آریا
تیسرا حصہ
آریا کے معنی
تنظیم و معاشرہ
آریاؤں میں خاندان اور معاشرے کی بنیاد تھی اور کوئی درمیانی تفریق فرد یا حکومت نہیں تھی ۔ خاندان کے اوپر حکومت تھی اور خاندان کے نیچے کوئی اور چیز نہیں تھی ۔ کیوں کہ اس وقت شخصی حکومت کا وجود نہیں تھا اور خاندان کا کوئی فرد اپنے آبااجداد سے جدا نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ فرد کوئی چیز نہیں تھا ، فرد کوئی خالص انسان نہیں تھا ، بلکہ وہ ماں باپ کی اولاد اور اس کے پیچھے کی پشتیں ، جن سے وہ پیدا ہوا ہے اور اس کے آگے کی وہ جھولیں جو اس کے بعد آنے والی ہیں ۔ آریوں میں باپ کا احترام اس لئے نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ باپ ہے بلکہ اس احترام کے پیچھے وہ پرکھے بھی شامل ہیں ، جن سے یہ خاندان وجود میں آیا ۔
آریاؤں میں مذہب سے مراد گویا قوم اور خاندان کی پرستش تھی ۔ آبا اجداد دیوتاؤں کا درجہ رکھتے تھے ۔ شادی اور توالد وتناسل مذہبی و متبرک افعال تھے ۔ باپ کا ماں کے ذریعے بچے میں جانا ، گویا اگنی یعنی پوتر آگ کا جو مادہ اخلاق اور عالم کا بنانے والا ہے ۔ انسانی جسم سے گزر کر نسل کی بقا دائمی سے گزر نا ہے ۔ اپنے آپ کو غیر قوم سے ملانا یا بلا بیٹا چھوڑے مر جانا آریوں میں مصیبت عظمیٰ سمجھا جاتی تھی ۔ قوم سے بے قوم ہونا گویا سلسلہ آبا اجداد کو قطع کردینا ، جو کل آریوں کو اگنی سے ملاتا ہے ، وہ ہمیشہ کے لئے مردود ہوجاتا تھا اور دیوتا کبھی اس کی التجا نہیں سنتے ہیں ۔ گویا دوسری قوم سے تعلق پیدا کرنا دائمی لعنت کا طوق اپنی گردن میں پہنا ہے ۔
آریوں میں وارث وہی بنتے ہیں جو نسلََ درست ہوتے ہیں ۔ بلا بیٹا چھوڑ ے مرجانا نہایت دردناک نتائج پیدا کرتا تھا ۔ بیٹے کے ذریعے آبااجداد کی روح کو حیات جاویدانی ملتی تھی ۔ کیوں کے وہ ان کی پرستش کرتا تھا اور انہیں چڑھاوے چرھاتا تھا ۔ اگر یہ پرستش نہ کی جائے اور چڑھاوے نہیں جرھائے جائیں ، تو متروں یعنی مرنے والوں کی روح تلف ہوجاتی ہیں اور خاندان مٹ جاتا ہے ۔ لڑکیاں تو دوسرے خاندانوں کے دیوتاؤں کی پرستش کرنے لگتی ہیں ، وہ جن پرکھوں کو مانتی ہیں وہ ان کے شوہر کے پرکھے ہوتے تھے اور ماں باپ کے خاندان کے قیام سے ان پر کوئی اثر نہیں ہوتاہے ۔ پس بیٹا چھوڑے مرجانا وہ نہ صرف حیات جاویدانی کھو دیتا ہے ، بلکہ اپنے ساتھ پر کھوں کے دور دراز سلسلے کو لے مرتا ہے ۔ یہ اتر اگنی جو خاندان کا خالق ہے اور قوم کا خالق ہے اور مرنے کے بعد بیٹا چھوڑنا جزا دینے کے لئے ضروری ہے ۔
آریوں کی سماجی تنظیم کی بنیاد گھرانوں پر قائم تھی ، ہر خاندان مکان کے اندر آباد ہوتا تھا ، جو عموماََ بانس اور لکڑیوں کا بنا ہوتا تھا ۔ مگر راجہ اور امراء کے لئے گھڑیاں بنی ہوتی تھیں خاندان کی سربراہی باپ کو نصیب تھی ۔ بچے اسی سے منسوب سمجھے جاتے تھے ۔ مرد عموماََ ایک ہی بیا کرتے تھے ۔ گو کثرت اذواج کی اجازت تھی ۔ بیوی کو ہر طرح سے شوہر کا مطیع ہونا پڑتا تھا ۔ شادی بیاہ پر کوئی پابندی نہیں تھی ۔ البتہ بھائی بہن کی شادی ممنوع قرار دے دی گئی تھی ۔ جہز کی رسم بھی تھی اور بیویوں کی قیمت بھی دی جاتی تھی ۔ کسی عورت کا شوہر مرجاتا تھا تو اسے جلدی شادی کرنی پڑتی تھی ۔ گویا بیواہ کی شادی ممنوع نہ تھی ۔
