’’گرم‘‘ موضوعات تو اور تھے لیکن ایک ایسی خبر پڑھی جس سے یہ یقین پختہ ہو گیا کہ سطحیت کے وارے نیارے ہیں، گہرائی عنقا ہے‘ سنجیدگی نہ صرف یہ کہ رخصت ہو گئی‘ اس کی واپسی کے بھی راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔
عام پاکستانی یہ خبر پڑھ کر بہت متاثر ہو گا کہ سول بیورو کریسی میں آرمی پروموشن سسٹم لایا جا رہا ہے اور یہ کہ جس طرح آرمی میں زیادہ تر افسر میجر یا کرنل کے منصب سے ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں اور صرف غیر معمولی کارکردگی والے افسران ٹاپ پر پہنچتے ہیں اسی طرح سول میں بھی صرف ازحد لائق افسر اوپر کے گریڈوں میں پہنچ پائیں گے۔ آرمی کا پروموشن سسٹم‘ سول میں متعارف کرنے کے لئے وزیراعظم نے دو کمیٹیاں بنا دی ہیں۔ ایک کے سربراہ وزیر خزانہ ہیں، دوسری وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے تحت کام کرے گی؟ اس تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ منسٹر صاحبان آرمی کے پروموشن سسٹم سے کس قدر آگاہی رکھتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عام پاکستانی ایسی خبروں پر واہ واہ تو کرتا ہے لیکن اسے اس حقیقت کا اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کا نتیجہ صفر نکلے گا۔
پاکستان آرمی کا پروموشن سسٹم سول بیورو کریسی میں…؟؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے گلگت اور ہنزہ میں آم کے باغات لگائے جائیں۔ ملتان میں آڑو، سیب اور اخروٹ اگائے جائیں اور کوئٹہ کی جھیل حنا کے اردگرد ناریل اور انناس کے پودے لگائے جائیں۔ جنرل پرویز مشرف نے جنرل یوسف کی سربراہی میں ایک کمیٹی سول بیورو کریسی کو تبدیل کرنے کے لئے بنائی تھی نتیجہ وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘
اگر وزیراعظم اجازت دیں تو ادب کے ساتھ اُن سے پوچھا جائے کہ جس طرح آرمی پروموشن سسٹم میں حکومت کی اور سیاست دانوں کی مداخلت نہیں ہوتی‘ کیا وہ سول میں ایسا کر سکیں گے؟ کیا جی ایچ کیو میں قائم ’’ملٹری سیکرٹری برانچ‘‘ کو جو آزادی میسر ہے‘ وہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو فراہم کی جائے گی؟ جس طرح فوج میں دو یا تین سال مکمل ہونے سے پہلے کسی کا تبادلہ نہیں ہوتا‘ کیا سول میں ایسا کیا جائے گا؟ جب یہ سب سول میں ناممکن ہے تو کمیٹیاں بنانے کا کیا مقصد ہے؟
سول بیوروکریسی کو جس طرح حکومت نے زرخرید لونڈی بنا کر رکھا ہوا ہے ،اس کی ایک جھلک کل کے اخبار میں دیکھی جا سکتی ہے۔
’’لاہور میں سی پی او اور ڈی آئی جی کے عہدوں پر جونیئر اور معیار پر پورا نہ اترنے والے افسران تعینات تھے جنہیں میرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے ان عہدوں پر تعینات کیا گیا۔ لاہور کے ایک ایم پی اے کے بھائی گریڈ 20 کے افسر تھے لیکن انہیں گریڈ 21 کی سی پی او کی پوسٹ پر لگا دیا گیا۔ اسی طرح گریڈ 19 کے ایس پی کو گریڈ 20(ڈی آئی جی) کے عہدے پر لگا دیا گیا۔ ان کا شمار بھی مسلم لیگ نون کے پسندیدہ افسروں میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف پنجاب کے سینئر پولیس افسران میرٹ کی خلاف ورزی کو چیلنج کرنے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے انتقامی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صوبے بھر میں پولیس اور سول بیورو کریسی میں ایسے ہی منظور نظر افراد تعینات ہیں۔سابق آئی جی اس سلسلے میں بالکل بے بس تھے اور تمام تعیناتیاں وزیراعلیٰ پنجاب نے خود کی تھیں‘‘۔
ایک اور گواہی دیکھیے…ایک معروف صحافی نے دو دن پہلے لگی لپٹی رکھے بغیر لکھا کہ :
’’یہ خاندان کے بعد جن لوگوں کو توجہ کے قابل سمجھتے ہیں ان کا کشمیری ہونا ،بٹ ہونا ،خواجہ ہونا یا لاہوری ہونا ضروری ہے۔ آپ کتنے ہی اہل کیوں نہ ہوں۔ آپ اگر بٹ یا لاہوری نہیں ہیں تو آپ کے ساٹھ فیصد نمبر کٹ جائیں گے‘‘
اس صورتحال میں حکومت کا یہ اعلان کہ سول بیورو کریسی میں آرمی پروموشن سسٹم لایا جائے گا‘ ایک دردناک مذاق سے کم نہیں!
