عارف ڈارلک ادبی نظریہ دان، تاریخ دان اور استاد ہیں۔ انھوں نے چین کی کمیونسٹ پارٹی،نراجیت، جدید چین اور مابعد نو آبادیاتی کا مطالعہ منفرد اور اچھوتے انداز میں کیا ھے اور انھوں نے فکری سطح پر اور بالخصوص عہد کی محیط ارض سرمایہ داریت کر فکر انگیز سوالات اٹھائیں ہیں۔ جس میں ان موضوعات کی نئی جہات خلق ھوتی ھیں۔ عارف ڈارلک مشرق بعید کو ثقافتی پیدوار کا خطہ قرار دیتے ہیں۔ وہ بیسویں صدی کے ایک اھم تاریخ دان ہیں۔
عارف ڈارلک کی زندگی کی کہانی بھی دلچسپ ھے۔ شروع میں ان کی دلچسپی طبعیات میں تھی، وہ جوہری سائنس دان بناچاہتے تھے لیکن ادبی نطریاتی ادیب اور مفکر بن گئے۔ عارف ڈارلک 1940 میں ترکی کے شہر “ میسن ‘ میں پیدا ھوئے۔ ١٩٦٤ میں انھوں نے استبول کے رابرٹ کالج (اب بوشوفر یونیورسٹی) سے الیکٹریکل انجینرنگ کی ڈگری لی ١٩٧٣ میں راچنسڑ، نیویارک سے تاریخ میں پی ایچ۔ ڈی کی سند حاصل کی۔ وہ اپنی گفتگو اور تحریروں میں طبعیات اور برقیات کو شامل نہیں کرتے۔ ان کے دو (٢) بیٹے ہیں جو فلم اور راک میوزک کے پیشے سے منسلک ہیں۔
عارف ڈارلک ١٩٧١ سے ٢٠٠١ تک ڈیوک یونیورسٹی میں تاریخ کی تعلیم دیتے رھے۔ ٢٠٠١ میں یونیورسٹی آف ارگن چلے گئے۔ جہان وہ معاشرتی سائنس کے شعبے میں تاریخ اور بشریات کے “ نائٹ پروفسیر“ بنے اور ساتھ ھی انھیں “ سنٹرل آف کریٹکل تھیوری اور ترجمہ کاری کے مطالعوں“ کا ڈائریکٹر بھی مقرر کیا گیا۔ ٢٠٠٦ میں یہ شعبہ بند کردیا گیا۔ اسی سال وہ بیچنگ (چین) میں“ سنٹر بیورو فار کمپیلشن آف ٹرانسلیشن “مہمان پروفیسر رھے اس کے بعد وہ ہالینڈ میں انٹرنشنل انسی ٹیوٹ فار ایشین اسٹیڈیز کے سینئر فیلو کی حیثیت سے بھی تحقیقی اور علمی کام کرتے رھے۔ اس کے بعد عارف ڈارلک یونیورسٹی آف برٹش کولبیا میں “ پیٹر وال انسیی ٹیوٹ فار ایدونس اسٹیڈیز میں مہمان پروفیسر رھے۔ اس کے علاوہ وہ برٹش کلمبیا کی یونیورسٹی، وکٹوریہ اورہانگ کانگ یونیورسٹی کی سائنس اور ٹیکنالوجی اور “سوکا“ یونیورسٹی آف امریکہ سے بھی منسلک رھے۔ وہ دہلی کی راجنی کھتری کے ” ڈیمو کریسی سنٹرل ایشیاہ ڈولپمنٹ سوسائٹی” سے بھی منسلک ہیں۔ عارف ڈارلک کی کی شھرت ماہر “چینیات“ (sinologist ، مطالعہ چینی زبان، ادب اور تہزیب) کی حیثیت سے ھے۔ وہ چینی زبان جانتے ہیں۔ چینی تاریخ، معاشرتی اور ادبی نظریات کے علاوہ ان کی مرکوز دلچسپی مارکسزم اور پس نوآبادیات میں رھی۔ انھیں امریکہ بائین بازو کا “چینیات“ کا فکری رہنما کہا جاتا ھے۔ ان کی علمی وفکری تحقیق اور تجربات زیادہ تر چینی انقلاب اور اس سے جڑی تاریخ سے رہا ھے۔ عارف ڈارلک نے چینی تاریخ کے حوالے چین کے مارکسی انقلاب کو تاریخ کاری لی وساطت سے دیکھا۔ ١٩١٩ سے ١٩٣٣ لکھی ھوئی تاریخ کو انھوں نے مارکسی متن کے حوالےسے دیکھا اور اس فکری نقطے کو بھی سامنے لائے کہ چینی انقلاب کے بعد دنیا مین تبدیل ھوتا سرمایہ دارانہ نظام اور اس کا پس نوآبادیاتی تناظر میں مطالعہ کیا۔اس سلسلے میں ان کے آٹھ (٨) مقالات نے بڑی شہرت پائی۔ جس میں عارف ڈارلک نے انقلاب چین کو تاریخ اور ثقافت اور عالمی جدیدیت کے پس منظر میں دیکھا اور اس پر شدید تنقید بھی کی۔ ان کا کہنا تھا ۔۔“ ١٩٠٥ سے ١٩٣٠ تک چین کی ثقافت اور سیاست پر نراجیت پسندوں کا غلبہ حاصل تھا۔۔۔“ وہ سنٹرل ریڈیکل ازم کے حامی ہیں۔ جس نےکئی عشروں تک انقلابی تحریکوں میں اھم کردارادا کیا۔ عارف ڈارلک جدید پن کے حولے سے ثقافتی و تہذیبی نقشہ بندی بھی کی۔ ”
