آرٹ گیلری میں اور وہ
ہر طرف خاموشی تھی۔چاروں طرف کینڈل لائیٹس کا سماں تھا۔ٹیبلز انواع و اقسام کے کھانوں سے سجے تھے۔کینیڈ کالج کے بلکل سامنے،نئیرنگ آرٹ گیلری کے کیفےمیں خوبصورت شہزادوں اور پریوں نے دلکش محفل سجائی ہوئی تھی۔آرٹ گیلری دلکش پینٹگز سے اٹکی پڑی تھی ۔گیلری کے چاروں اطراف دلکش رنگ برنگی برقی قمقمے مسکرا رہے تھے۔یہ برقی قمقمے آرٹسٹوں کے آرٹ کو مزید دلکش اور خوبصورت دیکھاتے نظر رہے تھے۔حسن اور خوبصورتی ہر انداز سے مجھے اور اسے ورغلا رہی تھی۔حسین لڑکے اور لڑکیوں کا کینڈل لائیٹس میں روح پرور رومانس اور ان کے بیچ و بیچ ادیبوں اور دانشوروں کا میلہ سجا ہوا تھا ۔
واہ کیا رونق تھی۔رومانوی افراد کے ٹیبلز پر مغربی مشروبات جبکہ ادیبوں کے ٹیبلز پر چائے اور کافی چل رہی تھی۔ہلکی آواز میں موسیقی دلوں کو چھو رہی تھی۔یوں محسوس ہوریا تھا جیسے ہم واقعی کسی خیالی تخلیقی جنت کا حصہ بن چکے ہیں ۔کافرانہ ادائیں،جدید خیالات، معصوم حسین چہرے، پراسرار خاموشی میں لڑکے لڑکیوں کی سرگوشیاں اور ادیبوں کی گفتگو۔یہ تھا وہ منظر جسے ہم دونوں انجوائے کررہے تھے۔
معلوم نہیں کیوں وہ مجھے اپنے ساتھ اس دلفریب آرٹ گیلری میں لے آئی تھی َتازگی اور دلکشی چیختی چلاتی نظر آرہی تھی۔ہم کینڈل لائیٹس سے مزین ایک ٹیبل کے آمنے سامنے پڑی دو کلاسیکل کرسیوں پر براجمان ہوگئے۔اب وہ میرے سامنے بیٹھی خاموشی سے مسکرارہی تھی۔موم بتیوں سے ابھرتی فطری روشنیوں میں اس حسین و جمیل،لمبی پتلی لبرل خاتون کا چہرہ چمک رہا تھا اور میں اس کی کافرانہ اداؤں میں ڈوب چکا تھا۔وہ لب کھولتی تو میں اس کے سحر میں ڈوب جاتا۔وہ مسکراتی تو اس کے ہونٹوں اور دانتوںٕ کی سفیدی میری آنکھوں سے ٹکڑا جاتی،اس طرح میری روح وجدانی کیفیت کا شکار ہوجاتیَ۔اس کا مسکرا کر کھلکھلانا مجھے بیقرار کر رہا تھا ۔۔۔
یہ ایسی نیقراری تھی جو مجھے روحانی سکون مہیا کررہی تھی۔رومانس زدہ ماحول میں محبت، امن ،پیار عشق اوراسمارٹ انسانیت کا رقص جاری تھا۔ کا بسیرا تھا۔ ملامتی صوفی کے روپ میں شیطانی سرور کا مزہ لے رہا تھا۔ سامنے والی ٹیبل پر ادیب گفتگو فرما رہے تھے۔معلوم نہیں کیسے اور کس طرح میں اور وہ رومانوی ماحول سےادیبوں کی گفتگو سننا شروع ہوگئے۔ ان چار ادیبوں میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔نوجوان دانشورجدید دور کا منٹو محسوس ہورتھا۔سفید لباس،بڑی بڑی عاشقانہ زلفیں اور پرانے زمانے کی عینک لگائے اس نوجوان ادیب کے رنگ و ڈھنگ ہی نرالے تھے۔دانشوروں کے بحث کا موضوع تھا،کتاب سے محبت بھی شدت پسند سوچ کو بڑھا دے رہی ہے
ان کی ادبی سوچ اور خیالات ہم دونوں غور سے سننے لگے ۔کہیں روشنی اور کہیں سوچتا اندھیرا۔ہم دونوں خاموشی سے سوچنے والے انسانوں کی سوچ کے عشق میں مبتلا تھے ۔بوڑھا ادیب کہہ رہ تھا حضور والا اس وطن میں پچاس فیصد روحیں تعلیم سے محروم ہیں جبکہ جو نام نہاد تعلیم یافتہ بھی ہیں وہ بھی جاہلوں سے بڑھ کر جاہل ہیں۔نتہا پسندی اور دہشت گردی ان نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی وجہ سے پھل پھول رہی ہے۔