ہوئے زندہ رہیں، یہاں تک کہ انہیں اپنی زندگیوں کی سچائی کا بھی علم نہ ہو۔ یہی کارن ہے کہ ہم جھوٹوں سے بُنی اک وسیع ’شکار گاہ‘ میں گھرے ہیں اور ہمیں اسی پر پالا جاتا ہے۔
یہاں پر موجود ہر بندہ جانتا ہے کہ عراق پر حملے کا جواز یہ تھا کہ صدام حسین کے پاس بڑی تباہی پھیلانے والے بہت سے مہلک ہتھیار تھے جن میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو 45 منٹ میں داغے جا سکتے تھے اور ان سے خوفناک تباہی پھیل سکتی تھی۔ ہمیں یقین دلایا گیا تھا کہ یہ سچ ہے۔ یہ سچ نہیں تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ عراق کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات ہیں اور وہ 11 ستمبر 2001 ء میں نیوریارک میں کی گئی سفاکی کی ذمہ داری کا حصہ دار ہے۔ ہمیں یقین دلایا گیا کہ یہ سچ ہے۔ یہ سچ نہیں تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ عراق دنیا کے تحفظ کے لیے خطرہ ہے۔ ہمیں یقین دلایا گیا کہ یہ سچ ہے۔ یہ سچ نہیں تھا۔
سچ اس کے برعکس بالکل ہی مختلف ہے۔ سچ کا تعلق اس بات سے ہے کہ امریکہ دنیا میں اپنے کردار کو کس طرح سے دیکھتا ہے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کیا راستہ اختیار کرتا ہے۔
میں زمانہ حال میں واپس آنے سے پہلے، البتہ، ماضی قریب پر ایک نظر ڈالنا چاہوں گا۔ اس سے میری مراد دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکہ کی خارجہ پالیسی ہے۔ میرا ماننا ہے، ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم یہاں وقت کے محدود ہونے کے باوجود ، اس دور پر ایک اچٹتی نگاہ ضرور ڈالیں۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ جنگ کے بعد کے زمانے میں سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں کیا ہوا تھا۔ وہاں ایک منظم طریقے سے بربریت، وسیع پیمانے پر سفاکی اور آزاد سوچ پر بہیمانہ پابندی لگائی گئی تھی۔ یہ سب مکمل طور پر دستاویزآت میں محفوظ ہے اور مصدقہ ہے۔
یہاں، البتہ، میرا موقف یہ ہے کہ اسی دور میں امریکی جرائم کو سرسری طور پر ریکارڈکیا گیا۔ انہیں دستاویزات میں محفوظ کرنا، انہیں ماننا اور انہیں جرائم تسلیم کرنا تو دور کی بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مسئلے پر بات کی جائے کیونکہ آج دنیا جس مقام پر کھڑی ہے اس پر ہوتے ہوئے، اس پر سچ کا بہت بھاری بوجھ ہے۔ اگرچہ ابھی بھی، کچھ لوگ، سوویت یونین کے ہونے کو جواز بناتے ہوئے امریکہ کی ساری دنیا میں کی گئی حرکتوں کو واضح طور پر طور پر یوں دیکھتے ہیں، جیسے اسے کھلی چھٹی حاصل ہو کہ وہ جو چاہے سو کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی خود مختار ریاست پر براہ راست حملہ کرنا امریکہ کا پسندیدہ طریقہ کبھی نہیں رہا۔ مرکزی طور پر اس نے عام طور پر وہ طریقہ اختیار کیا ہے جسے ’کم شدت والا تنازعہ یا ٹکراؤ‘ کہتے ہیں۔ کم شدت والے ٹکراؤ کا مطلب ہے کہ ہزاروں لوگ مر جائیں لیکن ان پر ایک بم بھی نہ گرانا پڑے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ ملک کے دل کو متاثر کر دیں۔ آپ ایسا مہلک پھوڑا پیدا کر دیں اور پھر اس سے گینگرین (فساد نسیج) کو پھلتا پھولتا دیکھیں۔ جب عوام زیر کر لی جائے۔۔۔ یا انہیں پیٹ پیٹ کر مار دیا جائے۔۔۔ ایک ہی بات ہے۔۔۔ تو آپ کے اپنے دوست، فوج اور بڑی کارپوریشنیں آرام سے برسراقتدار آ جائیں تو آپ کیمرے کے سامنے جا بیٹھیں اور کہیں کہ اس ملک میں جمہوریت کا بول بالا ہو گیا ہے۔ میں جن سالوں کی بات کر رہا ہوں ان میں یہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں عام بات رہی ہے۔
نکاراگوا کا المیہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ میں اسے چُن کر یہاں اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ یہ دنیا میں امریکہ کے کردار کے حوالے سے، تب بھی اور اب بھی ایک قوی اور بڑی مثال ہے۔
