آرمی چیف سینیٹ میں
گزشتہ روز پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم روایت کی بنیاد ڈالی گئی ،اس نئی اور اہم روایت پر میرے جیسے لبرل اور جمہوریت پسند بھرپور انداز میں خوشی کا اظہار کرتے نظر آئے۔حالانکہ وہ تمام ممالک جہاں جمہوریت کا بول بالا ہے ،وہاں یہ روایت دہائیوں سے نافذالعمل ہے ۔گزشتہ روز پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آرمی چیف پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے اراکین کے سامنے پیش ہوئے ،اس موقع پر پاک فوج کے سربراہ نے سیکیورٹی امور پر تفصیلی بر بریفنگ دی اور سینیٹرز کے سوالات کے جواب بھی دیئے ۔اس سے پہلے 2011 میں جب ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت ہو گئی تھی تو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی پاشا بھی سینیٹ کے سامنے پیش ہوئے تھے ۔انہیں بھی بریفنگ کے لئے بلایا گیا تھا ۔ڈی جی آئی ایس آئی پاشا اور آرمی چیف جنرل کیانی نے ایبٹ آباد آپریشن پر تفصیلی بریفنگ دی تھی ۔لیکن گزشتہ روز کی بریفنگ اس لئے اہم ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ ملک کی سیکیورٹی پالیسی زیر بحث تھی ،جنرل قمر جاوید باجوہ نے کھل کر ملک کی داخلی اور خارجی چیلنجز پر بات کی۔ہوا کچھ یوں کہ سینیٹ میں ساڑھے چارگھنٹے کا ان کیمرہ اجلاس ہوا،جس میں باجوہ صاحب نے ملکی سیکیورٹی صورتحال بتائی ،اس کے ساتھ ساتھ سنیٹرز کے کروے کسیلے سوالات کے جواب بھی دیئے ۔اس ان کیمرہ اجلاس کی کچھ اندرونی خبریں بھی میڈیا پر آئیں ،یہ خبریں بھی بڑی دلچسپ تھی ،عجیب بات یہ ہے کہ میڈیا کے پاس وہ اندرونی خبریں پہنچی جو سیکیورٹی ایشوز کے متعلق نہ تھی ،بلکہ سیاسی باتیں باہر نکلیں ۔سیکیورٹی ایشوز بند کمرے کے اندر رہے،حالانکہ بریفنگ سیکیورٹی ایشوز کے حوالے سے تھی ۔جو خبریں باہر آئی وہ زرائع کے حوالے سے تھی ۔ان کیمرہ اجلاس کی نوے فیصد باتیں کہا گیا کہ قومی سلامتی سے متعلقہ تھی جو باہر نہیں پہنچی ،البتہ دس فیصد باتیں جو سیاسی تھی وہ اڑ کر میڈیا کے پاس گئی ۔ان کیمرہ سیشن اسے کہتے ہیں جس میں بعد میں کیمرے کے سامنے بریفنگ دی جاتی ہے ،لیکن کلاسیفائیڈ معلومات صیغہ راز میں ہی رہتی ہیں ۔فوجی زرائع کے مطابق جلد ہی اس ان کیمرہ سیشن کی بریفنگ ہوگی ۔کہا گیا کہ سینٹ میں ہونے والی اس ان کیمرہ بریفنگ میں فیض آباد دھڑنے کے متعلق کچھ سوالات کئے گئے ،میڈیا زرائع کے مطابق جنرل قمر باجوہ نے کہا کہ فیض آباد دھڑنے کے پیچھے فوج کا ہاتھ نہیں تھا،اگر کوئی ثابت کردے کہ فوج کا یا ان کا ہاتھ تھا تو وہ مستعفی ہونے کے لئے بھی تیار ہیں ۔اب اگر سویلین حکومت میں جرات ہے تو وہ ثابت کریں ،ورنہ ہم تو آرمی چیف کے موقف کے ساتھ ہیں ،کیونکہ وہ کھل کر کہہ رہے ہیں ۔نواز شریف اور مریم نواز ثابت نہیں کرسکتے تو انہیں چاہیئے کہ وہ فیض آباد دھڑنے کو سازش نہ کہیں ۔میڈیا زرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ ان کیمرہ اجلاس میں سینیٹر پرویز رشید نے سوال کیا کہ کیا گیا کہ کیا فوج حافظ سعید کی سرپرستی کررہی ہے یا نہیں ،تو اس پر میڈیا رپورٹس کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ فوج حافظ سعید کی سرپرستی نہیں کررہی،حافظ سعید عام پاکستانی کی طرح مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سرگرم ہیں ۔سینیٹر نہال ہاشمی کے سوال کے جواب میں چیف آف آرمی اسٹاف نے کہا کہ سویلین حکومت جو بھی خارجہ اور داخلہ پالیسی ترتیب دے گی ،فوج اس پالیسی کے مطابق عمل کرے گی ۔