جو شخص خاندان کا سربراہ ہوتا تھا ، وہی ملکیتوں کی دیکھ بھال کرتا تھا ۔ باپ کی زندگی میں بیٹے وارث نہیں سمجھے جاتے تھے ۔ خاندانی امور بیوی کے متعلق تھے جو گھر کی ملکہ سمجھی جاتی تھی ۔ اسے عموماََ عزت سے دیکھا جاتا تھا ۔ غلہ پیسنا ، کھانا پکانا ، برتن دھونا ، مکان کو لیپنا اور صاف کرنا کھاتے وقت شوہر کے قریب بیٹھنا اس کی زمہ داری تھی ۔ بعض حالتوں میں خصوصاََ اولاد نہ ہونے کی صورت میں دوسری شادی مذہباََ ضروری سمجھی جاتی تھی ۔ مذہب نے اس کی اجازت دی ہوئی تھی ۔ اگر مرد اس کااہل نہ ہو تو عورت نیوگ کے ذریعے کسی دوسرے مرد سے اولاد پیدا کرلیتی تھی ۔ بیک وقت کئی شوہروں کا رواج بھی تھا ۔
شادی عموماََ باپ کی پسند سے کی جاتی تھی ، وہی بیٹیوں کے رشتے طے کرتا تھا ۔ مگر اونچے طبقے کی لڑکیوں کو شوہر کے انتخاب کی آزادی تھی اور سوئمبر کے موقع پر اپنی پسندیگی کے مطابق شوہر چن لیتی تھیں ۔ شادی کے بالا طریقہ کو گندھردا شادی کہتے تھے ۔ شادی کے بالاالذکر طریقہ کے علاوہ چھ اور طریقے رائج تھے ۔ (۱) آسر شادی بذریعہ خریداری ، (۲) راکشہ شادی بذریعہ گرفتاری (۳) دان شادی بذریعہ بخشش (۴) آرشہ شادی بذریعہ بالجبر (۵) پراجا پتیہ شادی بغیر جہز کے (۶) پسیاچہ شادی بذریعہ اغوا ۔ شادی کے یہ بالاالذکر طریقے رائج تھے ۔
سیاسی و عسکری تنظیم
آریاخاندانی وحدت کو گراماکہتے تھے ، اور گھر کے بزرگ کو گرامنی پنجابی کا گرائیں اور اردو کا گھرانا اسی سے مشتق ہے ۔ گراما سے بڑی وحدت ویش تھی ، اس کے سربراہ کو ویش پتی کہا جاتا تھا ، اس سے بڑی وحدت گنا یا جن تھی ، جس کا سربراہ گن پتی کہلاتا تھا ۔ پورے قبیلے کا نظم و ضبط ایک سمتی کے سپرد ہوتے تھے ۔جس میں قبیلے کے تمام بالغ مرد شریک ہوتے تھے ۔ لیکن روزمرہ کے امور ایک سبھا Subhaکے سپرد تھے ، جس میں فقط گاؤں کے بزرگ شریک ہوتے تھے ۔ گاؤں کا مکھیا بھی گرامنی کہلاتا تھا ۔
ان کی بنیادی تنظیم قبائیلی تھی ، جو متعدد خاندانوں پر مشتمل ہوتی تھی ۔ اس کی سرداری مورثی تھی ، جو کسی خاص خاندان کے افراد میں نسلاََ سردار ہوتے تھے ۔ ان سرداروں کو راجن کہا جاتا تھا ۔ یہ راجن حیقیقتاََ سیا سی تنظیم کے سربرہ نہیں تھے ، بلکہ عسکری تنظیم کے سردار تھے اور اوائل میں ان سے مراد سپہ سالار ہوا کرتی تھی ۔ مگر بعد میں انہواں نے اپنے حلقہ اختیارات کو وسیع کرکے اپنے مقبوضات کو ریاستوں میں تبدیل کردیا ، تو وہ صیح معنوں میں راجہ بن گئے ۔ مگر وسعت کے لحاظ سے پھر بھی ان کی ریاستیں مختصررہیں اور یہ مملکت کے درجہ کو نہیں پہنچ سکیں ۔ ان راجاؤں کا پہلا فرض اپنے قبیلے کا تحفظ اور اس کے لئے خورد و نوش کا سامان مہیا کرنا تھا ۔ قبیلے ان کی سرداری میں جنگ اور قتل غارت گری کیا کرتے تھے اور بیرونی حملے کی صورت میں ان کی زیر نگرانی اپنا دفاع کرتے تھے ۔