1980کی دہائی میں، میں لندن میں امریکی سفارت خانے میں ہونے والے ایک اجلاس میں موجود تھا۔
امریکہ کی کانگریس یہ طے کرنے جا رہی تھی کہ نکاراگوا کی حکومت کے خلاف کی جانے والی ’کنٹراس‘ کی مہم کو مزید مالی امداد دی جائے یا نہیں۔ میں اس وفد کا رکن تھا جو نکاراگوا کی طرف سے بول رہا تھا لیکن اس وفد کا سب سے اہم رکن فادر جان میٹکاف تھا۔ امریکی وفد کا رہنما ریمنڈ سیٹز (اس وقت امریکی سفیر کا نائب اور بعد میں خود سفیر) تھا۔ فادر میٹکاف نے کہا:
”جناب، میں شمالی نکاراگوا میں مسیحی برادری کے علاقے کا انچارج ہوں۔ اس علاقے کے لوگوں نے وہاں ایک سکول، ایک مرکز صحت اور ایک ثقافتی مرکز بنایا۔ ہم وہاں امن سے رہ رہے تھے۔ چند ماہ پہلے کنٹراس کی فوج نے اس علاقے پر حملہ کیا۔ انہوں نے سکول، مرکز صحت اور ثقافتی مرکز سب کچھ تباہ کر دیا۔ انہوں نے نرسوں اور استانیوں کا بلادکار کیا اور ڈاکٹروں کو انتہائی ظالمانہ انداز میں قتل کر دیا۔ وہ وحشیوں کی طرح برتاؤ کرتے رہے۔ مہربانی کریں اور امریکی حکومت سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اس صدمہ انگیز اور دہشت گردی والی سرگرمی کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے۔“
ریمنڈ سیٹز منطقی، ذمہ دار اور انتہائی نفیس آدمی ہونے کے ناطے ایک اچھی شہرت کا حامل تھا۔ سفارتی حلقوں میں اس کی بہت عزت کی جاتی تھی۔ اس نے پادری کی بات سنی، کچھ دیر خاموش رہا اور پھر کسی قدر دلگیری سے بولا:
”فادر“، اس نے کہا، ”میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔ جنگ میں معصوم لوگ ہمیشہ اذیت سہتے ہیں۔“
یہ سن کر وہاں خاموشی برف کی مانند چھا گئی۔ ہم نے اسے گھور کر دیکھا لیکن وہ ٹس سے مَس نہ ہوا۔
واقعی،معصوم لوگ ہمیشہ اذیت سہتے ہیں۔
آخر کسی نے کہا:
”لیکن اس معاملے میں ”معصوم لوگ“ ایک ایسے بھیانک ظلم کا شکار ہوئے، جسے آپ کی حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی اور یہ بہت سے واقعات میں سے ایک ہے۔ اگر کانگریس ’ کنٹراس‘ کو مزید مالی امداد دینا منظور کرتی ہے تو اس طرح کی مزید سفاک وارداتیں ہوں گی۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ ایسے میں کیا آپ کی حکومت اس بات کی مجرم نہیں ہے کہ وہ ایک خود مختار ریاست کے شہریوں کے قتل اور ان کی املاک کی بربادی و تباہی کی کارروائیوں میں مددگار ہے؟“
سیٹز پرسکون تھا۔
”حقائق کو جس طرح پیش کیا گیا ہے وہ آپ کے موقف کی تائید نہیں کرتے اور میں اس سے متفق نہیں ہوں۔“ ، اس نے کہا۔
ہم ، جب ، سفارت خانے سے باہر جا رہے تھے تو ایک امریکی معاون اہلکار نے مجھے بتایا کہ وہ میرے ڈراموں سے محظوظ ہوتا ہے۔ تو میں اسے جواب نہ دے پایا۔
مجھے آپ کو یاد دلانا چاہیے کہ ایک وقت صدر ریگن نے درج ذیل بیان دیا تھا:
”کنٹراس اخلاقی لحاظ سے ہمارے بانیوں کے ہم پلہ ہیں۔“
امریکہ نے سموزا کی ظالم آمریت کی 40 سال سے بھی زیادہ حمایت کی اور مدد بھی۔ نکاراگوا کے عوام نے ’ سینڈینستاز‘ کی رہنمائی میں اس آمریت کا تختہ 1979 ء میں الٹ دیا تھا۔ یہ ایک انتہائی حیران کن، جوش بھرا، مقبول عوامی انقلاب تھا۔
سینڈینستازکامل نہیں تھے۔ ان میں بھی ایک طرح کا تکبر تھا اور ان کے سیاسی فلسفے میں بہت سے تضاد بھرے عناصر تھے۔ وہ،البتہ، ذہین، منطقی اور مہذب تھے۔ انہوں نے ایک پائیدار، معقول اور تکثیری معاشرہ قائم کیا۔ موت کی سزا ختم کر دی گئی۔ غربت کے مارے لاکھوں کسانوں کو موت کے منہ سے کھینچ کر واپس لایا گیا۔ لاکھ سے زیادہ خاندانوں کو زمین کی ملکیت دی گئی۔ دو ہزار سکول کھڑے کیے گئے۔ تعلیم کے لیے ایک زبردست مہم چلائی گئی جس کے نتیجے میں ناخواندگی کی شرح گھٹی اور 1:7 پر چلی گئی۔ مفت تعلیم اور مفت طبی سہولت کا اجراء کیا گیا۔ اطفال کی شرح اموات گھٹ کر 1:3 ہو گئی۔ پولیو جیسی بیماری کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے اُن کی اس کارکردگی کو مارکسسٹ / لیننسٹ تخریب کاری کہہ کر نندا کی۔ امریکی حکومت کی نظر میں، یہ ایک خطرناک مثال قائم کی جا رہی تھی۔ اگر نکاراگوا کو اجازت دی گئی کہ وہ معاشرتی اور اقتصادی انصاف کی بنیادی اصول کھڑے کر سکے، اگر اسے اجازت دی گئی کہ وہ طبی نگہداشت اور تعلیم کے معیار بلند کر سکے اور معاشرتی اتحاد و قومی وقار حاصل کر سکے تو اس کے ہمسایہ ممالک نے بھی یہی سوال اٹھانے تھے اور ایسا ہی کرنا تھا۔ اُس وقت، یقیناً ایل سلواڈور میں موجود ’سٹیٹس کو‘ کی صورت حال کے خلاف شدید مزاحمت جاری تھی۔
میں نے پہلے ’چھوٹ کی شکارگاہ‘ کی بات کی ہے جس نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔ صدر ریگن نے نکاراگوا کو ایک ”مطلق العنان قید خانے‘‘ کے طور پر بیان کیا۔ اسے میڈیا نے پوری طرح اچھالا اور برطانوی حکومت نے بھی اسے درست اور مناسب تبصرے کے طور پر قبول کیا۔۔۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ سینڈینستا حکومت کے تابع کوئی قاتل جتھے ریکارڈ پر نہیں تھے۔ تشدد کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہاں منظم یا سرکاری سطح پر فوجی بربریت موجود تھی۔ اس حکومت کے دوران کوئی پادری قتل نہیں کیا گیا تھا بلکہ تین پادری، دو’جیسوٹ‘ اور ایک ’میرینول‘ مشنری حکومت میں شامل تھے۔ مطلق العنان قیدخانے البتہ ساتھ ہی ایل سلواڈور اور گوئٹے مالا میں موجود تھے۔ امریکہ نے 1954 ء میں گوئٹے مالا کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو گرایا تھا اور ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ سے زائد لوگ تواتر سے قائم کی گئی فوجی آمریتوں کے ظلم کا شکار ہوئے تھے۔
دنیا کے چھ اہم ترین اور نامور ’جیسوٹوں‘ کو 1989 ء میں سین سلواڈور کی سنٹرل امریکی یونیورسٹی میں وحشیانہ طور پر قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ قتل ’الکیٹل‘ رجمنٹ کی ایک بٹالین نے کیے تھے جنہیں امریکہ کی ریاست جارجیا میں فورٹ بیننگ میں تربیت دی گئی تھی۔ ان میں نڈر اور بہادر آدمی آرچ بشپ رومیرو کو اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ وعظ دے رہا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ 75000 لوگ مارے گئے تھے۔ وہ کیوں قتل کئے گئے؟ وہ اس لیے مارے گئے کیونکہ وہ یقین رکھتے تھے کہ ایک بہتر زندگی ممکن ہے اور اسے حاصل کرنا چاہیے۔ ان کایہ یقین ایسا تھا کہ انہیں فوراً ہی کمیونسٹ قرار دے دیا گیا۔ وہ اس لیے مارے گئے کہ انہوں نے ’سٹیٹس کو ‘ پر سوال اٹھایا تھا۔ انہوں نے غربت کے نہ ختم ہونے والے پہاڑی سلسلے، بیماری، تنزلی اور ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائی تھی جو کہ ان کا پیدائشی حق تھا۔
امریکہ نے بالآخر سینڈینستا حکومت کو گرا ڈالا۔ اس میں کچھ سال لگے، خاصی مزاحمت ہوئی لیکن شدید اقتصادی ایذا رسانی اور تیس ہزار کی ہلاکت نے بالآخر نکاراگوا کے لوگوں کی روح کچل کر رکھ دی۔ وہ بے حال ہو گئے اور غربت نے انہیں پھر سے دبوچ لیا۔ ملک میں کسینو پھر سے واپس آ گئے۔ مفت علاج اور مفت تعلیم ختم کر دی گئی، بڑے کاروبار پھر سے انتقام لینے کے لیے لوٹ آئے۔’جمہوریت‘ پھر سے جیت گئی۔
یہی پالیسی، البتہ، صرف وسطی امریکہ تک ہی محدود نہ رہی، اسے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کے طور پر ساری دنیا پر لاگو رکھا گیا۔۔۔ اور یہ سلسلہ ایسے جاری ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد، امریکہ نے نہ صرف دائیں بازو کی فوجی آمریتوں کی حمایت کی بلکہ کئی صورتوں میں نئی آمریتوں کو جنم بھی دیا۔ میں یہاں انڈونیشیا، یونان، یوراگوائے، برازیل، پیرا گوائے، ہیٹی، ترکیہ، فلپائن، گوئٹے مالا، ایل سلواڈور اور یقیناً چِلی کی بات کر رہا ہوں۔ امریکہ نے 1973 ء میں چِلی پراپنا جو غصہ نکالا اور بربریت دکھائی، اسے کبھی بھی بھلایا اور معاف نہیں جا سکتا۔
