کتاب: تصورخدا
"خدا پرقلم اٹھانا ہرلحاظ سے مشکل ترین ذمہ داری اورکٹھن فیصلہ تھا۔ خدائی ذات کا تصورجتنا عظیم وبرترہے، عامتہ الناس کے اتنے ہی گہرے جذبات اوراہل دانش کی اتنی ہی ارفع بصیرت اس گتھی کے ساتھ وابستہ رہی ہے لیکن خدا کے بارے میں ہمارے ہاں غیرمذہبی حوالے سے کوئی زیادہ علم موجود نہیں۔ ابھی تک اردوزبان کے علمی اثاثے کچھ نازک موضوعات کے حامل علم سے محروم ہیں۔
پتہ نہیں یہ بات صحیح ہے کہ نہیں کہ انسان بنیادی طورپرسہل پسند واقع ہوا ہے اسی لئے تووہ افراد جومشکل پسند ہوتے ہیں، وہ مثالی قرارپاتے ہیں، ہیرواوردیوتا بن جاتے ہیں۔ تمام قائدین مذاہب، صوفیوں، فلاسفروں، مفکروں، سائنسدانوں اورانقلابیوں کی جوبات انہیں عام لوگوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ ان کی مشکل پسندی تھی۔ وہ اپنے مروجہ حالات پرمطمئن نہیں ہوئے بلکہ نئے افکار، نئی اقدار، نئی راہوں اورنئی صداقتوں کی جستجومیں چل پڑے۔ یہ کام صاف ظاہرہے بڑے جوکھم کا ہے۔ ایک توبنی بنائی جگہ اورروایتی رشتوں کوچھوڑدینا اوردوسرے ان دیکھی منزلوں کی طرف گامزن ہوجانا، جن کی طرف بنے بنائے راستے نہیں جاتے۔
نہ جانے ماہرین ذہانت کی کیا تعریف کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی تعریف مشکل پسندی بھی کہی جاسکتی ہے کیونکہ تمام ذہین افراداصل میں مشکل پسند ہوتے ہیں۔ وہ خود کوانتہائی مشکل صورت میں ڈالتے اورانتہائی پیچیدہ گتھیوں میں خود کوالجھاتے ہیں تاکہ آنے والی نسلوں کے لئے نئی منزلوں کی جانب راہیں آسان ہوجائیں۔
ہمارے ہاں صورت حال مختلف ہے، معاشرے کا بیشترذہین فطین طبقہ Middle Class Intelligensia and Intellectuals جسے اپنی فطرت کے مطابق بے چین، مشکل اوراختراع پسند ہونا چاہیے، وہ سہل انگیزی کی راہ پرچل رہا ہے اوران مصنوعی لیکن جذباتی اورمقدس مسائل کی زلفوں کا اسیرہے جو Establishment نے اپنے مفادات کے لیے پیدا کررکھے ہیں۔ وہ ایسی بات برملا کہنے کی جرات نہیں کرتا جس سے "ہماری سماجی وقومی اقدار" خطرے میں پڑجائے حالانکہ اقدارہوں یا نظریات وہ گزرتے وقت کے پہیے کے نیچے آکرہرآن دم توڑتے رہتے ہیں اورزندہ قومیں ہروقت نیا اندازنظروضع کرنے اورنئی اقدارکوپیدا کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔
مقدس چیز وہ ہوتی ہے، جس پرزیادہ سے زیادہ عرصے تک ہاں میں ہاں ملائی جاتی رہے اورکسی کواس پرانگلی اٹھانے کی جرات نہ ہواورنہ خیال آئے لیکن فکرنوکےلئے کہیں نہ کہیں سے اورکبھی نہ کبھی تو Breakthrough ہونا ہی ہوتا ہے کہ
فطرت کوٹھہرائوقطعی نامنظورہے۔
اگلے صفحات میں خدا کے تصورکی کہانی پیش کی جارہی ہے۔ خدا کی کہانی خود انسان کے شعورکے ارتقاء کی داستان ہے۔ اگرگہری توجہ نہ دی گئی تواس کتاب کے بعض مندرجات کچھ لوگوں کے لئے صدمہ کا باعث ہوسکتے ہیں۔ میں ان سے معافی کا خواستگارہوں اوران کے عقائد اوران کے حق ایمان کا دل سے احترام کرتا ہوں لیکن کیا کیاجائے کہ ایسے صدمے سے دوچارخود ڈارون کوبھی ہونا پڑا تھا جب فطرت اسے ایسی کہانی سناتے ہوئے نظرآئی جوبڑے مذاہب کی پیش کردہ کہانی سے قطعی مختلف تھی۔۔۔۔۔۔۔ لیکن خود فطرت کی بتائی ہوئی کہانی سے انکارممکن نہ تھا۔
زیرنظرکتاب کا مقصد اس سوال کواٹھانا ہے کہ کیا خدا کے ساتھ جذباتی اوراندھے عقیدے کے بجائے عقل وخرد کا رشتہ استوارنہیں کیا جاسکتا؟ دیکھا جائے توجسے ہم خدا کہتے ہیں، وہ کسی کے ماننے یا نہ ماننے کا محتاج نہیں، پھرہم اس کے نام کشت وخون کرنے پرآمادہ کیوں ہوجاتے ہیں؟ کیا خدا کی قوت ودانش ہم سے کم ہے؟ جس نے اثبات ونفی کی دنیا خودہی تخلیق کی ہے۔ ہم کیوں سوچتے ہیں کہ خدا کا وجودو تصورصرف جذباتی ایمان سے قائم رہ سکتا ہےاوراسے لٹھ بازمحافظوں اورہرآن تشدد پرآمادہ دلالوں کی ضرورت ہے۔
کسی سے پوچھ کردیکھیں۔ خدا یا مذہب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب خوداپنی علمی سطع کے مطابق دے گا۔ اس کے جواب سے پتہ چلے گا کہ خود اسے کتنا Exposure مل چکا ہے۔ ملا تصورخدا اورہوگا اورایک سائنسدان کا اور۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب ہوا، خدا کیا ہے؟ کا تعین خودانسان اپنے علمی پس منظرکے حوالے سے ہی کرتا ہے۔
چنانچہ اس کتاب کا مقصد ہزاروں سال پرانے تصورخدا کوآج کے انسانی علم کے مقابل رکھ کراس کا ازسرنو جائزہ لینا ہے کیونکہ وہ دن زیادہ دورنہیں لگتا جب کعبہ ارض سے سب مرئی اورغیرمرئی بت رخصت ہوجائیں گے۔
آخرمیں ایک کہنا ضروری ہے۔ اس کتاب میں جوکچھ کہا گیا ہے وہ حرف آخرنہیں، محض سوچنے سمجھنے کی ایک کاوش ہے، نئے اورغیرروایتی رخ کوجانے بغیرصداقت اورعلم کے دروازے نہیں کھل سکتے۔ ان دوستوں کوسامنے آنا چاہیے جومجھ سے زیادہ علم رکھتےہیں اوراہلیت بھی تاکہ جوسوالات تشنہ رہ گئے ہیں یا صرف نظرہوگئےان پرمزید روشنی پڑسکے۔"
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“