آرمی چیف کی سینیٹ میں بریفنگ اور پاکستان کا مستقبل
میاں نوازشریف کی نااہلی سے پہلے جو تجزیات کیے جا رہے تھے، اُن کا لب لباب یہ تھا کہ جلد ہی موجودہ سیاسی ڈھانچا ڈھا کر ایک متبادل نظام تشکیل دیا جائے گا۔ ان تجزیات کے مطابق، نیا سیاسی ڈھانچا ٹیکنوکریٹ کی ایک درمیانی مدت کی حکومت کی شکل میں کھڑا کیا جائے گا اور سارا گند (کرپشن) صاف کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے ہر کوئی بڑھ چڑھ کر حتمی تجزیہ کرنے کی کوشش میں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تجزیات کم اور خواہشات یا کسی سیاسی مرکز کا منصوبہ زیادہ تھا۔ نوازشریف نااہل تو ہوئے، لیکن سیاست میں اُن کا وجود کم نہ کیا جاسکا۔ اب ان دنوں سیاست ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔ اس کا سبب مارچ 2018ء میں سینیٹ کا انتخاب اور اُسی سال عام انتخابات کا انعقاد ہے۔ اس سارے تناظر میں چند روز قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سینیٹ میں گئے جہاں چار گھنٹے بند کمرے میں چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے ملکی، قومی، علاقائی اور عالمی صورتِ حال پر Senate's Committee of the Whole House کو بریفنگ دی گئی۔ ملک کے داخلی معاملات اور عالمی صورتِ حال کے حوالے سے یہ ایک اہم میٹنگ اور بریفنگ تھی۔ اندرونی حوالے سے جاری جمہوریت اور سیاسی نظام اور عالمی صورتِ حال کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے افغانستان میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے اور اسی کے ساتھ سعودی جنگی اتحاد کے حوالے سے پاکستان کی شرکت۔ ہمارے ہاں اکثر تجزیہ نگار اپنے تجزیات میں سول ملٹری تعلقات کو وزیراعظم کو چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ میٹنگ یا کسی کھیت میں فصلوں کی کٹائی کے افتتاح پر اکٹھے پاکر اس کو خوش آئند خبر کے طور پر پیش کردیتے ہیں کہ چیف آف آرمی سٹاف مسکرا رہے تھے اور دونوں کی ’’باڈی لینگویج‘‘ یہ پیغام دے رہی تھی۔سیاسی تجزیہ کرتے ہوئے یہ ایک سطحی اور بلکہ سراب سا انداز ہے۔
پاکستان میں فوج ایک طاقتور ریاستی ادارہ ہے۔ سرد جنگ سے لے کر آج تک پاکستان، امریکہ کا اہم ترین علاقائی اور عالمی اتحادی ہے۔ اس صورتِ حال میں امریکہ کے لیے اہم کیا ہے؟ جمہوریت، سیاسی نظام، پاکستان یا پاکستان کی مسلح افواج؟ اگر ہم اس ایک ہی نکتے کو مدنظر رکھیں تو کبھی بھی موجودہ صورتِ حال یا مستقبل کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم ایک سائنٹفک اور جدلیاتی تجزیہ پیش کرنے کے قریب ہوجائیں گے۔ امریکہ کو پاکستان تو کیا دنیا میں کہیں بھی جمہوریت اور اس ملک کے نظام میں دلچسپی بیانی (موقف کی) حد تک ہی ہوتی ہے، امریکہ کے عارضی اور حتمی مفادات اس کے سامراجی مفادات ہیں جو اس کے جیوپولیٹکل اور اقتصادی مفادات کی بنیاد رکھتے ہیں۔
