آرمی پبلک اسکول سانحے سے کوئٹہ چرچ حملے تک ،کچھ نہیں بدلا
گزشتہ روز شام کا وقت تھا،پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت مل کر بیٹھی،نام نہاد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا،پاکستان میں حالیہ بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات پر غور و فکر کیا گیا۔دو روز قبل جو کوئٹہ میں چرچ پر حملہ کیا گیا تھا ،اس اجلاس میں اس حملے کی شدید الفاظ میں مزمت کی گئی ،کوئٹہ کے سب سے بڑے چرچ میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں نو مسیحی شہید ہو گئے تھے۔ان میں تین خواتین بھی شامل تھی ۔یہ رواں سال کوئٹہ میں ہونے والا پانچواں بڑا دہشت گرد حملہ تھا۔اس کے علاوہ گزشتہ ماہ پشاور میں بھی دہشت گردی کے دو بڑے واقعات رونما ہوئے ۔ان حملوں کی بھی شدید الفاظ میں مزمت کی گئی تھی ۔گزشتہ روز کے قومی سلامتی کے اجلاس میں قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کو ہدایات صادر کی گئی کہ وہ اب نئی نیشنل سیکیورٹی پالیسی ترتیب دیں ۔اس کا کیا مطلب جو پہلے نیشنل ایکشن پلان سامنے آیا تھا ،اس کا خاتمہ ہو گیا ہے؟قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں کہا گیا کہ چرچ پر حملہ اسلام کے امن و برداشت کے بیادی پیغام کی خلاف ورزی ہے ۔حالانکہ کہنا تو چاہیئے تھا کہ پیغام کی پامالی ہے ۔کیا قوم ہیں ہم اور ہمارے یہ سول اور ملٹری والے جن کو کھل کر مزمت کرنا بھی نہیں آتی ۔حملہ ہوتا ہے ،سینکڑوں مزمتی بیانات میڈیا پر چلنا شروع ہو جاتے ہیں ،بدقسمتی دیکھیں میڈیا کیسے رپورٹ کرتا ہے کہ صرف نو افراد شہید ہوئے حالانکہ چرچ میں چار سو افراد تھے ۔یہ جو صرف نو افراد تھے ،یہ بھی تو نوزندگیاں ہیں ،نو انسان ہیں ۔کوئٹہ حملے سےایک روز قبل ہمارے عباسی وزیر اعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کردیا گیا ہے۔کسی ملٹری والے نے بھی ایک تقریر میں کہا تھا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئیں ہے۔ایک وزیر صاحب نے کوئٹہ حملے سے قبل فرمایا تھا دہشت گردوں کا اب پاکستان سے صفایا کردیا گیا ہے۔پھر حملہ ہوتا ہے اور یہ سب جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں ۔ان سول اور ملٹری والوں کو بیان دینا بھی نہیں آتا ،کس قدر غبی اور کند زہن انسان ہیں یہ ،ایسا کہو کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف بہت کچھ حاصل کرلیا ہے ،بہت قربانیاں دی ہیں ،لیکن منزل ابھی بہت بہت دور ہے اور دہشت گردوں کے خلاف ابھی بہت کچھ کرناباقی ہے ،اور میڈیا بھی ایسا جاہل ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے دیئے جانے والے اس طرح کے بیانات چلاتا رہتا ہے ،کمر ٹوٹ گئی ،دہشت گردوں کا صفایا ہوگیا ،میڈیا بھی مزمتوں کا کاروبار چلاتا ہے اور سرکار والے بھی اپنا کاروبار چلاتے نظر آتے ہیں ۔جب ہم کہتے تھے کہ داعش والے پاکستان میں آرہے ہیں تو چوہدری نثار ناراض ہوجاتے تھے ،اب تو داعش نےباقاعدہ طور پر کوئٹہ چرچ حملے کی زمہ داری قبول کر لی ہے۔۔۔داعش والوں نے کوئٹہ حملے کے بعد فوری بیان جاری کیا ہے کہ ان کے لوگ تھے جنہوں نے مسیحوں کا چرچ میں قتل عام کیا ۔اس پر میڈیا میں کوئی نیوز پیکج نہیں چلا ،کسی نے نثار یا کسی ملٹری والے سے نہیں پوچھا کہ آپ تو کہتے تھے کہ داعش نہیں ہے؟میڈیا میں کہا کیا گیا کہ اگر فوری ایکشن نہ لیا جاتا تو بہت ساری ہلاکتیں ہو سکتی تھی ،بھائی اس میں تو اس گیٹ کیپر کا کمال ہے ،اس سرفروش کا کمال ہے جس نے گیٹ بند کیا ،دہشت گرد کو دبوچا اور اپنی جان کی قربانی دی ۔اس کو بھی کارنامہ بناکر پیش کیا جارہا ہے ،یہ قسمت کی بات ہے کہ سرفروش نے روکا ۔میڈیا میں صرف یہی امیج ڈیزائن کیا گیا کہ بہت بڑی کامیابی ہے؟