ان ملکوں میں لاکھوں اموات ہوئیں۔ کیا ایسا نہیں ہوا تھا؟ ان سب صورتوں میں،کیا یہ سب امریکہ کی خارجہ پالیسی کا نتیجہ نہیں تھا؟ اس کا جواب یقیناً ہاں ہے۔ یہ سب ہوا تھا اور یہ سب امریکی خارجہ پالیسی کا ہی نتیجہ تھا لیکن آپ کو اس کا پتہ نہیں تھا۔
ایسا کبھی نہیں ہوا۔ کچھ بھی کبھی نہیں ہوا۔ اس وقت بھی جب یہ ہو رہا تھا تو یہ نہیں ہو رہا تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس میں کسی کو دلچسپی نہ تھی۔ امریکہ کے جرائم منصوبہ کے تحت ہوتے اور ترتیب رکھتے ہیں۔ یہ مستقل، فاسق اور مکمل بے حسی پر مبنی ہیں لیکن بہت کم لوگ اصل میں ایسے ہیں جو ان کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ امریکہ اس معاملے میں بہت چالاک ہے۔ اس نے دنیا بھر میں طاقت کو جوڑ توڑ کرکے یوں استعمال کیا ہے جیسے جراح مطب میں اپنے نشتر سے کاٹ پیٹ کرتا ہے۔ وہ ایسا ریاکاری سے کرتا ہے اور بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ وہ یہ سب دنیا کی بھلائی کے لیے کر رہا ہو۔ وہ اس معاملے میں شاطر ہے، مضحکہ خیز بھی اور اس کا یہ کام ایک کامیاب نظربندی سے کم نہیں ہے۔
میں بلاشبہ امریکہ کو سڑک پر ہونے والے سب سے بڑے تماشے کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ یہ چاہے کتنا ہی ظالمانہ کیوں نہ ہو، بے حس کیوں نہ ہو، توقیر سے گرا ہوا کیوں نہ ہو، بہیمانہ کیوں نہ ہو لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ وہ یہ تماشہ بڑی چالاکی سے لگاتا ہے۔ ایک مال فروش کی طرح وہ یہ اپنے آپ میں باہر نکلتا ہے اور اپنی سب سے زیادہ بِکنے والی شے جو اس کی خود سے محبت ہے، اپنی نرگسیت ہے، کو بیچتا ہے اور یہ اس میں کامیاب رہتا ہے۔ تمام امریکی صدور کو ٹیلی ویژن پر سنیں وہ سب یہ الفاظ بولتے ہیں:
”امریکی باسیو“، وہ جملے میں یوں مخاطب ہوتے ہیں، ”میں امریکہ کے باسیوں سے کہتا ہوں، یہ عبادت اور دعا کا وقت ہے، یہ امریکی باسیوں کے حقوق کے دفاع کا وقت ہے اور میں امریکی باسیوں سے یہ کہتا ہوں کہ وہ اس اقدام پر بھروسہ کریں جو وہ امریکی باسیوں کی خاطر لینے جا رہا ہے۔“
یہ ایک چمکیلی چال ہے، ملمع کی ہوئی حکمت عملی ہے۔ یہاں زبان لوگوں کو قابو رکھنے کے لیے برتی گئی ہے۔’امریکی باسیو‘ کے الفاظ یہاں بطور حوصلوں کو پھر سے بڑھاوا دینے والی ایک نفس پرستانہ گدیوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ آپ کو سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔آپ اس گدی پر پشت لگا کر نیم دراز ہو جاتے ہیں۔ یہ گدی چاہے آپ کی ذہانت ، تنقید کرنے والی صلاحیتوں کا گلا گھونٹ دے لیکن یہ بہت آرام دہ ہوتی ہے۔ اس کا اطلاق، البتہ ان 40 ملین (چار کروڑ) لوگوں پر نہیں ہوتا اورنہ ہی ان 2 ملین (20 لاکھ) مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو قید خانوں کے اُن وسیع ’گولاگوں‘ میں رہتے ہیں۔ یہ سب امریکہ کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔
امریکہ اب اپنی ’’کم شدت والے تنازعہ یا ٹکراؤ‘‘ کی پالیسی کے بارے میں بھی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ اب نرم برتاؤ اور فریب دینے میں بھی یقین نہیں رکھتا۔ وہ بلا خوف اور بِنا رعایت اپنے پتے میز پر رکھ دیتا ہے۔ صاف سی بات ہے، اسے اقوام متحدہ کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اسے عالمی قوانین اور اختلاف رائے رکھنے والوں کا بھی خوف نہیں۔ وہ انہیں نااہل، نامرد، بانجھ اور غیر اہم سمجھتا ہے۔ اس کے پاس اپنی ممیاتی بکری ہے جو اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہے۔ یہ بیچارہ اور چِت خواب ’عظیم‘ برطانیہ ہے۔