تعلیم یافتہ جاہل ان پڑھ جاہلوں سے زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں۔ان کے قلم سے نکلے الفاظ پاکستان کے انسانوں کو بندوق اور نفرت کی طرف مائل کررہے ہیں۔ ڈیجیٹل زمانہ بھی ہمارے معاشرتی ماحول اور اس کی فطرت کو تبدیل کرنے میں ناکام ہو چکا ہو ہے۔پاکستان اور دنیا میں کوئی ایسا دہشت گرد نہیں جو چٹا ان پڑھ ہو۔ہر دہشت گرد پر تعلیم کا اثر ہوتا ہے۔کسی نہ کسی تعلیم یافتہ جاہل کے زہر آلود نظریئے ہی نے دہشت گردوں کا دماغ خراب کیا ہوا ہے
ریاستی ادارے اور خود ریاست اپنے مفادات کے لئے مرضی کے انسان پیدا کررہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں شعور بھی درندگی کی کیفیت میں ہے۔علمی بددیانتی کی وجہ سے دہشت گردوں اور انتہا پسند عناصر کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔بوڑھا ادیب غصے کی کیفیت میں تھا۔اونچی آواز میں اس نے کہا اقبال اور قائداعظم تک کے خیالات ونطریات کو ہر ایرہ غیرہ اپنی مرضی کے مطابق ڈھال رہا ہے۔افراد ادارے سب کے سب علمی بددیانتی میں ملوث ہیں۔بوڑھے ادیب کے خاموش ہوتے ہی دوسرے دانشور بوڑھے نے کہا کہا کہ اب اس ملک میں کہاں روشن خیال اور ترقی پسند ادب چھپتا اور بکتا ہے؟معقول سوچ پر مبنی کتابیں بھی اب خال خال ہی چھپتی اور بکتی ہیں۔جبکہ انتہا پسندانہ لٹریچر لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو ریا ہے ۔اردو جیسی لبرل زبان اب انتہاپسندوں کی زبان بن چکی ہے۔انتہا پسندانہ،فرقہ وارانہ لٹریچر اردو زبان کو برباد کرچکا ہے۔صرف ایک چھوٹا سا منافق روشن خیال طبقہ ہے جو انگریزی میں سوچتا لکھتا اور پرھتا ہے ۔۔۔۔۔۔
اب خاموش بیٹھی خاتون بھی بحث میں الجھ پڑی۔تین مرد ادیبوں میں سہمی خاتون ڈرتے ڈرتے بولی یہ وہ زمانہ ہے جب اردو ادب میں ایسا ادب سامنے آرہا ہے جس میں صرف یہ بتایا جارہا ہے کہ کس طرح یہودی ہندو اور باقی تہذیبی یافتہ دنیا پاکستان اسلام اور مسلم امہ کے خلاف سازش کررہی ہے۔ کس طرح اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں۔اب اردو ادب میں ان نام نہاد ادیبوں،کالم نویسوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی جارہی ہے جو یہ لکھ رہے کہ پاکستان اور اسلام کو دنیا سے کتنا بڑا خطرہ ہے۔پوری عمارت ہی اسی بنیاد پر تعمیر کی جارہی ہے۔انتظار حسین،فیض احمد فیض،مجید امجد ،ن م راشد قصہء پارینہ ہو چکے۔نسیم حجازی سے متاثر نام نہاد تعلیم یافتہ ادیب ایسا ادب تخلیق کررہے ہیں جو عوام کی طبعیت کو تو خوش کررہا ہے لیکن ایسا ادب صرف اور صرف انسان کا دماغ خراب کر رہا ہے۔ادبی میلوں کا رواج تقریبا ناپید ہوتا جارہا ہے۔ساحر لدھیانوی اور ابن صفی کو اب کون کمبخت جانتا ہے۔ترقی پسندانہ ادب اب اردو میں کہاں ملتا ہے۔انیس اور دبیر کے مرثیوں سے ہماری نوجوان نسل کہاں واقف ہے ۔جدید ناول نگاری ،اشتراکیت،لبرل ازم پر اب کونسا ادیب لکھ رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب اردو ان موضوعات سے اٹکی پڑی تھی ۔