راجاؤں کے بعد پرہتوں کا طبقہ تھا ، جو مذہبی امورکے علاوہ سیاسی امور بھی انجام دیتا تھا ۔ راجاؤں پر پرہتوں کا کافی اثر ہوتا تھا ۔ پھر بھی وہ سیاست پر چھائے ہوئے نہیں تھے ۔ ان کے اثرات بعد کے برہمنوں کی نسبت بہت کم تھے ۔ پروہت کے علاوہ آریوں کی سیاسی تنظیم کا دوسرا اہم سردار سنائی تھا ، یعنی فوج (سینا) کا سردار ۔ جس کے ماتحت دوسرے عہدے دار تھے ۔ فوج تین حصوں میں بٹی ہوئی تھی ، پیادہ ، گھڑ سوار اور رتھ سوار ۔ ان میں رتھ سواروں کا دستہ سب سے اہم اور کار آمد تھا ۔ ان کے جنگی اسلحہ میں تیر کمان ، بھالے ، برچھے ، کلہاڑے اور تلواریں شامل تھیں ۔
آریوں کی ابتدائی زندگی نہایت سادہ تھی ، اس میں ذات پارت کے گنجلک کی گنجائش نہیں تھی ۔ اس میں شک نہیں ہے کہ انہوں نے قدیم باشندوں پر فاتحانہ انداز انتہائی اقتدار پرستی کا برتاؤ کیا ۔ ان سے زمین چھین لی اور انہیں دربدر کردیا ۔ لیکن شروع میں ان میں ذات پارت کی کوئی تفریق نہیں تھی ۔ لیکن جیسے جیسے وہ آباد ہوتے گئے ان کی زندگی پیچیدہ ہوتی گئی ۔ سماجی تنظیم زیادہ سخت ہوتی گئی ۔ پرش سکتا بھجن میں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ رگ ویدکے عہد میں چار ذاتیں ہوگئیں تھیں ۔ (۱) براہمن (۲) راجاتیہ (۳) ویشہ (۴) اور شودر مستقل زات پارت کے نظام کی بنیاد بن گئیں ۔ لیکن سماج کی ابتدائی تنظیم معاشی تھی اور پیشوں پر مبنی تھی اور یہ بنیادی طور پر مستقل ذات پارت کے نظام سے مختلف تھیں ، کیوں کہ یہ ذاتیں مورثی نہیں تھیں ۔
زات کی سختیوں نے مدت تک مفتوع قوموں سے ملنے نہ دیا ۔ یا اقلاً ان کے میل کو ست کردیا ۔ لیکن میل کتنا ہی ست ہو بالاآخر بہرو و زمان قوم فاتح کو مفتوع میں غائب کردیا ۔ ایک مدت دراز سے ہرچند ہندوستان میں آریوں کا وجود ہی نہیں ہے اور جب ہم محض بیان کی آسانی کے مطابق کہتے ہیں ، کہ کوئی قوم آریاہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ان کا رنگ سفید ہے اور یہ یورپیوں سے ملتے ہیں ۔ مگر ان کی سفیدی یورپیوں تک نہیں پہنچتی ہے ۔ آریوں کا رنگ سفید اور بال سیاہ ہوتے تھے ۔ مگر ایک اقلیت سرخ بالوں کی پائی جاتی ہے ، یہ سرخ بالوں والی اقلیت آریوں کے زمانے میں موجود تھی ، کیوں کہ منو نے انہیں نیچ قوم اقرار دیا ہے اور ان کے ساتھ اعلیٰ طبقات کے ہنود کا شادی بیاہ ممنوع تھا ۔
ڈاکٹرمعین الدین ، عہد قدیم اور سلطنت دہلی
لی بان ، تمذن ہند
ڈاکٹرمعین الدین ، قدیم مشرق
سبط حسن ، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء
اکرام علی ملک ۔ تاریخ پنجاب
پشتو۔ معارف اسلامیہ 7
جیمز ٹاڈ ، تاریخ راجستان
حمیداللہ ہاشمی ، پنجابی زبان و ادب
7 مولانا اسمعیل ذبیح ۔ اسلام آباد
پرفیسر محمد مجیب ۔ تمذن قدیم ہند
ڈاکٹرمعین الدین ، عہد قدیم اور سلطنت دہلی
مولاناعبدالقاد ۔ پشتو ، معارف اسلامیہ
آریا۔ معلومات شہکار انسایئکلوپیڈیا
چودہری علی اصغر ۔ تاریخ ارئیاں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