ہماری اخلاقی سمجھ بوجھ کو کیا ہو گیا ہے؟ کیا یہ کبھی ہمارے پاس تھی؟ یہ الفاظ ہمارے لیے کیا معانی رکھتے ہیں؟ کیا یہ اس اصطلاح جو آج کل کم کم ہی برتی جاتی ہے۔۔۔ شعور، ضمیر۔۔۔ کی طرف اشارہ کرتے ہیں؟ شعور، ضمیر صرف ہمارے اپنے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ یہ دوسروں کے اعمال کی ذمہ داری اٹھانے کا بھی پابند ہے اور کیا ہم اس ذمہ داری کو اٹھانے میں، ان کے ساجھے دار نہیں ہوتے؟ کیا یہ سب کچھ مر چکا ہے؟ گوانتے نامو خلیج کو دیکھیں۔ اس میں سینکڑوں لوگ تین سال سے بھی زیادہ عرصے سے، بِنا کسی الزام کے قید میں ہیں۔ ان کی کوئی قانونی نمائندگی نہیں کر رہا اور نہ ہی انہیں قانونی کارروائی، جس کے وہ حقدار ہیں، سے گزارا جا رہا ہے۔ تکنیکی طور پر وہ ہمیشہ کے لیے قید میں ہیں۔ اس قید خانے کا ڈھانچہ مکمل طور پر غیرقانونی اور ناجائز ہے اور جنیوا کنونشن کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اسے نہ صرف برداشت کیا جا رہا ہے بلکہ وہ جسے ’عالمی کمیونٹی / برادری‘ کہا جاتا ہے، اس پر شاید کبھی سوچتی ہی نہیں۔ یہ مجرمانہ اور انتہا درجے کاظلم وہ ملک ڈھا رہا ہے جو خود کو ’آزاد دُنیا‘ کا لیڈر، رہنما اور آگو کہلاتا ہے۔ کیا ہم گوانتے نامو خلیج میں رکھے گئے لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں؟ ان کے بارے میں میڈیا کیا کہتا ہے؟ وہ کبھی کبھی، صفحہ 6 پر ایک چھوٹی سی خبر لگا دیتے ہیں۔ یہ جگہ ان کے لیے ایک بند گلی سی ہے جس میں جا کر وہ شاید پھر واپس نہیں آ سکتے۔ اس وقت اُن میں سے کئی بھوک ہڑتال پر ہیں، انہیں زبردستی کھلایا جا رہا ہے اور ان میں برطانوی شہری بھی ہیں۔ زبردستی کھلائے جانے والے طریقے بھی غیر انسانی ہیں اور ان میں کچھ بھی مہذب نہیں ہے۔ انہیں نہ تو مسکن دوا دی جاتی ہے اور نہ ہی بیہوش کیا جاتا ہے۔ سیدھے سیدھے ان کے ناک اور منہ میں نالی لگا دی جاتی ہے۔ وہ بھلے خون کی قے کرتے رہیں۔ یہ بہیمانہ تشدد ہے۔ اس کے بارے میں برطانیہ کے خارجہ سیکرٹری نے کیا کہا؟ کچھ بھی نہیں۔ کیوں نہیں؟ اس لیے کہ امریکہ کہہ چکا ہے:
’گوانتے نامو خلیج میں ہمارے سلوک اور برتاؤ پر تنقید کرنا دوستانہ رویہ نہیں ہے۔ آپ لوگ یا ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف۔ ‘
یہی کارن ہے کہ بلئیر اپنا منہ بند رکھے ہوئے ہے۔
عراق پر حملہ سراسر ڈاکو زنی تھی۔ یہ ایک کھلی ریاستی دہشت گردی تھی۔ یہ عالمی قوانین کے تصور کی کلیتاً توہین تھی۔ یہ حملہ ستمگرانہ اور من مانا تھا اور میڈیا و امریکی لوگوں کی بھاری فاش و بیہودہ جوڑ توڑ اور بار بار بولے گئے جھوٹوں کی ایک سلسلہ وار لڑی کے بعد کیا گیا تھا۔ امریکہ کی اس حرکت کے پیچھے مشرق ِ وسطی کو امریکہ فوجی اور اقتصادی طور پر۔۔۔ ایک آخری حربے کے طور پر۔۔۔ جب باقی سب دلیلیں اور جواز ناکام ہو چکے تھے تو اسے قابو میں رکھنے کے لیے۔۔۔ اسے آزادی کا نام دیا تھا۔۔۔ اور ایک بڑی اور بھاری فوجی طاقت لگا کر اُسے ہزارہا معصوم لوگوں کی موت اور بربادی کا ذمہ دار بنایا تھا۔
ہم عراقی عوام پر تشدد، کلسٹر بم، تابکاری پھیلاتا یورنیم، قتل کی لاتعداد وارداتیں، مصیبتیں،تذلیل، اور موت لے کر آئے اور اسے ’مشرق ِ وسطی میں آزادی اور جمہوریت لانے‘ کا نام دیا۔
اس سے پہلے کہ آپ کو اجتماعی قتلام کا ذمہ دار اور ایک جنگی مجرم کہا جائے،آپ کو کتنے لوگوں کو مارنا ضروری ہوتا ہے؟ ایک لاکھ بندے؟ میرے خیال میں یہ کافی سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے صرف بُش اور بلئیر کو ہی جرائم کے حوالے سے ، انصاف کی عالمی عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ بُش البتہ شاطر ہے۔ اس نے جرائم کی شنوائی کے لیے عالمی عدالت کی توثیق ہی نہیں کی ہوئی۔ اسی لیے اگر کوئی امریکی فوجی یا سیاست دان کے خلاف اس عدالت میں کارروائی ہو تو بُش نے دھمکی دے رکھی ہے کہ وہ اپنے ’میرین‘ فوجی وہاں بھیج دے گا۔ ٹونی بلئیر نے البتہ اس عالمی عدالت کی توثیق کی ہوئی ہے اس لیے وہ تو استغاثہ کے لیے موجود ہے۔ ہم عدالت کو، اگر وہ چاہے تو اس کا پتہ دے سکتے ہیں۔ یہ 10،ڈاؤئنگ سٹریٹ، لندن ہے۔