عارف دارلک کا ثقافت کے متعلق یہ نظریہ ہے کہ ” “ثقافت” کا تصور بار بار غور کرنے میں اپنا راستہ تلاش کرتا ہے۔نظریہ کا نظریہ (دوسری چیزوں کے علاوہ) ، یہ تو خود ہی دلیلوں کی نزاکت کا ثبوت ہے جو عالمگیریت کو اپنا بنیاد سمجھتا ہے ، کیونکہ عالمگیریت کا عمل جو خود میں ثقافت کو بہتر بنانے کی تجدید کرتا ہے۔ طاقت اور شناخت کے مسائل جو یہ پیش کرتا ہے۔ چونکہ وہ عالمگیریت کے ساتھ مختلف اور کرایے کی سطح پر ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہیں ، جیسا کہ ان کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے۔ ان دنوں میں ، ثقافت کو سیاسی صداقت اور شناخت کی وضاحت کرنے میں واپس لایا جاتا ہے ، حالانکہ کچھ اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ ثقافت کا کیا مطلب ہوسکتا ہے سوائے اس کے کہ ایک وسیلہ ہے۔ جو شناخت کی حدود میں وہ منصوب بندی کرتی ہے۔ جب دیگر تمام معاشرتی قوتیں اسے ختم کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اور اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ نظریہ ، مقاصد کی تکمیل کے بجائےحدود کے اس پار مواصلات ، کے ساتھ ساتھ ٹوٹ نہیں جانا چاہئےان صاف اور چمکتی ہوئی ثقافتی حدود کی لکیریں ہوتی ہیں۔ ۔ جیسا کہ اس میں صنف اور نسل دوڑ کے وسوسے ہوتے ہیں ۔
عارف ڈارلک نے اپنے ایک مقالے “Global Modernity?: Modernity in an Age of Global Capitalism’ میں لکھا ہے”عالمی جدیدیت’ ( مجرد طور پر) اس تصور کی پیش کش کرتا ہے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تصور عالمگیریت جیسی اصطلاح میں موجود ٹیکنالوجی پر قابو پانے میں مدد کرتا ہے ، جبکہ یہ عالمی فرق اور تنازعہ کو بھی تسلیم کرتا ہے ، جو عصر حاضر کی اتنی ہی خصوصیات ہیں جتنا اتحاد اور یکجہتی کی طرف رجحانات ہوتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اختلافات ، اور ‘متبادل’ یا ‘متعدد’ جدیدیت کی ظاہری شکل ، جدیدیت کے تضادات کا اظہار اور خیالات ہیں ، جو اب معاشروں کے ساتھ ساتھ اس کے اندر بھی عالمگیر ہیں۔ اگر ہم متبادل یا متعدد جدیدیت کی بات کریں ، جو روایات اور ‘تہذیبی’ وراثت کے استقامت کو فی الحال اہمیت دیتے ہیں تو ، ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک عالمگیریت کے ذریعہ مشترکہ جدیدیت کے تصور کے ذریعہ متبادلات اور کثرتیت کی زبان کو تاریخی طور پر قابل بنایا گیا ہے۔ جدیدیت محیط ارّض سرمایہ داری سے تشکیل پاتی ہے۔ ” {First Published August 1, 2003۔ https://doi.org/10.1177/1368431003006300}
