ارسطو اپنی عملی زندگی میں انتہائی شاندار انسان تھا۔ وہ عقل و فکر کے زیور سے آراستہ تھا، اس لیے اس نے ہمیشہ اپنے لیے درمیانی راستہ تلاش کیا۔ لیکن اس کی زندگی کے آخری دن اس کے لیے کچھ اچھے نہ تھے۔ ایتھنز کے لوگ اس کی عقل و فہم اور علم و آگہی سے آگاہ ہونے کے باوجود اسے تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ ایتھنز والوں نے اس پر سقراط کی طرح کے الزامات عائد کرنا شروع کر دیئے۔ ایتھنز والوں کا کہنا تھا کہ وہ ایتھنز کی بجائے مقدونیہ کی ریاست کا حامی اور وفادار ہے کیونکہ ارسطو سکندر کا استاد بھی رہ چکا تھا۔ ایسے حالات میں اس کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوگئیں کیونکہ ارسطو کی مقدونیہ سے بھی ان بن ہو چکی تھی۔ ارسطو علم و حکمت کا مداح تھا لیکن مقدونیہ والے اجڈ اور جنگجو تھے۔ یونان کے بادشا ہ نے ارسطو کے بھتیجے کو اس لیے قتل کروا دیا تھا کہ وہ ارسطو کی تعلیمات کی وجہ سے یونان کے بادشاہ کو دیوتا ماننے سے انکار کرتا تھا۔ اب ارسطو کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ بادشاہ اس کو بھی شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ارسطو کہا کرتا تھا کہ یونانی ریاستوں کا اتحاد مستقل امن پیدا کر سکتا ہے لیکن یونانی اس کی اس بات کو شدت سے ناپسند کرتے تھے۔ ارسطو جنگ و جدل کی بجائے ثقافت، سائنس اور فنون لطیفہ کے فروغ کے بارے میں گفتگو کیا کرتا تھا۔ لیکن اس کی باتوں کو نہ تو ایتھنز کے لوگ اچھا سمجھتے تھے اور نہ ہی مقدونیہ کے حکمران۔ ایتھنز کے لوگ آزادی کے نعرے بلند کرتے تھے اور ارسطو کی اتحاد کی باتوں پر ناراض ہوتے تھے۔تب ایک دن سکندر نے اپنے فلسفی استاد کا مجسمہ شہر میں نصب کر دیا تو ایتھنز کے لوگ ارسطو پر برسنے لگے۔ اس طرح ارسطو اب مکمل طور پر مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔ ان حالات میں سکندر بھی فلسفی استاد سے اکتا چکا تھا اور ایشیاء کی مہم کے لیے اپنا راستہ صاف کرنا چاہتا تھا، کیونکہ ارسطو عموماً سکندر کی خون ریز مہموں کی مخالفت کیا کرتا تھا۔ ایشیاء کی مہم کے دوران سکندر اپنی بلانوشی کی وجہ سے نوجوانی میں ہی مر گیا۔ اس پر ایتھنز کے لوگوں نے اپنے دشمن کے مر جانے پر خوشیاں منائیں اور ایتھنز کی آزادی کا اعلان کر دیا گیا۔ اینٹی پیٹر سکندر کا جانشین تھا اور ارسطو کا مخلص دوست بھی تھا۔ جب اینٹی پیٹر باغی سرداروں کی سرکوبی کرنے لگا تو زیادہ تر سردار فرار ہوگئے۔ ایتھنز کے لوگ ارسطو سے بہت زیادہ خار کھانے لگے تھے ایک دفعہ تو ارسطو کو گرفتار کرنے کی دھمکی بھی دی گئی۔ پوری میڈون جو کہ ایتھنز شہر کا مہا پروہت تھا اس نے تو ارسطو پر یہ الزام بھی لگا دیا کہ ارسطو عبادت اور قربانی کو بے سود سمجھتا ہے اور لوگوں کو خلافِ مذہب تعلیم دیتا ہے۔ ارسطو کو معلوم تھا کہ ایتھنز کے لوگ فلسفیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں کیونکہ اسے اپنے دادا استاد سقراط کا بھی انجام معلوم تھا۔ اس لیے ارسطو نے بہت ہی عقل مندی سے کام لیا اور حالات بگڑنے سے پہلے ہی ایتھنز کو چھوڑ دیا۔ اس ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد ارسطو نے وفات پائی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...