اموات اس حوالے سے بے معانی ہو جاتی ہیں کہ بُش اور بلئیر، دونوں اموات کو بہت ہی کم اہمیت دیتے ہیں۔ عراق میں مسلح بغاوت برپا کروانے سے پہلے کم سے کم ایک لاکھ عراقی امریکی بموں اور میزائلوں سے مارے گئے۔ ان بندوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کی اموات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ یہ خانہ خالی ہے۔ انہیں ہلاکتوں میں شمار تک نہیں کیا گیا ہے۔
’’ہم لاشوں کی گنتی نہیں کرتے۔“، امریکی جرنیل ٹامی فرینک نے کہا تھا۔
حملے کے آغاز میں، برطانوی اخباروں کے پہلے صفحے پر ٹونی بلئیر کی ایک تصویر چھی تھی۔ اس میں وہ ایک ننھے عراقی بچے کی گال کا بوسہ لے رہا تھا۔ اس تصویر کا عنوان تھا،’ایک ممنون بچہ‘ کچھ دنوں کے بعد اخبارات میں اندر کے صفحے پر ایک چار سالہ بچے کی تصویر اور کہانی چھپی تھی۔ اس بچے کے بازو نہیں تھے۔ میزائل نے اس کا سارا خاندان اڑا دیا تھا، صرف وہی تھا جو زندہ بچا تھا۔’مجھے اپنے بازو کب واپس ملیں گے؟‘ وہ پوچھ رہا تھا۔ کہانی پہلے صفحے کی زینت نہ بنائی گئی۔ ٹھیک ہے نا، ٹونی بلئیر اسے، اس کے بازو سے تھامے ہوئے نہ تھا، نہ ہی کسی دوسرے مسخ شدہ بچے کا جسم اور نہ ہی کسی کی خون سے لت پت لاش اس کے ہاتھ میں تھی۔ خون گندہ ہوتا ہے۔ یہ آپ کی قمیض اور ٹائی کو گندہ کر دیتا ہے، خاص طور پر جب آپ ٹیلی ویژن پر ایک مخلصانہ تقریر کر رہے ہوں۔
دو ہزار امریکیوں کا مرنا باعث ہزیمت ہے۔ انہیں تاریکی میں ان کی قبروں تک پہنچا دیاگیا تھا۔ محفوظ جگہوں پر ایسی تدفینیں چُپ چاپ کر دی جاتی ہیں۔ مسخ شدہ، معذور اپنے بستروں پر پڑے سڑتے رہتے ہیں اور ان میں سے کچھ تو تاحیات ایسے ہی رہتے ہیں۔ یوں مردہ اور معذور دونوں ہی گلتے سڑتے سرانڈ مارتے ہیں، ہاں ان کی قبریں ذرا مختلف ہوتی ہیں۔
میں یہاں پابلو نرودا کی نظم ’میں کچھ اشیاء کی وضاحت پیش کر رہا ہوں‘، سے ایک اقتباس پیش کر رہا ہوں:
اور ایک صبح وہاں سب جل رہا تھا
ایک صبح اک الاؤ
زمین سے باہر لپکا
اور اس نے انسانوں کا نگل لیا
اور پھر تب سے آگ
اور پھر تب سے بارود
اور پھر تب سے خون۔
ڈاکو جہازوں کے ساتھ اور مُورز،
انگلیوں میں انگوٹھیاں پہنے ڈاکو اور آن بان والی عورتیں (امراء کی خواتین)
ڈاکو کالے لبادوں میں ملبوس راہبوں کے ساتھ
برکتیں بکھیرتے آسمان کے راستے آئے
کہ بچوں کو قتل کر سکیں
اور ان بچوں کا خون گلیوں میں بہنے لگا
اور اس نے کوئی ہنگامہ برپا نہ کیا جیسا کہ بچوں کا خون یہ نہیں کرتا
گیڈر، گیڈروں نے اسے یقیناً اسے حقیر جانا
پتھر جنہوں نے خشک گوکھرو چبائے اور تھوک دئیے
سانپ، سانپوں کو بھی اس سے گھن آئی
تمہارے ساتھ میں نے آمنے سامنے خون دیکھا
ہسپانوی مینار کا جو ایک لہر کی مانند تھا
جس نے تمہیں ایک ہی چھل میں ڈبو دیا تھا
یہ چھل تکبر اور چاقوؤں کی چھل تھی
غدار
جرنیلو:
میرے مردہ گھر کو دیکھو
شکستہ ہسپانیہ کو دیکھو:
پھولوں کی بجائے
ہر گھر سے پگھلتی دھات بہتی آتی ہے
ہسپانیہ کی ہر درز سے
ہسپانیہ ابھر رہا ہے
اور ہر مرے بچے سے ایک بندوق آنکھوں سمیت اوپر اٹھ رہی ہے
اور یہ جرم کی ہر گولی سے جنم لے رہی ہے
یہ سب ایک نہ ایک دن
تمہارے دل کا طاق کر نشانہ لے گیں
اور تم مجھ سے پوچھو گے: اس کی شاعری
خوابوں کی، پتوں کی،
اور اس کے اپنے وطن کے عظیم آتش فشانوں کی
باتیں کیوں نہیں کرتی
آؤ اور دیکھو کہ گلیوں میں خون ہے
آؤ اور دیکھو
گلیوں میں خون ہے
آؤ اور دیکھو کہ گلیوں میں خون ہے!