چیف آف آرمی سٹاف کی حالیہ ملاقات کو بھی اگر اسی تناظر میں دیکھیں تو مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان میں امریکہ کے ایک نئے منصوبے کو سامنے رکھ کر ہم تجزیہ کرسکتے ہیں کہ امریکہ، سعودی عرب کے جنگی اتحاد اور اس میں پاکستان کی افواج کی Potential شرکت سے پاکستان سے کس قسم کی مدد کا خواہاں ہے۔ مشرقِ وسطیٰ ایک نئی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے جس میں عراق، شام، لیبیا اور سعودی عرب، میدانِ جنگ ہیں اور اس امڈتی جنگ میں تقریباً سارے مشرقِ وسطیٰ کو دھکیلا جا رہا ہے۔ افغانستان میں نیا امریکی منصوبہ اس جنگ کا اہم ترین حصہ ہے۔ امریکہ کی طرف سے اس ساری جنگ کا حتمی اور طویل ترین مقصد آج بھی وہی ہے جو سرد جنگ میں تھا کہ روس اور چین کے خلاف علاقے میں ایسی آگ پھیلائی جائے جو اِن ابھرتی عالمی طاقتوں میں ہر وقت دراڑیں ڈالنے کے لیے اپنا کام کرتی رہے۔ اگر آپ سردجنگ کے سرمایہ دار دنیا کے اہم ترین اتحاد ناٹو کو ہی غور سے پڑھیں تو امریکہ کے دنیا میں امن قائم کرنے کے دعووں کی حقیقت کھل جاتی ہے۔ سرد جنگ کے بعد وارسا اتحاد جو سابق سوویت یونین کا فوجی اتحاد تھا، ازخود تحلیل ہوگیا۔ لیکن ناٹو کو سرد جنگ کے بعد مزید پھیلا دیا گیا۔ مشرقی یورپ میں اس کو مزید وسعت دی گئی اور اس کے ساتھ روس اور چین کے اردگرد خطے جو تمام تر مسلم ممالک ہیں، ان میں مذہبی انتہاپسند اور دہشت گرد گروپ زور پکڑتے چلے گئے۔ چیچنیا، لیبیا، شام اور عراق میں ان مذہبی دہشت گرد تنظیموں کو امریکہ کھلے عام سپورٹ کرتا ہے۔ اب یہ راز نہیں کہ امریکہ ان دہشت گردوں کو ایک علاقے میں جنگی ہراول دستوں کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اسی لیے تو روس نے بڑھ بڑھ کر شام میں امریکہ اور ان دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کی جو سرد جنگ کے بعد نئے روس کی طرف سے پہلی بڑی اور طاقتور فوجی مداخلت تھی۔ لیکن امریکہ نے نہایت چالاکی سے یمن اور سعودی عرب کے تنازع کو اپنے غیرمحسوس انداز میں تقویت پہنچائی۔ اس دوران ترکی جو امریکہ کا اتحادی ہی نہیں بلکہ ناٹو کا اہم ترین رکن ہے، اس نے اپنی خارجہ پالیسی اور علاقائی پالیسی پر نظرثانی کی اور اپنے تعلقات روس کے ساتھ بہتر اور شام کے تنازعے میں امریکہ سے ہٹ کر موقف اپنایا۔
اگر ہم غور سے دیکھیں تو اس ساری جنگی منصوبہ بندی میں عرب ریاستیں اپنے انداز میں کمزور اور سیاسی قیادتوں سے محروم کردی گئیں۔ امریکہ کا سعودی عرب جیسا اتحادی اب اندرونی دہشت گردی، شاہی دربار میں بغاوت اور یمن کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے اور اپنے اسی پلان کے تحت سعودی عرب نے علاقائی جنگی اتحاد کی بنیاد رکھی۔ اس اتحاد کی حقیقت ایک Potential فوج کے بغیر کچھ نہیں۔ اور اس علاقائی سعودی جنگی اتحاد میں پاکستان کی فوج اہم ترین اور سابق آرمی چیف اس کے سپہ سالار ہیں۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ خطے میں کتنا وسیع جنگی الائو بھڑکایا جا رہا ہے۔ اور مستقبل کی اس خوف ناک جنگ جو خطے کی ریاستوں کا تیا پانچا کر دے گی، اس میں پاکستان کیا کردار ادا کرنے جا رہا ہے؟ امریکی صدر ہو، امریکی کانگرس یا سینیٹ، اُس کو عراق، شام، لیبیا یا پاکستان میں جمہوریت کی کس قدر فکر ہے، اس کا اندازہ اب عام آدمی کو یقینا ہوچکا ہے۔ پاکستان کے خلاف کون جنگ کرنے جا رہا ہے یا پاکستان کس کے خلاف جنگی اتحاد میں جا رہا ہے اور اس میں امریکہ، پاکستان کس کی طاقت کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ان سوالات کے جواب مشکل نہیں۔ ترکی کسی حد تک فی الحال اس جنگ سے بچنے کی کوشش میں کامیاب تو ہوا ہے لیکن مکمل طور پر نہیں۔ اس ساری صورتِ حال میں اگر آپ ایران کے علاقائی کردار کو دیکھیںتو دلچسپ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ایک طرف ایران، عراق میں امریکہ کا اتحادی اور دوسری طرف شام میں روس کا اتحادی ہے۔ سعودی عرب کے خلاف یمنی باغیوں کا اتحادی اور جنگیں اس کی سرحدوں سے کوسوں دُور۔ معاملات کی سنگینی کو جاننا چاہیں تو لبنانی وزیراعظم سعد حریری کی سعودی عرب میں گرفتاری اور نظربندی سے ہی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ معاملات کتنے گمبھیر ہیں۔ سعودی عرب کے دورے پر گئے لبنانی وزیراعظم کو گرفتار کرکے نظربند کردیا گیا اور اس سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ آئین کے مطابق لبنان میں وزیراعظم سنی، صدر مسیحی اور سپیکر شیعہ ہوتا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ اور عمل پارٹی دونوں لبنان کے اندر مسیحی لوگوں کے ساتھ اتحاد بناتی ہیں اور یوں مسیحی صدارت پر اپنا لیڈر نامزد کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ سنی وزیر اعظم اس سیاسی ڈھانچے میں مسیحی اور حزب اللہ کے ساتھ خوش گوار تعلقات رکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ تب کہیں جاکر لبنان میں سیاسی وحکومتی ڈھانچا برقرار رہتا ہے۔ امریکی اور سعودی، لبنان کی حزب اللہ کو شام میں لڑنے والے دہشت گردوں کے خلاف ایک حصار یا طاقت سمجھتے ہیں۔ وہ سعد حریری کو نظربند اور جبراً مستعفی کروا کر لبنان کی چولیں ہلا دینے میں مصروف تھے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق، فرانس نے سعودی حکمرانوں کو حملوں تک کی دھمکیاں دیں، تب کہیں جاکر سعد حریری کو رِہا کیا گیا۔ اہم اور خوش گوار بات یہ ہے کہ لبنان کا وجود مسیحی برادری کے مرہونِ منت ہے جس کی حمایت میں یورپ، لبنان کی حمایت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس ساری گمبھیر صورتِ حال میں پاکستان جہاں علاقائی الائو میں دھکیلا جارہا ہے، وہیں ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ امریکہ کے لیے پاکستان کے اندر کون اہم ہے جو امریکہ کے مفادات کے لیے خطے میں ہراول دستوں کا ’’فریضہ‘‘ سرانجام دے سکتا ہے اور اس پس منظر میں پاکستان کا سیاسی اور جمہوری ڈھانچا کیا کروٹ لے گا؟ اگراس صورتِ حال اور معاملات کو غور سے دیکھا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مارچ 2018ء میں سینیٹ کے انتخابات اور اسی سال عام انتخابات میں کیسے نتائج طاقتور اندرونی اور عالمی طاقتوں کو Suit کرتے ہیں۔
“