فیصل آباد سے متعلق ارشد جاوید کا اردو ادب میں ایک اہم حصہ ہے ۔۔یہ کمزور و نحیف شاعر اپنے اندر توانا سوچیں اور پر فکر لہجہ لیے ہوۓ ہے ۔۔بات کا سچا اور کھرا انسان جس کے انگ انگ سے شاعرانہ ادائیں پھوتیں ہیں۔۔۔ارشد جاوید کی شاعری کا آغاز پانچ عشرے قبل ہوا تھا ۔انہوں نے نظم اور غزل دونوں اصناف ادب میں شاعری کی ۔۔کم کم لکھا مگر خوب لکھا اور جتنا لکھا اس سے بھی کم شائع کیا ۔۔
اُن کا مختصر کلام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اُن کے شعری مجموعے ’’ذرا سی دھوپ‘‘ اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ اس میں سماجی وسیاسی مزاحمتی رنگ غالب ہے۔ بہت کم شاعر اپنے مافی الضمیر کی اشاعت میں اتنی سنجیدگی و بہادری کا مظاہرے کرتے ہیں۔
ارشد جاوید کا پہلا اور واحد مجموعہ ’’ذرا سی دھوپ‘‘ 2010میں شائع ہوا۔ ’’ذرا سی دھوپ‘‘ پر ریاض مجید نے لکھتے ہوئے کہا ہے کہ
’’ارشد جاوید کی شاعری سماجی حقائق سے جڑی ہوئی شاعری ہے۔ انھوں نے محبت و رومان پر نہ ہونے کے برابر لکھا ہے کہ ان کا مزاج اور ان کے مسائل اسی زمانے اور نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سیاسی انتشار اور معاشرتی تبدیلیوں نے حساس ذہنوں کو پگھلا کے رکھ دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ نسل مسائل اور حساسیت کے سبب بچپن سے ایک دم بزرگی کے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور ان پر شباب کے موضوعات اس طرح وارد نہیں ہوئے جس طرح ان سے پہلے نسل پر وارد ہوئے۔ان کی شاعری کا مجموعہ استعارہ ہمارے خطے کے آج کے اس فرد کا دکھ ہے جو بندھے پاؤں اور کٹے بازؤں کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔‘‘
انھوں نے غزل اور نظم دونوں اصناف ادب میں شاعری کی ہے ۔۔۔کم۔ کم لکھا مگر خوب لکھا اور جتنا لکھا اس سے کم شاہع کیا ۔۔۔۔
عورت ، ارشد جاوید کی شاعری کا مرکز اور بنیادی آستعارہ ہے ۔۔اس پس منظر میں مشرقی عورت کے کرب کا احاطہ ان کی نظموں کا مرکزی نقطہ ہے ۔۔
ذرا سی دھوپ کسی لمحے میں
دو خلیوں کی آمیزش
نیا فتنہ جگاتی ہے
ارشد جاوید کی شاعری فکری بالیدگی ،احساس کی ندرت اور جذبے کی متنوع کیفیات کو حقیقتا طرز تحریر کی ایک منفرد اساس فراہم کرتی ہے ۔۔انھوں نے اپنی شاعری کو شعوری طور پر علامتوں اور ابہام سے دور رکھا ہے جسے اکثر شعرا اپنی تخلیقات کو بلند درجہ دینے کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں ۔اپنے ابتدایہ میں لکھتے ہیں
" مجھے اردو شاعری میں علامتوں اور ابہام کی اہمیت سے انکار نہیں مگر میں اپنی شاعری کی حد تک سمجھتا ہوں کہ اسے کسی وسیلے یا واسطے کے بغیر قاری کے دل و دماغ تک اترنا چاہیے "۔۔
ارشد جاوید کی شاعری سماجی حقایق سے جڑی ہوئی شاعری ہے ۔۔انھوں نے محبّت و رومان نہ ہونے کے برابر لکھا۔۔ان کے مزاج اور ان کسے مسائل اسی زمانے اور اسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔۔۔۔ممتاز شاعر اور محقق ڈاکٹر محمود رضا سید اپنے تاثرات میں محترم ارشد جاوید کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔۔
"ارشد جاوید لائل پور کی ادبی تاریخ کا ایک اہم نام ہے ان کے بغیر ستر کی دہائی نامکمل سمجھی جاتی ہے ارشد جاوید ایک مثبت سوچ رکھنے والے ترقی پسند شاعر ہیں حلقہ ارباب ذوق لائل پور کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ایک دو سال سے حلقے میں نہیں آرہے حلقہ ارباب ذوق ان کے بنا سونا لگتا ہے حلقے کے اجلاسوں میں ان کی حاضری سو فیصد ہوا کرتی تھی آج کل بیمار ہیں لہذا ان کی غیر حاضریوں کا سببب ان کی بیماری ہے بطور شاعر ارشد جاوید ایک ترقی پسند شاعر ہیں اور ترقی پسند نقاد بھی ہیں۔"
بھلاتا ہوں مگر صورت پرانی یاد رہتی ہے
مجھے اک شخص کی نقل مکانی یاد رہتی ہے
بہت سے جاننے والوں کی شکلیں بھول جاتی ہیں
جو بچپن میں سنی تھی وہ کہانی یاد رہتی ہے
(ارشد جاوید )
ارشد جاوید کی شاعری انسانی رویوں کے دلفریب اظہار کا نام ہے ۔۔دل و دماغ پر جو اثرات وارد ہوتے ہیں شاعر ان کو دلنشین اور مانوس الفاظ میں اس آہنگ اور انداز سے ادا کرتا ہے کہ قاری اس کی شدت کو محسوس کرتا ہے ۔۔۔۔شاعری اظہار سخن کا ایسا انداز ہے۔ جس میں کہنے والا سب کچھ کہہ بھی دیتا ہے پھر بھی تشنگی باقی رہتی ہے۔ایک دلگرفتہ شخص ان اشعار میں اپنا عکس دیکھتا ہے ۔سیاسی انتشار اور معاشرتی تبدیلیوں نے ایک حساس ذہن کو کس طرح پگھلا کے رکھ دیا ہے۔۔نظم "چلڈرن وارڈ " کی دو سطریں ملاحظہ ہوں ۔
پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی کو مرنا نہیں چاہیے
میرے اندر کے انسان کا مشورہ ہے
ان کی شاعری میں عصری آشوب اسی انتشار کا نوحہ ہے جس میں ان کی زندگی گزر رہی ہے ۔۔جاگتی آنکھوں اور کھلے آسمان کے ساتھ انھوں نے معاصر رویوں کو دردمندی سے دیکھا اور دکھی دل سے اس کے مرثیے کو سنا ۔۔ارشد جاوید کی شاعری کے موضوعات سماجی حقائق کے بیان پر مشتمل ہیں ۔۔۔انہوں نے اپنی نظموں میں ایک معتبر وضاحت کے ساتھ اپنے اثر کی خوب ترجمانی کی ہے ۔
ہماری ہجرتوں کا سلسلہ کب ختم ہوگا
ہم اپنا شہر اپنا خانوادہ مانگتے ہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ ارشد جاوید سماجی ناانصافی جبر اور استبداد کے خلاف پورے انسانی وقار کے ساتھ اپنی نظموں میں ہمیں نظر آتا ہے ۔۔اور اس نے تخلیقی ارتقا کے عمل کو قائم رکھا ہے ۔۔۔
وہ عام آدمی کے لیے عام اور بنیادی ضروریات سے مزین زندگی مانگتے ہیں:
ہم کبھی یوں تو خسارے پہ چلے جاتے ہیں
نصف کو چھوڑ کر سارے پہ چلے جاتے ہیں
شکل کچھ یوں ہے مری تیزی رفاقت کے بغیر
جیسے اک ہاتھ ہو انگشت شہادت کے بغیر
ہزار آنکھ نے جیبوں کی سمت دیکھا ہے
سفر کا حال تو بس میری ماں نے پوچھا ہے
پکارتے تو بہت ہیں صدا نہیں چلتی
ہمارے شہر میں اکثر ہوا نہیں چلتی
جو بھی قربت ہے،وہ شکلوں کی اکائی تک ہے
فاصلہ ورنہ بہت بھائی سے بھائی تک ہے
تمھیں جوہم نے حقِ حکمرانی دے دیا ہے
زمیں تو تھور تھی پر ہم نے پانی دے دیا ہے
اداس رکھتا ہے اپنی زمیں کا حال مجھے
تو ان خلاؤں کی تسخیر پر نہ ٹال مجھے
ڈاکٹر قاسم یعقوب ، ارشد جاوید کے فن پر یوں رقم طراز ہیں ۔۔
" ارشد جاوید کے ہاں شعری منظر نامہ کسی محر ک کا ردِ عمل بنتاہے۔ وہ معروض کی جمالیات کا تابع رہنا پسند کرتا ہے۔ گو اُس کا جذباتی الاؤ اُسے اندروں بیں حسیت فراہم کرتا ہے مگر وہ باہر کے تلخ اور پُرآشوب تجربے کی پردہ پوشی نہیں کر پاتا۔ارشد جاوید کی غزلوں کا یہ حوالہ بنیادی نوعیت کا ہے۔ ارشد کے ہاں صرف بغاوت کا لاوابہتا نظر نہیں آتاہے بلکہ وہ ردِ تشکیل کے دوران تعمیر کی خاکہ سازی بھی سامنے رکھتا ہے۔ عموماً سماج کے سیاسی مدوجزرکا شکارہونے والے شاعر جزوقتی اظہار ہی کرپاتے ہیں۔ کھوکلے نعرے اوربیکار طرز کی جذباتیت اُن کا طرزِ اظہار بن جاتی ہے مگر ارشد جاوید کے ہاں اس انتشار کے اندر سے خوبصورت رومانی بیانیہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ ارشد جاوید کے ہاں غزل کی صنف کا کلاسیکی معیار غالب نہیں،وہ غزل کو اپنے جدید اظہار کا ایک تختہ مشق سمجھتا ہے اسی لیے وہ بعض جگہوں پر بہت سادہ اظہار کر جاتا ہے۔ کچھ اشعار میں تو شعر کا بیانیہ غیر شعری جمالیات میں ڈھل گیا ہے جس پر کچھ احباب انھیں شاعری ہی نہیں مانتے۔ شاعر کچھ جگہوں پر اپنے بیان کی تشریح کے لیے خوداس میدان میں اترتا ہے تاکہ وہ اپنے نکتہ نظر کو مکمل خام حالت میں پیش کر سکے ایسا اظہار عموماً مضبوط نقطہ نظر رکھنے والوں کے ہی ہاں ملتا ہے۔"
ارشد جاوید ایک مضبوط نکتہ نظر رکھنے والا شاعر ہے جو شاعری کو کسی جمال پسندجذبے کی تسکین کا شکار نہیں ہونے دیتا۔۔۔۔۔
ارشد جاوید نے الفاظ کے انتخاب میں بڑی فنکاری کا ثبوت دیا ہے اور ان سے وہ موسیقیت اور نغمگی پیدا کی ہے جو پڑھنے والے کومسحور کر دیتی ہے وہ منفر د الفاظ کی نغمگی اور موسیقیت کا بھی گہرا شعور رکھتے ہیں اور انہوں نے تجربات کے اظہار کے لیے موضوع کی مناسبت سے ان الفاظ کا انتخابات میں بھی بڑے فن کارانہ شعور کا اظہار کیا ہے۔۔۔۔ مگر مختلف الفاظ کی مخصوص دروبست سے جو نغمگی پیدا کی ہے اس میں ارشد اپنا جواب نہیں رکھتے ۔۔۔۔۔۔اگرچہ انہوں نے اپنی شاعری میں سیدھے سادھے الفاظ استعمال کیے ہیں مگر الفاظ کی دروبست سے ایک مخصوص لہجہ پیدا کرنا ان کا خاصہ ہے ۔۔ان کی آواز میں بانکپن ہے ،بے ساختگی اور برجستگی ہے ۔۔
’’سنو! اے مشرقِ وسطیٰ‘‘ کی چند لائنیں دیکھیں جو مسلمان معاشرے کی لاچارگی کادرماں بنی ہوئی ہیں:
رسولوں کی زمیں بے کار لوگوں کے لیے سونا اُگلتی ہے
تمھارے دست و بازو اس لیے حرکت نہیں کرتے
انھیں یورپ کی ٹھنڈی عورتوں نے باندھ رکھا ہے
تمھیں یہ زعم تھا زیتون کی گرمی سے ان کی برف پگھلے گی
تو تم کو راستہ دے گی
مگر ایسا نہیں ہوتا
یہ بچے باپ کے خانوں میں ماں کا نام لکھتے ہیں
ارشد جاوید کا پہلا اور واحد مجموعہ ’’ذرا سی دھوپ‘‘ 2010میں شائع ہوا۔ ’’ذرا سی دھوپ‘‘ پر ریاض مجید نے لکھتے ہوئے کہا ہے کہ
’’ارشد جاوید کی شاعری سماجی حقائق سے جڑی ہوئی شاعری ہے۔ انھوں نے محبت و رومان پر نہ ہونے کے برابر لکھا ہے کہ ان کا مزاج اور ان کے مسائل اسی زمانے اور نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سیاسی انتشار اور معاشرتی تبدیلیوں نے حساس ذہنوں کو پگھلا کے رکھ دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ نسل مسائل اور حساسیت کے سبب بچپن سے ایک دم بزرگی کے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے اور ان پر شباب کے موضوعات اس طرح وارد نہیں ہوئے جس طرح ان سے پہلے نسل پر وارد ہوئے۔ان کی شاعری کا محوری استعارہ ہمارے خطے کے آج کے اس فرد کا دکھ ہے جو بندھے پاؤں اور کٹے بازؤں کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔‘‘
ارشد جاوید کی زبان نہایت شگفتہ اور شاداب ہے ۔اس میں تازگی نظر آتی ہے۔۔ اس کے زندہ اور متحرک ہونے کا احساس ہوتا ہے وہ بہت سجی سجائی معلوم ہوتی ہے ۔۔بڑی ہی جگمگاہٹ ہے۔۔ بڑی ہی تابانی ہے ۔۔۔جاوید کا نام فیصل آباد کی ادبی تاریخ میں تابندہ ستارے کی طرح روشن اور جاوداں رہے گا ۔۔