ادبی تنقید، مکتبیط تناظر مین بنیاد پرستی کی مقامیت پر افریقی تشخص کو مختلف تناظر میں مطالعہ کیا ھے۔ جو کٹھن اور الجھے ھوئے مشکل مفروضات پر مبنی ھے۔ اس میں تاریخی حوالے سے ایسے سوالات اٹھائے ہیں۔ جس میں نو آبادیاتی تحدیدات ، افتراقات اور کچھ سوالات وہ خود ادھورے چھوڑ گئے۔ اس کے پیش منظر میں منتقل کر دیتے ہیں۔ اور یوں قاری ان چھوڑے ھوئے سوالات کو اپنے طور پر تفھیم اور تشریح کرنے کی کوشش کرتا ھے۔ جس کے سبب مفاہیم الجھ بھی جاتے ہیں۔ اور جو بات عارف دارلک کے زہن میں ھوتی ھے اس کے مطالب تبدیل ھوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں رابرٹ مبابے (MOEMBE) کا کہنا ھے۔ یہ مخالف سامراج کے ” موضوع کا خلاصہ” (THEMATICS) ھے۔ اب نو آبادیاتی نظام اپنے طور پر معدوم ھوچکا ھے یا مر چکا ھے۔ سامراج شکن کے معنی اپنی موت آپ مر چکے ہیں۔ جو عالمی طاقتوں کے ترتیب دئیے ھوئے نو آبادیاتی نظام میں نو آبادتی آباد کاروں کی تمیز کرنے کے لیے خاصا آسان ھوجاتا ھے۔ کیونکہ مقامی آبادی کی اکثریت مایوسی اور قنوطیت کی حالت میں زندگی بسر کررھی ھوتی ھے۔ جس مین وہ منظم نو آبادیات کے استبدادی نطام کو بھول کر منظم نو آبادیات کے ” استحصال” کی باتیں شروع کردیتے ہیں۔کیونکہ نوابادیاتی نظام مزدوروں اور خاص کر خواتین محنت کشوں کا استحصال۔۔۔۔۔ اور مقامی تاجروں کے ساتھ ملکر نوآبادیاتی عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ملکر سازشین کرتے ہیں۔ یہ ریاستیں نو آبادیاتی قرتون کی اشرفیائی ” مصنوعہ” بن جاتی ہیں۔ جو ایک محیط ارض طبقے کو بھی بیدا کرتا ھے اور مقامی معاشرے کو دینا سے کاٹ کر اصل استبدادی رویوں سے باہر کی دینا کی توجو ہٹانے کی کوشش کی جاتی ھے۔ اب نو آبادیاتی نظام ایک قوم پرستانہ مظہر بن چکا ھے۔ یہ نہ ھی تنظیم ھے اور نہ ھی قومیت کی آئیڈیالوجی ھے۔ جو اب دینا سے مٹتی جارھی ھے۔ یہ اصل میں اپنی شناخت کا مسئلہ ھے جو عالمی سطح پر نئی نو آبادیات کا مسئلہ ھے۔ ان کی فکر اور تحریروں پر کارل مارکس، ماؤزوتنگ اور دوستفسکی کا گہرا اثر ھے۔ عارف ڈارلک کی کتابوں کے تراجم چینی، جاپانی، کورین، ترکی، بغاریں، فرانسیسی، جرمن اور پرتگالی زبانوں میں ھوچکے ہیں۔ عارف دارلک کا انتقال یکم دسمبر 2017 میں امریکی ریاست اورگن کے شہر یوجین میں ہوا۔
انکی کتابوں کی فہرست یوں بنتی ہیں۔
1989. The Origins of Chinese Communism, New York: Oxford University Press.
1990. Revolution and History: Origins of Marxist Historiography in China, 1919-1937. Berkeley: University of California Press.
1991. Anarchism in the Chinese Revolution, Berkeley: University of California Press.
1991. Schools into Fields and Factories: Anarchists, the Guomindang, and the National Labor University in Shanghai, 1927-1932, (with Ming Chan). Durham: Duke University Press.
1994. After the Revolution: Waking to Global Capitalism, Hanover, NH: Wesleyan University Press.
1997. The Postcolonial Aura: Third World Criticism in the Age of Global Capitalism, Boulder: Westview Press.
2000. “Postmodernism and China.” Duke University Press
2001. Postmodernity’s Histories: The Past as Legacy and Project, Lanham, MD: Rowman and Littlefield.
2005. Marxism in the Chinese Revolution, Lanham, MD: Rowman and Littlefield.
2006. “Pedagogies of the Global: Knowledge in the Human Interest,” Paradigm Press
2007. “Global Modernity: Modernity in the Age of Global Capitalism.” Paradigm Press
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...