میں یہاں یہ بات واضح کردوں کہ نرودا کی نظم سے اقتباس پیش کرتے ہوئے میں ری۔ پبلکن ہسپانیہ اور صدام حیسن کے عراق کا تقابل نہیں کر رہا۔ میں اس لیے نرودا کو دہرا رہا ہوں کیونکہ میں نے ہمعصر شاعری میں اس سے زیادہ طاقتور اور دل کو چھو لینے والا، شہریوں پر کی جانے والی بمباری کا بیان، نہیں پڑھا۔
میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ امریکہ اب بالکل ہی کھل کر سامنے آ چکا ہے اور اپنے پتے میز پر رکھ کر کھیل رہا ہے۔ اب یہی صورت حال ہے۔ اب اس کی اعلانیہ پالیسی ’بھرپور طیفی غلبے‘ سے مہمیز ہوتی ہے۔ یہ میری بنائی اصطلاح نہیں ہے، یہ انہی کی بنائی ہوئی ہے۔ ’بھرپور طیفی غلبے‘ کا مطلب ہے زمین، سمندر، فضا اور خلاء پر مکمل قبضہ اور ساتھ میں اس میں موجود تمام وسائل بھی۔
امریکہ اس وقت د نیا بھر میں، اس کے 132 ممالک میں 702 فوجی تنصیبات رکھتا ہے، ویسے ان میں معزز سویڈن شامل نہیں ہے۔ ہمیں صحیح طور پر یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ وہاں کیسے پہنچے لیکن یہ وہاں بہرحال موجود ہیں۔
امریکہ کے پاس 8000 فعال اور قابل استعمال نیوکلیائی جنگی ہتھیار ہیں۔ ان میں سے دو ہزار ایسے ہیں جو بال برابر ’ٹریگر‘ پر ہیں اور صرف 15 منٹ کے انتباہ پرچھوڑے جا سکتے ہیں۔ امریکہ یوں نیوکلیائی طاقت کا ایک نیا نظام کھڑا کر رہا ہے جسے ’بنکر بسٹرز‘ کہتے ہیں۔ برطانوی جو ہمیشہ سے اس کے معاون رہے ہیں، اپنے نیوکلیائی میزائل ’ٹرائیڈنٹ“ بھی بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ یہ کس کو نشانے پر رکھنا چاہتے ہیں؟ اسامہ بِن لادن؟ آپ؟ میں؟ عام آدمی؟ چین؟ پیرس؟کون جانتا ہے؟ ہم البتہ یہ جانتے ہیں کہ نیوکلیائی ہتھیار رکھنا اور ان کے استعمال کی دھمکیاں دینا طفلانہ دیوانگی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔۔۔ اور یہ امریکہ کے سیاسی فلسفے کی روح ہے۔ ہمیں خود کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ امریکہ مستقل طور پر فوجی دوڑ میں لگا ہوا ہے اور کسی طور اُس کے اِس سے پیچھے ہٹنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
ہزاروں لاکھوں، اگر ملینز میں نہیں، امریکہ کے عوام مظاہرے کر چکے ہیں کہ وہ اپنی حکومتی اقدامات سے کتنے تنگ، شرمندہ اور غصے میں ہیں لیکن چیزیں جس طرح کھڑی ہوتی ہیں یہ ایک مربوط سیاسی قوت کے طور پر ابھی تک ابھر نہیں پائیں۔۔۔ لیکن امریکہ میں بے چینی، تشویش، غیر یقینی اور خوف ہمیں ہر روز بڑھتا نظر آتا ہے اور یہ سب ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
میں یہ جانتا ہوں کہ صدر بُش کے پاس بہت سے انتہائی قابل تقریر لکھنے والے ہیں لیکن میں اس کام کے لیے اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کرنا چاہوں گا۔ میں اسے درج ذیل مختصر خطاب تجویز کرتا ہوں جسے وہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے ٹیلی ویژن پر پیش کر سکتا ہے۔ میں اسے ایک متین شخص کی طرح دیکھتا ہوں جس کے بال اچھی طرح سنورے ہوئے ہیں۔ وہ سنجیدہ ہے۔ جیت اس کے چہرے ہر لکھی ہے۔ وہ مخلص ہے۔ وہ وقتاً فوقتاً فریبی نظر آتا ہے۔ کبھی کبھی وہ اپنے منہ پر ایک ٹیڑھی مسکراہٹ لاتا ہے۔ وہ پراسرار حد تک دلکش ہے اور ڈنڈی پٹی بھی مضبوط لگتا ہے۔