حالانکہ چیف آف آرمی اسٹاف کا یہ جواب بڑا اہم اور مثبت ہے ،لیکن میڈیا پر اس پر کسی قسم کا تبصرہ یا تجزیہ دیکھنے کو نہیں ملا ۔میڈیا رپورٹس یا زرائع کے مطابق یہ جو آرمی چیف دوسرے ممالک کے دورے کرتے ہیں ،اس بارے میں بھی پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ملٹری ڈپلومیسی کا حصہ ہے ۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ بیرونی دورے ملٹری ڈپلومیسی کا اہم ھصہ ہیں ۔بنیادی بات یہ ہے کہ یہ بریفنگ خوش آئند اور مثبت تھی جس میں اچھی روایت کی بنیاد ڈالی گئی ۔ملک کو اس طرح کی روایات کی ضرورت ہے ،دنیا کی ہر جمہوریت میں اس طرح کی روایات ہیں ،شکر ہے پاکستان جیسے ملک میں بھی اس کا آغاز ہو گیا ہے ۔سیاستدان اور جمہوریت پسند لیڈرز ہمیشہ یہ شکوہ کہتے رہتے ہیں کہ ان کی چلتی نہیں ،لیکن گزشتہ روز تو ان کی خوب چلی ،آرمی چیف ساڑھے چار گھنٹے تک ان کے سامنے جواب دہ رہے ۔اندرونی زرائع کے مطابق آرمی چیف کی سیکیورٹی بریفنگ پر بہت خوش تھے اور پھولے نہیں سمائے جارہے تھے ۔اس طرح کی بریفنگز اب باقاعدگی سے ہوتی رہنی چاہیئے کیونکہ اس سے حکومت اور اداروں کے درمیان اعتماد میں اضافہ ہوگا اور ریاست اچھے انداز میں آگے بڑھتی رہے گی ۔میڈیا کے اندرونی زرائع کے مطابق جب سینیٹر عبدالقیوم نے پاک بھارت بات چیت کے حوالے سے سوال کیا تو اس پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے فرمایا کہ پاکستانی حکومت اگر بھارت کے ساتھ امن و امان کے قیام کے حوالے سے مزاکرات کرتی ہے تو فوج جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گی ۔میڈیا پر پیسے تقسیم کرنے کا سنسنی خیز زکر رہا ،جی جی وہی ہزار ہزار روپیئے جو دھڑنے کے شرکا کو دیئے گئے تھے ۔میڈیا پر کہا گیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ہزار ہزار روپیئے وزیر اعظم خاقان عباسی کے حکم پر تقسیم کئے گئے تھے،اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور نے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایسی کوئی بات بریفنگ میں نہیں کہ وزیر اعظم کے حکم پر پیسے تقسیم کئے گئے ۔۔۔۔اس لئے ایسا کوئی تنازعہ کھڑا نہ کیا جائے ۔سمجھ نہیں آتی کہ میڈیا نے اس طرح خبر کیوں چلائی جس کی تردید خود پاک فوج کے ترجمان نے کردی ۔ویسے خوشی کہ بات یہ ہے کہ جنرلقمر جاوید باجوہ خود چل کر ہی سویلین پیج پر آگئے اور کہا کہ سویلین اور فوج ایک پیج پر ہیں ۔شکر ہے یہ ان کیمرہ سیشن تھا ورنہ باڈی لینگوئج ماہرین ٹی وی اسکرینوں پر کیا کیا غضب ڈھاتے نظر آتے ۔میڈیا پر یہ بھی کہا گیا کہ یہ ریٹائڑڈ فوجی جو آجکل تجزیہ کار بنے ہوئے ہیں ،ان کو لائن دی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر وہ سنسنی پھیلاتے ہیں ،اس کے جواب میں جنرل قمر باجوہ نے یہ کہہ دیا کہ فوج سے ان دفاعی ماہرین کو کوئی لائن نہیں دی جاتی اور نہ ہی ان کا فوج سے کوئی تعلق ہے ۔چلو باجوہ صاحب کی یہ بات بھی تسلیم کرلیتے ہیں ،حالانکہ بقول جمہوری تجزیہ کاروں کے یہ بات ہضم ہونے والی نہیں ۔اچھی بات اس ان کیمرہ سیشن کی یہ ہے کہ سیاسی غیر یقینی کا بحران کچھ نہ کچھ کم ہوا ہے ۔آگے دیکھتے ہیں اس ان کیمرہ سیشن کی کیا کیا باتیں باہر نکلتی ہیں کیونکہ میڈیا کی چڑیائیں ،کوے اور گدھ بیقرار نظر آتے ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