انیس سو اناسی میں جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا اور اس کے بعد انکل سام کی افغانستان میں آمد ہوئی پھر تو پاکستان میں تمام خیالات و نظریات اور بیانیئے ہی امریکہ کی مرضی سے تخلیق کئے گئے ۔اس کے بعد ہی سے اردو ادب میں خ سے خنجر آیا ،ب سے بم آیا ۔پاکستان کا نصاب بھی پھر امریکہ کی مرضی سے پیدا کیا گیا۔امریکہ نے ایسےلوگ بنائے جو کمیونزم کی ایسی تیسی پھیر سکیں۔روس کو افغانستان سے بھگا سکیں ۔ستر کی دہائی میں کتاب میلوں میں دس فیصد روائیتی لٹریچر ہوتا تھا اور نوے فیصد کتابیں تعلیمی یا سیکولر نیچر کی ہوتی تھی۔اس دور کے میلوں میں فیض،سعادت حسن منٹو،عصمت چغتائی، ساحر لدھیانوی کے خیالات خوب بکتے تھے۔لیکن اب تو سب خلت ملت ہوگیا
گفتگو کا سلسلہ جاری تھا،زارا اور میں ادبی لوگوں کے سحر میں گرفتار تھے۔ہم دونوں رومانس اور محبت کی چاشنی لینے آئے تھے لیکن یہاں تو اب معاملہ ہی مختلف تھا۔رومانس کو بھول کر ہم ادب کے سحر میں قید تھے ۔چوتھا ادیب جو بہت دیر سے بولنے کے لئے بیقرار تھا۔اب اس کی باری تھی ۔بولا صاحب اردو زبان میں بہت جان ہے۔بڑی تعداد میں ترقی پسند ادب اس زبان میں لکھا گیا ۔مسئلہ یہ ہوا ہے کہ ترقی پسند ادیبوں اور روشن خیال دانشوروں نے اردو زبان میں لکھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ریاست اور ریاستی ادارے اردو اخبارات اور نیوز چینلز کی سرپرستی کررہے ہیں اور اپنی مرضی کا لٹریچر پھیلا رہے ہیں۔آج کے اردو اخبارت میں بھی نوے فیصد نسیم حجازی کے خیالات ملتے ہیں۔اردو اخبارات اور نیوز چینلز میں آج بھی جناح کی گیارہ اگست کی تقریر کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا ہے یا پھر اس تقریر کو سازش لکھا جاتا ہے ۔نیوز چینلز پر نفرت سےبھرپور تعصبانہ زہن کا قبضہ ہے ۔ہر سکرین پر ڈاکٹر شاہد مسعود جیسے نقلی دانشور حکماء نظر آتے ہیں ۔سازشی ایجندا ہی جن کا مقصد ہے اورجوخیالات اور نظریات بنادیئے گئے ہیں اسی وجہ سے تشدد،دہشت گردی اور انتہا پسند کا دور دورہ ہے ۔۔۔۔
منٹو اور فیض کی زبان جسے اردو کہتے ہیں اب وہ شاہد مسعود اور عامر لیاقت کی زبان بن چکی ہے ۔بڑی چالاکی سے اس زبان کو یرغمال بنایا گیا ہے ۔روشن خیال تو اب اس قدر منافق ہو چکے کہ اردو کی کتاب پڑھنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔صاحب یہ روشن خیال تو اب یہ تک کہتے ہیں کہ ان کے بچوں کی اردو بڑی کمزور ہے۔پاکستان میں نوجوان نسل کو پنجابی ،پشتو،سندھی،لوچی اور سرائیکی زبانوں میں ادب دینے کی ضروت ہے ۔ایک زمانہ تھا جب لیفٹ کے دانشوروں ،ادیبوں اور کالم نویسوں کی بھرمار تھی ۔رائیٹ کا کالم نویس خال خال ہی ملتا تھا۔اب صورتحال مختلف ہے۔اب لیفٹ کے ،اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ رکھنے والے اور الگ سوچنے والے ادیب ،کالم نویس اور اینکرز نایاب ہو چکے ۔۔۔۔
گفتگو کا سلسلہ جاری تھا۔زارا اب گھر جانا چاہتی تھی ۔رات کے دو بج چکے تھے۔ہم نئیرنگ آرٹ گیلری کی خوبصورت دنیا سے باہر نکلے ۔زارا رکشے پر بیٹھ کر گھر کو روانہ ہو گئی ۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