جن دنوں یہ کالم نگار جی ایچ کیو میں تعینات تھا‘ فوجی افسر حیرت سے پوچھا کرتے تھے کہ بغیر کسی وجہ کے سول کے افسروں کو چند ماہ بعد کیوں تبدیل کر دیا جاتا ہے؟ فوج کے پروموشن سسٹم میں چار ایسے پہلو ہیں جو کم از کم موجودہ حکومت کو راس نہیں آ سکتے۔ اول‘ ملٹری سیکرٹری برانچ میں ہر افسر کا پورا کیرئیر کمپیوٹر پر محفوظ ہے۔ کمپیوٹر بتاتا ہے کہ فلاں افسر فلاں مقام پر کتنا عرصہ تعینات رہا۔ اگر وہ شمال میں رہا تو اب جنوب جانے کی باری ہے۔ اس میں کسی کی مداخلت کارآمد ہو سکتی ہے نہ سفارش…! اس کے مقابلے میں جو کچھ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں ہوتا ہے‘ وہ ایک مچھلی منڈی میں تو ہو سکتا ہے‘ فوج میں نہیں ہو سکتا ‘ تعیناتیاں اور تبادلے وزیراعظم کے دفتر سے آئے ہوئے ٹیلی فونوں کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔ دوم ،وارننگ دی جاتی ہے۔ پھر اسے لکھ کر آگاہ کیا جاتا ہے کہ تمہارا طرزعمل درست نہیں۔ سول میں ایسی کوئی روایت نہیں۔ آپ اپنے ماتحت سے ناخوش ہیں تو بغیر ثبوت کے کچھ بھی اس کے خلاف لکھ دیجئے۔ خود ہی صفائیاں دیتا پھرے گا۔ سوم ، میجر سے کرنل سطح کی ترقیوں کیلئے ڈویژن اور کور کی سطح پر پروموشن بورڈ بنتے ہیں‘ سب کچھ سائنسی بنیادوں پر طے کیا جاتا ہے۔ سینئر عہدوں کیلئے سینئر کمانڈر بیٹھتے ہیں۔ صدارت چیف آف آرمی سٹاف کرتا ہے۔ کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہوتی‘ یہ بھی نہیں ہوتا کہ سمریاں مہینوں لٹکتی رہیں۔ چہارم، فوج میں تعیناتیاں اور ترقیاں اس بنیاد پر نہیں ہوتیں کہ کون بٹ ہے ،کون خواجہ ہے اور کون لاہوری ہے۔ جی ایچ کیو میں کوئی ریٹائرڈ خواجہ ظہیر کاٹھ کی ہنڈیا میں چمچہ نہیں ہلا سکتا! ۔
وزیراعظم اگر مخلص ہیں تو برطانیہ ،سنگاپور یا انڈیا کی طرز پر سول بیورو کریسی کو کیوں نہیں ڈھالتے؟ چند ہفتے پہلے برطانوی وزیر پاکستان میں یہ اعلان کر کے گئے ہیں کہ الطاف حسین کے معاملے میں برطانوی حکومت کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ پولیس مکمل طور پر خودمختار ہے۔ پاکستان میں پولیس کی خودمختاری گلوبٹ جیسے کرداروں سے مزّین اور معطر ہے۔
کیا حکومت بتا سکتی ہے کہ وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں میں ممبروں کو کس بنیاد پر لگایا جاتا ہے؟ اور کیا مسلح افواج میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے؟
ہاں! ایک کام حکومت آسانی سے کر سکتی ہے۔ سول بیورو کریسی کا پروموشن سسٹم آرمی میں متعارف کر دے! وزیروں اور منتخب عوامی نمائندوں کو آرمی کے پروموشن بورڈوں میں بٹھا دیجئے۔ جس طرح وزیر اور ایم این اے ایک معین تعداد میں پٹواری اور تحصیل دار بھرتی کروا سکتے ہیں اور استانیوں اور تھانیداروں کے تبادلے کروا سکتے ہیں‘ انہی خطوط پر انہیں کوٹہ دے دیا جائے کہ اتنے میجر اور اتنے کرنل پروموٹ کرا سکتے ہیں۔ رہا آرمی کا اعلیٰ ترین پروموشن بورڈ‘ تو اس میں کمانڈروں اور چیف کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے‘ یہ کام جناب فواد حسن فواد‘ جناب خواجہ ظہیر اور جناب سعید مہدی کے سپرد کر دیا جائے۔ کوروں کے نام بھی بدل دیئے جائیں۔ بٹ کور‘ خواجہ کور‘ ڈار ڈویژن‘ شب دیگ بریگیڈ‘ ماڈل ٹائون بٹالین‘ اللہ دے اور بندہ لے…طالبان بھی خوش‘ بھارت بھی مطمئن…اسرائیل میں بھی گھی کے چراغ جل اٹھیں!
سول بیورو کریسی بھٹو صاحب کی 1973ء کی ’’اصلاحات‘‘ کے بعد سے لولی‘ لنگڑی ‘ اندھی‘ بہری‘ اپاہج‘ بانجھ‘ کوڑھی چلی آ رہی ہے لیکن جو پاتال اُسے موجودہ حکومت کے عہد ہمایونی میں نصیب ہوا ہے‘ اس کی مثال ماضی تو کیا‘ مستقبل میں بھی نہیں مل سکے گی! …
بہر تقسیم قبور انجمنی سماختہ اند!!
وہ تو بس نہیں چل رہا ورنہ مقابلے کا امتحان رائے ونڈ میں منعقد ہو‘ پرچے ماڈل ٹائون میں بنیں‘ اور امتحان صرف وہ دے جو ’’ہماری برادری‘‘ سے ہو!!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“