”خدا اچھا ہے۔ خدا عظیم ہے۔ خدا اچھا ہے۔ میرا خدا اچھا ہے۔ بِن لادن کا خدا بُرا ہے۔ اس کا خدا بُرا ہے۔ صدام کا خدا بُرا تھا بلکہ اس کا کوئی خدا نہیں تھا۔ وہ ایک وحشی تھا۔ ہم وحشی نہیں ہیں۔ ہم لوگوں کے سر قلم نہیں کرتے۔ ہم آزادی میں یقین رکھتے ہیں۔ خدا بھی اس پریقین رکھتا ہے۔ میں وحشی نہیں ہوں۔ میں آزادی سے پیار کرنے والی ایک جمہوریت کا جمہوری طریقے سے منتخب ہوا رہنما ہوں۔ ہم درد ِ دل رکھنے والا ایک معاشرہ ہیں۔ ہم ہمدردی کے ساتھ لوگوں کو برقی کرسی پر بٹھاتے ہیں اور مہلک ٹیکے لگاتے ہیں۔ ہم ایک عظیم قوم ہیں۔ میں آمر نہیں ہوں۔ وہ آمر ہے۔ میں وحشی نہیں ہوں۔ وہ ہے۔۔۔ اور وہ ہے۔ وہ سارے ہیں۔ میرے پاس اخلاقی اتھارٹی ہے۔ تم یہ مکا دیکھتے ہو؟ یہ میرا اخلاقی جواز ہے۔۔۔ اور تم لوگ اسے مت بھولو۔“
ایک ادیب کی زندگی بہت ہی کمزور ہے اور اس کی سرگرمی تقریباً عیاں ہوتی ہے۔ ہمیں اس کے بارے میں رونے کی ضرورت نہیں۔ ادیب اپنے لیے انتخاب خود کرتا ہے اور پھر اس پر ہی قائم رہتا ہے۔۔۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اسے ہر طرح کی ہواؤں کے تھپیڑے سہنے پڑتے ہیں، جن میں سے کچھ برفانی بھی ہوتے ہیں۔ آپ اپنے آپ کے ساتھ اپنے یقین کے ساتھ باہر نکلے ہوتے ہیں۔ آپ کو کوئی سائبان نہیں ملتا، کوئی تحفظ کوئی پناہ نہیں ملتی۔۔۔ یہاں تک کہ آپ جھوٹ نہ بولیں۔۔۔ اور ایسا کرتے ہوئے آپ اپنا تحفظ خود قائم کرتے ہیں۔ اس پر بحث بھی کی جا سکتی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ آپ سیاست دان کیوں نہیں بن جاتے۔
میں نے اِس شام کئی بار موت کا ذکر کیا ہے۔ میں اب اپنی ہی ایک نظم ’موت‘ سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں:
لاش کہاں پائی گئی تھی؟
لاش کس نے پائی تھی؟
کیا لاش جب ملی تھی تب بھی مردہ تھی؟
لاش کیسے پائی گئی تھی؟
لاش کس کی تھی؟
مرے ہوئے کا
کون باپ تھایا بیٹی یا پھر بھائی
یا چچا یا بہن یا ماں یا بیٹا
کس کا جسم تنہا چھوڑ دیا گیا؟
کیا لاش جب تنہا چھوڑی گئی تو مردہ تھی؟
کیا لاش تنہا چھوڑی گئی تھی؟
لاش کس نے تنہا چھوڑی تھی؟
کیا لاش ننگی تھی یا سفر کے لیے ملبوس کی گئی تھی؟
کیا اس بات کااعلان کیا گیا تھا کہ لاش مردہ ہے؟
کیا تم نے اس کے مردہ ہونے کاا علان کیا تھا؟
تم لاش کو کتنی اچھی طرح جانتے تھے؟
تمہیں یہ کیسے پتہ تھا کہ یہ مردہ تھی؟
کیا تم نے لاش کو نہلایا تھا؟
کیا تم نے اس کی دونوں آنکھیں بند کی تھیں؟
کیا تم نے لاش کو دفنایا تھا؟
کیا تم نے اسے تنہا چھوڑا تھا؟
کیا تم نے لاش کو بوسہ دیا تھا؟
جب ہم آئینے میں دیکھتے ہیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے سامنے جو عکس ہے وہ بالکل درست ہے۔۔۔ لیکن ایک مِلی میٹر کی حرکت عکس کو بدل دیتی ہے۔ ہم اصل میں انعکاس کے ایک لا منتاہی سلسلے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن کبھی کبھار ادیب کو یہ آئینہ توڑ دینا پڑتا ہے۔۔۔ کیونکہ یہ آئینے کی پرلی طرف ہی ہوتی ہے جہاں کھڑی سچائی ہمیں گھور رہی ہوتی ہے۔
میرا ماننا ہے کہ بے تحاشہ امکانات کے موجود ہونے کے باوجود، ہمیں بطور شہری نڈر، غیر متزلزل، تندہی اور دانشورانہ عزم کے ساتھ اپنی زندگیوں اور معاشروں کی ’اصل‘سچائی کو بطور اہم اور فیصلہ کن ذمہ داری دیکھنا چاہیے جو ہم پر لادی گئی ہے۔۔۔اور اسے نبھانا سب پر لازم ہے۔
اگر اس طرح کا استقلال ہماری سیاسی بصیرت میں مجسم نہیں ہو گا تو ہم انسان کے اس وقار کو بحال نہیں کر سکیں گے جسے ہم تقریباً کھو چکے ہیں۔
( برطانوی ادیب ہیرلڈ پِنٹر ( Harold Pinter) کا یہ ویڈیو لیکچر 7 دسمبر 2005 ء کو سویڈش اکیڈیمی ، سٹاک ہوم ، سویڈن میں پیش کیا گیا تھا ۔ وہ طبی وجوہ کارن خود اس محفل میں شامل نہیں ہو سکا تھا ۔ )