بھائی ایجنسی والو،سرجیکل استڑئیک کرو ،اسٹرنگ آپریشن کرو ،دکھ کی بات یہ ہے کہ ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کی پروفیشنل اپروچ بھی قابل رحم ہے ۔سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کو روکنے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہے ؟ضرورت اس بات کی ہے کہ ملٹری اور سوال والے انا کو ایک طرف رکھیں ،قاضی فائز عیسی کی رپورٹ توجہ سے پڑھیں ،اس رپورٹ میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ کیوں دہشت گردی بڑھ رہی ہے ،کیوں رک نہیں رہی اور کیسے اس دہشت گردی کو روکا جاسکتا ہے؟اس رپورٹ میں سب سے بڑی بات یہ کہی گئی تھی کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں میں آپس میں رابطے کا فقدان ہے ،کیا اس بات پر کبھی توجہ دی گئی ؟قاضی فائز عیسی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان انٹیلی جنس کا کوئی میکنزم نہیں ہے ،اس وجہ سے دہشت گرد حملہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔،کیا میڈیا میں قاضی فائز عیسی رپورٹ پر پروگرام اور شوز چلے یا کسی قسم کا نیوز چنک نظر آیا ؟میڈیا نے تو بس یہی کہا صرف نو افراد شہید ہوئے ،اور مزمتیں اور بس ،یہ ہے پاکستان کا میڈیا؟گزشتہ روز قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد پر اطمینان کااظہار کیا گیا اور ساتھ کہا گیا کہ اب اس پر مزید توجہ دی جائے گی ۔اگر نیشنل ایکشن پلان پر اطمینان کا اظہار کرنا تھا تو مشیر قومی سلامتی کویہ ہدایت دینے کی کیا ضرورت تھی کہ نئی نیشنل سیکیورٹی پالیسی جلد مرتب کی جائے َکیا کسی چینل نے اس بات پر تنقیدی نیوز پیکج چلا یا یا کسی شو میں اس بات پر بحث کی گئی کہ کیوں یہ نئی نیشنل سیکیورٹی پالیسی بنا رہے ہیں ؟پرانے نیشنل ایکشن پلان کا کیا ہوا ؟میڈیا کا فرض اور زمہ داری تھی کہ وہ پرانے نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں سب بتاتا ،اس پلان میں سب کچھ تھا؟فرق صرف یہ تھا کہ وہ پلان کاغذ پر تھا اور نثار کے دراز میں سڑتا رہا؟اب جو نیا پلان بنے گا وہ ناصر جنجوعہ کی دراز میں ہوگا ؟ ایا تو اعتراف کرو کہ صرف نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا ،پالیسی نہیں بنائی تھی ؟ان کو شرم نہیں آتی جو کہتے ہیں کہ آرمی پبلک اسکول کے بچوں نے بڑی قربانی دی ،جوضائع نہیں ہوگی ،وہ کیوں شہید ہوئے ،انہیں کس لئے شہید کیا گیا َہمارے بچوں کو سنہرے حروف میں یاد نہ رکھو ،ان کے قاتلوں کو پکڑو ،مارو ؟آرمی پبلک اسکول کے قتل عام کو تین برس ہو گئے کیا ہوا؟کچھ نہیں بدلا ۔ان بچوں کے والدین اب بھی رو رہے ہیں ،کل بھی رو رہے تھے ۔اس ملک میں دہشت گردی سے ہزاروں افراد مرگئے ،لاکھوں اس سے متاثر ہیں اور ٹراما میں ہیں ،کیا ان کی کونسلنگ کے لئے کچھ کیا گیا ؟پاکستان میں دہشت گردی کا شکار لاکھوں انسانوںکو کونسلنگ کی ضرورت ہے ،لیکن پورے ملک میں ایک ہزار سے بھی کم ماہرین نفسیات ہیں ،یہ ہے ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنجیدگی؟22 کڑور افراد کا ملک ہے اور ایک ہزار ماہرین نفسیات بھی نہیں ؟تین سال گزر گئے ،والدین آج بھی زخمی ہیں ،دکھ ،تکلیف اور غم میں ہیں۔۔۔سانحہ آرمی پبللک اسکول سانحہ پر ہزروں پروگرام میڈیا پر دیکھائے گئے ،سول اور ملٹری کی عمارتوں میں نمائشی پروگرام ہوئے ،لیکن والدین آج بھی رو رہے ہیں کہ انہیں سچ نہیں بتایا جارہا ہے۔والدین کا ایک مطالبہ پورا نہیں کیا گیا ۔میڈیا قربانی قربانی کی رٹ لگا رہا ہے ،کہہ رہا شہید ہونے والوں کا نام سنہرے حروفوں میں لکھا جائے گا ،ہزاروں ہیش ٹیگز کا کاروبار کیا گیا ۔یہ سب پوائنٹ اسکورنگ تھی ۔حکومت ،ریاست ،سول اور ملٹری والے اور ہمسب کے رویئے دہشت گردی کے زمہ دار ہیں ،ہم سب ہی مجرم ہیں ؟زرا سوچیئے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