ارشد محمود پاکستان کے روشن خیال اور خرد افروزی کے داعی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ مسلسل کئی سالوں سے پاکستان کے سیاسی، نظریاتی اور فکری مسائل کے بارے میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی ان مسائل کے حوالے سے ایک سوچی سمجھی رائے ہے جسے وہ مدلل انداز میں بلا جھجک بیان کرتے ہیں۔ ان کی فکر ی ترجیحات اور ان کی اپروچ سے اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن جس ثابت قدمی سے وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اورجس بہادری اور بیباکی سے اس کا اظہار کرتے ہیں، اس کی تحسین نہ کرنا تنگ دلی کے سوا کچھ نہیں۔
سوشل میڈیا پر وہ بہت متحرک ہیں۔ شائد ہی کوئی دن ایسا ہو کہ ان کے فیس بک پیج پر ان کی کوئی نئی تحریر موجود نہ ہو ۔لکھنا ان کے لئے شوق سے زیادہ مشن کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ سوشل میڈیا کو نظریاتی اور سماجی تبدیلی کے لئے بہت اہم خیال کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔
چند سال پہلے تک سوشل میڈیا عوام کی نچلی پرتوں کی دسترس سے باہر تھا ۔ ان دنوں عامتہ الناس کو اپنے خیالات و نظریات سے روشناس کرانے کا ذریعہ کتاب ہی تھی۔ ارشد محمود نے اپنے خیالات اپنی کتابوں کی صورت عام لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کیا تھا۔ انھوں نے تین کتابیں لکھی ہیں جن میں پاکستان کی مذہبی ، سماجی اور نظریاتی صورت حال کے مختلف پہلووں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ان کی پہلی کتاب ’ تصور خدا‘ تھی جس میں انھوں نے مختلف تاریخی ادوار میں ’تصور خدا‘ کی ابتدا، نشوو نما اور ارتقا کا جائزہ لیا ہے۔ان کا موقف ہے کہ’ تصور خدا‘ کوئی ساکت و جامد تصور نہیں ہے بلکہ مختلف ادوار اور مذاہب میں ’تصور خدا‘ مسلسل ترقی پذیر رہا ہے۔ ماضی بعید میں ’خدا‘ سے جو خصوصیات و صفات وابستہ کی جاتی تھیں زمانہ جدید میں ان کی نوعیت بالکل بدل چکی ہے۔
ان کی دوسری کتاب ثقافتی گھٹن اور پاکستانی معاشرہ ‘تھی جس میں انھوں نے سماجی پسماندگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ثقافتی گھٹن کو موضوع بنایا ہے۔ ثقافتی گھٹن کے نتیجے میں جو اخلاقی بگاڑ جنم لیتا ہے ارشد محمود نے اپنی کتاب میں اس کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ اپنی تیسری کتاب ’ تعلیم اور ہماری قومی الجھنیں‘ میں انھوں نے ہماری تعلیم کے نتیجے میں جو مائنڈ سیٹ تشکیل ہوا ہے اس کواپنی بحث کا موضوع بنایا ہے۔
ہمارے نظام تعلیم کی بدولت جو مائنڈ سیٹ متشکل ہوا ہے تعصب، حسد ، ہر نئے خیال سے خوف ،محصور ذہنیت اور خودساختہ برتری اس کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ زیر نظر کتاب ’آواز عصر‘ ارشد محمود کے متفرق مضامین کا مجموعہ ہے۔ مجموعہ میں شامل کچھ مضامین تو وہ ہیں جو گاہے گاہے مختلف جرائد ورسائل میں چھپ چکے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو مصنف نے اپنے فیس بک پیچ پر پوسٹ کئے ۔
ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس کی بدولت اذہان میں بہت سے فکری مغالطے ، مبالغے، جامد عقائد ، جھوٹ اور غلط بیانی سے آلودہ خیالات اپنے پاؤں جما چکے ہیں۔ان جامد اور تعصب سے لبریز عقائد کے خلاف قلمی جنگ ضروری ہے تاکہ عام لوگوں کی بالعموم اور تعلیم یافتہ افراد کی بالخصوص سوچ،فکر کو ابہام اور فرضی قصے کہانیوں کے گورکھ دھندوں سے نجات دلائی جاسکے ۔ ارشد محمود کے یہ مضامین انہی مقاصد کو پیش نظر رکھ کر لکھے گئے ہیں ۔
مغربی تہذیب کے بارے میں ہمارے ہاں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مغربی معاشرہ ’جنسی بے راہ روی کا شکار ‘ ہے۔ زنا اور قانونی تعلق کے بغیر بچوں کی پیدائش اور خودغرضی ہمارے نزدیک مغربی معاشرے کی اہم اور لازمی خصوصیات ہیں۔ ارشد محمود اس تصور کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’مغرب میں عورت کی عزت جتنی محفوظ ہے اتنی کسی ایسے معاشرے میں نہیں جو خود کو پاکباز سمجھتا ہے۔وہاں جوان لڑکیا ں تن تنہا دور دراز کے ممالک کا سفر کرتی ہیں۔ ہوٹلوں میں بسا اوقات اجنبی مردوں کے ساتھ روم شیئر کرتی ہیں لیکن کیا مجال کہ کسی کے ساتھ کوئی زبردستی کر جائے‘۔
