مختلف زبانوں میں اور گونا گوں بولیوں میں بحور کا علم مختلف طور پر سمجھا اور برتا جاتایے عربی کی کئی بحور فارسی نے قبول ہی نہیں کی اسی طرح اردو نے فارسی عروض کو قبولا مگر اردو کا مزاج ہندی الاصل تھا اس لئے یہاں بھی عروض لادنے سے تکلفات کا سلسلہ چل پڑا …حقیقی شاعری نہ ہوسکی( باستثنائے ہندی بحور).
ہندی میں دوہوں، دوہروں چوپٹی، چوپائی، رولد! کنڈلی کبت، سورٹھا یا سویا کو ہی لے لیں. ثابت یہ یوتا ہے عربی بحور کی تنسیخ و ترمیم میں بہت گنجائش باقی ہے. دنیا کی بیشتر زبانوں پر اگر عرض کا اطلاق کیا جائے تو ان کی شاعری کو عروض خارج از وزن قرار دے گا .
یہ عروض نامی عمارت صرف عرب کی مروجہ اور قدیم شاعری پر خلیل عروضی نے کھڑی کی تھی …یہاں میں ہندی کی بات کرتا ہوں ہندی کے تمام اوزان کی پرکھ میں عربی عروض ناکام ہوجاتا ہے لہزا ہندی شاعری کو سمجھنے کے عروضی لاٹھی بے مصرف ہوجاتی ہے..
ہندی میں دو طرح کا پنگل ہے .ماتروں کی تعداد انکی ترتیب سے ورن کا تعین کیا جاتا ہے یا بصورت دیگر دوسرے طریقے ورنک گنوں کی تعداد ترتیب اور وقفہ سے .
اور اس سلسلہ میں بجائے ارکان، چھند کے وقف (وشرام پٹی یا کبھی انہیں جفت اور کبھی چرنوں میں بانٹ کر وزن کا اہتمام کیا جاتا ہے .اور کہیں کہیں چھند کے چاروں چرنوں کا وزن مساوی بھی ہوتا ہے.. کچھ ورنک گن دیکھیں …
نگن ورنک گن: یعنی ل ل ل یا فَعِلَ
جگن ورنک گن یعنی فُعُولُ
بھگن ورنک گن فَاعِلُ…
اسی طرح "چوکل" یعنی فَعِلَتُ اردو میں خال خال استعمال ہوا ہے مثلاً..لفظ عَجَمِیْ وغیرہ قبیل کے الفاظ …
عربی میں "پنج کَل" کی آٹھ شکلوں کا گیان ہےہی نہیں یعنی
پانچ لگھوں ماترائیں اور پانچوں متحرک اردو کے فرشتوں کو اسکی خبر نہیں البتہ عربی میں فاصلہ کبرٰی کی مثال ملتی ہے.
اسی طرح" شٹ کل" کی دس مستعمل صورتوں پر غور کیا جائے تو عروض دم بخوردہ رہ جاتا ہے عربوں کی کم علمی بِل میں سمٹ جاتی ہے.
"شٹ کل" پر ہی نات ختم نہیں ہوتی" سپتک کَل "کی اکیس صورتیں باقی ہیں . ثابت یہ ہوتا ہے کہ عروض صرف عربی کی متدوال بحور کی مستعمل بحور سے مستنبط و مستخرج قلیلی صوتیاتی علم ہے جو شاید عربی کی ضرورت کے لئے بھی ناکافی ہے … اور یہ کسی بھی طرح موسیقی یا صوتیات کا مکمل علم نہیں …مزید ہندی میں یتی یا بشرام (درمیان یا آخر کا وقفہ اور یتی بھنگ دوش ( شکست ناروا اردو میں معیوب قرار دینے سے عروض کا دائرہ مزید سکڑ جاتا ہے…