ہم اکثر کچھ بڑا کرنے کا سوچتے ہیں۔ مگر کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ لیکن کچھ لوگ چھوٹا چھوٹا کام کر کے بہت بڑا کام کر جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص کا نام ہے ارشد مغل۔ کئی برس قبل میں ان سے غائبانہ متعارف ہوا۔ دل میں ایک حسرت تھی کہ کاش میں ایسے شخص سے مل سکتا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب میں ان کے گھر پہنچ گیا۔
شکل اور حلیے سے آئن سٹائن کے بھائی بند لگتے تھے۔ سفید بالوں کی جھالریں دائیں بائیں کندھوں کو چُھو رہی تھیں۔ جبکہ سر کی اوپری چمکتی جلد سے بال غائب تھے۔ مسکراہٹ ان کی شخصیت کا اہم جزو تھی۔ جب ان کے کام کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اک نیا جہان کُھل گیا۔
"میجک بال" نامی لکڑی کا ایک چھوٹا سا فٹ بال تھا۔ اس کے اندر ایک اور بال، اندر ایک اور، پھر ایک اور۔ اسی طرح کُل گیارہ گیند اندر گیند تھے۔ حیرت کی بات تھی کہ ان لکڑی کے ٹکڑوں میں ایک بھی جوڑ نہیں تھا۔ اور ہر گیند اندر الگ الگ گھوم سکتا تھا۔ میں نے اپنے ذہن میں اس "میجک بال" کو بنانے کی مختلف تراکیب پر غور کرنا شروع کیا۔ میں خیالوں میں گیند بنا کر اسے تو نہ گھما سکا، البتہ دماغ گھوم کر رہ گیا۔
اسی طرح ایک لکڑی کے ٹکڑے پر کوئی عجیب و غریب نقش بنا تھا۔ وہ نقش مصری تہذیب کے کسی فن پارے سے مشابہہ تھا۔ یہ نقش یقیناً لکڑی کو اوزاروں سے چھیل کر بنایا گیا تھا۔ مگر حیرت اس وقت ہوئی جب انہوں نے پلاسٹک کی ڈبیوں میں بند لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نکال کر دکھائے۔ یہ ٹکڑے کوئی آدھ انچ کے تھے۔ مگر ان پر بنائی گئی مختلف اشکال واضح تھیں۔ جنہیں دیکھ کر آنکھیں جھپکنا بھول گئی تھیں۔ اور پھر انہوں نے ایک ڈبی کھولی جس میں لکڑی کا معمولی سا ذرہ تھا۔ جسے ایک پھونک سے اُڑایا جا سکتا تھا۔ مگر وہ معمولی ذرہ تب غیر معمولی ہو گیا جب انہوں نے اسے دیکھنے کے لئے خورد بین نکالی۔ خورد بین میں اس پر بنی انسانی شکل واضح دیکھی جا سکتی تھی۔
اس کے علاوہ ان کے پاس مختلف سکے تھے۔ جو حکومتِ پاکستان نے مختلف موقعوں پر جاری کئے تھے۔ پاکستان مِنٹ کے ہنر مند جب سکے پر عبد الستار ایدھی کی شبیہ بنانے میں ناکام رہے تو ان کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ہم نے جو عبد الستار ایدھی، ڈاکٹر روتھ فاؤ اور سر سید احمد خان کے اعزازی سکے دیکھے ہیں، وہ انہی کے بنائے ہوئے ہیں۔
پھر باری آئی قلعی اور پارے سے بنے ان شاہکاروں کی جو چار ملی میٹر پر بنائے گئے تھے۔ ان پر قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کی شبیہ بنائی گئی تھی۔ اگرچہ انسانی آنکھ انہیں بآسانی پہچان سکتی تھی مگر خورد بین سے ان کے نقوش مزید واضح ہو جاتے تھے۔ یہاں تک کہ سوئی کی نوک برابر قائدِ اعظم کی ایک تصویر کو دیکھنے کے لئے خورد بین تبدیل کرنا پڑی۔ پہلے والی خورد بین اس کو دکھانے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔
لکڑی، پتھر اور مختلف دھاتوں پر کندہ قائدِ اعظم، علامہ اقبال، بدھا اور دیگر قومی و سماجی شخصیات کی تصاویر کے علاوہ نقش و نگار کا ایک خزانہ ان کے پاس موجود تھا۔ جنہیں دیکھنے سے انسانی آنکھ قاصر تھی۔ ان کے بنائے کئی شاہکار عجائب گھر لاہور، سائنس میوزیم لاہور اور لاہور آرٹ گیلری میں موجود ہیں۔ کئی ممالک میں ان کے بنائے شاہکار نمائش کے لئے پیش کئے گئے ہیں۔