اس کے بر عکس ہمارے ہاں ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہمارے ہاں زنا بالجبر روزمرہ کا معمول ہیں حتی کے نابالغ لڑکیاں بھی اس ظلم و زیادتی سے محفوظ نہیں ہیں۔ یہاں ہر سال غیرت کے نام پر سینکڑوں عورتوں کو ان کے قریبی عزیز قتل کر دیتے ہیں ۔ اکیلی عورتوں کے لئے سفر کرنا جان جو کھوں کا کام ہے۔ شرافت، حیا اور پردے کے نام پر ہمارے نوجوان جنسی مریض بن چکے ہیں۔ مغرب میں لوگ زندگی ( خوشیوں سے بھرپور) گذار رہے ہیں جب کہ مشرق میں ارشد محمود کے بقول’ لوگ زندگی عذاب کے طور پر گذار رہے ہیں ‘۔
مسئلہ کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی بدولت پاکستان اور بھارت کے مابین تین مکمل اور دو ادھوری جنگیں ہوچکی ہیں ۔ گذشتہ ستر سال سے یہ مسئلہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ اس مسئلے کے بارے میں بھی ارشد محمود کی سوچ عقلی اور عملی ہے۔ وہ پاکستانی قوم پرستی کی بجائے اس مسئلے کو حقائق کی عینک سے دیکھتے ہیں ۔ان کا موقف ہے کہ کشمیر کو الجھانے میں زیادہ ہاتھ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کا ہے۔ سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ہمیشہ اس مسئلے کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ کشمیر کے عوام کو اگر کبھی یہ موقع ملا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر یں تو ارشد محمود کا خیال ہے کہ وہ دونوں۔پاکستان اور بھارت کے ساتھ رہنے کی بجائے آزاد ی حاصل کرنا چاہیں گے۔
ارشد محمود سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کو کشمیر کے نام پر مفاد پرستوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور بھارت باہم مذاکرات کریں اور بتدریج تمام متنازعہ امور کو حل کی طرف لے کر جائیں۔ یہ کہنا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر دونوں ممالک کے باہمی تعلقات ٹھیک نہیں ہوسکتے، غیر حقیقت پسندانہ حکمت عملی ہے۔
ارشد محمود نے اپنے ایک مضمون ’ہماری سکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ کے اسلامی ہیروز‘ میں ان غیر ملکی حملہ آوروں کی حقیقت بیان کی ہے جنھیں ہماری نوجوان نسل بغیر جانے اپنا ہیرو سمجھتی ہے۔ ہمارے نصاب تعلیم کے صدقے جائیے جس کی بدولت ہم نے اپنی نوجوان نسل کویہ باور کرادیا ہے کہ بیرونی حملہ آور جو حادثاتی طور پر مسلمان تھے ہمارے ہیرو ہیں ۔ یہ اس تعلیمی نصاب کا پھل ہے کہ ہمارے سکیورٹی ادارے اپنی پیشہ ورانہ مشقوں اور ہتھیاروں کو ان بیرونی حملہ آوروں کے ناموں سے منسوب کرتے ہیں۔
ہمارے نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ محمود غزنوی اسلام کا شیدائی اور مجاہد تھا ۔ ہندوستان پر اس نے جو سترہ حملے کئے تھے وہ ’اسلام کا پیغام پھیلانے‘ کے لئے تھے نہ کہ لوٹ مار کی غرض سے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمارے اسلامی مورخین نے غزنویوں کے قاتل اور ان کی حکومت کا تختہ الٹنے والا شہاب الدین غوری کو بھی’ مجاہد اسلام‘ قرار دے رکھا ہے۔ حالانکہ ان بیرونی حملہ آوروں کا کوئی دین ایمان نہیں تھا ۔ لوٹ مار ہی ان کا مذہب اور قتل و غارت گری ان کا مشن تھا ۔ ان کے راہ میں رکاوٹ بننے والا خواہ مسلمان ہوتا یا کوئی دوسرا مذہبی عقیدہ رکھنے والا یہ اس کا قتل انتہائی سفاکی سے کر دیتے تھے۔
محمود غزنوی کی اسلام سے محبت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بغداد کا بھی وہی حشر کرنا چاہتا تھا جو اس نے سومنات کے مندر کا کیا تھا۔ اسے ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ہماری سکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ نے ان لیٹروں کو اپنا ہیرو بنا رکھا ہے اور ان کے نام پر ہم نے اپنے میزائلوں اور ایٹمی ہتھیاروں کے نام رکھے ہوئے ہیں۔ ہماری عسکری اشرافیہ کا ایک اور ہیرو احمد شاہ ابدالی بھی ہے اور اس حقیقت کے باوجود کہ اس نے دلی کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور لاکھوں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا تھا ۔یہ احمد شاہ ابدالی کے حملے ہی تھے جس نے دلی کی مغل باد شاہت کو کمزور کیا اور ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے کی راہ ہموار کی تھی ۔
ارشد محمود کے یہ مضامین غیر روایتی سوچ و فکر کے حامل ہیں ۔ یہ اپنے پڑھنے والوں کو غورو فکر کی نئی دنیا سے روشناس کراتے ہیں ایسی دنیا جو عقل، معروضیت اور عملیت پسندی سے تشکیل پاتی ہے۔ یہ مضامین ان فکری الجھنوں کا پر دہ چاک کرتے ہیں جنھوں نے ہماری نوجوان نسل کے اذہان کو اپنی گرفت لے کر ترقی اور خوشحالی کی راہ روک رکھی ہے ۔ امید ہے یہ مضامین غورو فکرکے نئے در وا کرتے ہوئے جامد عقائد میں جکڑے ہمارے سماج میں فکری گشادگی کا باعث بنیں گے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...