اس ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ وہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کروانے کے لئے ایک شطرنج بنا رہے ہیں۔ پھر انہوں نے وہ شطرنج دکھائی جو ابھی تکمیل کے مراحل میں تھی۔ یہ نہایت چھوٹی سی شطرنج تھی جسے انہوں نے ایک پلاسٹک کی ڈبی میں رکھا تھا۔ شطرنج کے ساتھ تانبے کی باریک تار کے تین چار چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تھے۔ جب خورد بین کی مدد سے دیکھا تو بارہ ملی میٹر کی اس شطرنج میں پورے چونسٹھ خانے تھے۔ تانبے کی تاروں کے سروں کو تراش کر بادشاہ، وزیر اور گھوڑے کے مہرے بنائے گئے تھے۔ انہوں نے وہ باریک باریک اوزار بھی دکھائے جن سے یہ سب شاہکار بنائے گئے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ سب اوزار بھی انہوں نے خود بنائے تھے۔
اس ملاقات میں میرا دوست مسلسل ان کی ویڈیو بناتا رہا اور اس کی ساتھی ہماری تصاویر بناتی رہی۔ وہ بیس ممالک کے چوبیس دورے کر چکے تھے۔ کئی اخبارات اور ٹی وی چینل ان کے انٹرویو کر چکے تھے۔ اکثر لوگ ان سے اپنی مرضی کی مشین بنوانے کے لئے رابطہ کرتے تھے۔ مگر وہ حکومتی سرپرستی سے محروم تھے۔ انہوں نے اپنے تئیں بہت کوشش کی کہ وہ اپنا فن ملکی مفاد میں استعمال کریں۔ مگر کسی نے ان کی بات پر خاص توجہ نہ دی۔ حالانکہ کئی ممالک انہیں اپنے ساتھ کام کرنے کی دعوت دے چکے تھے۔ واپسی پر انہوں نے ہم تینوں کو علامہ اقبال کی شبیہ والے چار ملی میٹر کے فن پارے تحفتاً دیے۔
دو روز پہلے میں کراچی سے آئی ایک بہن سے ملنے گیا۔ واپسی پر سوچا کہ اس عظیم فن کار کو سلام کرتا چلوں۔ ان کا گھر وہاں سے دو گلیوں کے فاصلے پر تھا۔ دروازے پر پہنچ کر میں نے انہیں کال کی۔ اس عظیم فن کار نے بڑی محبت سے مجھے اپنی کرسی پر بٹھایا۔ اور خود اپنے کام کرنے والی میز پر میرے سامنے بیٹھ گئے۔ اس بار گفتگو کے دوران میری نظر بار بار ان کے ہاتھوں پر جاتی تھی۔
انہوں نے مجھے وہ پنچ مشین دکھائی جو کسی نے اپنے کام کی مناسبت سے بنوائی تھی۔ جس سے چمڑے میں چھوٹے بڑے سوراخ کئے جا سکتے تھے۔ پھر انہوں نے اپنے بنائے دو مزید شاہکار دکھائے۔ یہ دو چھوٹی چھوٹی مشینیں تھیں۔ ایک مشین کوئی انچ برابر تھی جبکہ دوسری ایک کیپسول میں بند تھی۔ حیرت یہ تھی کہ دونوں مشینیں کام بھی کرتی تھیں۔
انہوں نے بابا گرو نانک کی پانچ سو پچاسویں سالگرہ کے موقع پر اپنا بنایا سکہ دکھایا۔ یہ پانچ سو پچاس روپے کا اعزازی سکہ پاکستان منٹ کے لئے خاصا منافع بخش ثابت ہوا۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کئی دلچسپ واقعات سنائے۔ یہاں میں ایک واقعہ انہی کی زبانی نقل کرتا ہوں۔
"میں نے ننکانہ صاحب ایک اسٹال لگایا۔ میرے پاس بابا گرو نانک والے سکے تھے۔ اس کے علاوہ سونے، چاندی اور بہت سے پارہ و قلعی کے چار ایم ایم والے سکے تھے۔ جن پر بابا گرو نانک کی تصویر بنائی گئی تھی۔ ایک شخص نے مجھے وہاں اسٹال لگانے سے منع کر دیا۔ اور کہا کہ میں فوراً اپنا سامان اُٹھا کر یہاں سے چلتا بنوں۔ میں نے گردوارے کی طرف منہ کر کے بابا جی سے گلہ کیا، میں تو کچھ اور ہی سوچ کر آیا تھا پر خیر۔۔۔ میں نے اتنا کہا اور اپنا سامان سمیٹنے لگا۔ اس دوران ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا میں بے دھڑک اپنا اسٹال یہاں لگا سکتا ہوں۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرے سارے سکے فروخت ہو گئے۔ میرا ایمان ہے کہ یہ آرڈر اُدھر سے ہی آیا تھا۔"
جب میں ان سے رخصت لینے لگا تو اس بار پھر انہوں نے مجھے ایک تحفہ دیا۔ بابا گرو نانک کی شبیہ والا چار ملی میٹر کا شاہکار۔ پاکستان میں فن کاروں کی کمی نہیں ہے۔ مگر فن کے قدر دانوں کا فقدان ہے۔ وہ مائیکرو آرٹ کے اس ہنر کو اگلی نسل تک منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ مگر شاید کوئی بھی ادارہ ان سے فیض یاب ہونے کا خواہاں نہیں۔ انہوں نے یہ فن اپنے بچوں کو سکھایا ہے۔ مگر شاید وہ بھی اس میں خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ کیونکہ وہ اپنے باپ کی نا قدری اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