آریا
پہلا مضمون
نارڈک یا آریاکے مطالعہ میں ہمیں یہ بڑی آسانی ہے کہ ان کے حالات ان کی مذہبی کتاب ہندو دھر م کی قدیم ترین مذہبی کتاب ’ رگ وید‘ ان کے بھجنوں یا مناجاتوں یا نظموں کی شکل میں ملتے ہیں ۔ ان بھجنوں سے ان کی سماجی ، مذہبی و سیاسی زندگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
لفظ آریاکا اطلاق ان اقوام پر ہوتا ہے جن کی جلدیں سفید اور بال سیاہ تھے ۔ یہ لوگ اپنے آپ کو آریای شریف النسل پکارتے تھے ۔ جب کہ وہ مقامی لوگوں کو داس اور نشاد کے نام سے پکارتے تھے ۔ انڈویورپین کی تقابلی لسانیات سے برانڈو نسٹائین جیسے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ لوگ اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جس سے ایران ویورپ کی اقوام پیدا ہوئی ہیں ، یا کم از کم اسی لسانی و معاشی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ سنسکرت ، قدیم فارسی ، اوستا ، یونانی اور لاطینی زبانوں کے باہمی مطالع سے ایسے بہت سے الفاط نکلیں گے جو مشترک ہیں ۔ مثال کے طور پر سنسکرت میں پتا ، پہلوی میں پدر ، یونانی اور لاطینی میں پیٹر بمعنی باپ کے ہیں ۔ اس طرح مادر مدر ماتا ، میٹر وغیرہ ہیں ۔ فیلپو ساسیٹی اور سر ولیم جونزکے مطابق سنسکرت ، فارسی ، یونانی ، لاطینی ، گھوٹک اور سلیٹک زبانوں کا سر چشمہ ایک ہی ہے ۔
قدیمی وطن
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کا قدیمی مشترکہ وطن روس کے جنوبی گھانس کے میدان ہیں ۔ لیکن اس سوال پر ماہرین میں بہت اختلافات ہیں اور اس سلسلے میں مختلف نظریات ہیں ۔ اس سلسلے میں برصغیر ، وسط ایشاء ،یورپ میں ہنگری کے میدان ، شمالی یورپ اور ایشیاء میں ٹنڈا کے میدان کا نام لیا جاتا ہے ، لہذا اس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے ۔
چونکہ انڈویورپین زبانوں کی بڑی تعدادیورپ میں پائی جاتی ہیں اور یورپ سے باہر بکھری حالت میں برصغیر و پاک و ہند تک ملتی ہیں ، لہذا سرسری مطالعہ سے یہی نتیجہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ انڈویورپین قوم کا قدیمی وطن یورپ میں تھا ۔ تقابلی لسانیت کی رو سے لتھونیا کی زبان کے بنیادی محاورات اور انڈو یورپین زبان کے مطالعہ سے تیار کردہ مشترکہ محاورات سے قریب ہیں ۔ ان دو حقائق کے پیش نظر ہم برصغیر کو انڈویورپین قوم کو وطن قرار نہیں دے سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ انڈویورپین اگر برصغیر کے رہنے والے ہوتے تو وہ پہلے پورے برصغیر کو آریائی تمذن کے زیر اثر لے آتے ۔ چونکہ آریائی تمذن برصغیر میں نہ ہونے کے برابر پایا جاتا ہے ، اس لئے اس نظریہ میں کوئی وزن نہیں ہے ۔
ہربرٹ کے مطابق اندو ایرانی ایشیاء میں براہ کوہ کاف داخل ہوئے ۔ ایڈورڈ نیروس کا کہنا ہے کہ اندوایرانی گروہ نے پامیر پلیٹو سے مختلف سمتوں میں ہجرت کی ۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۹۵۰ ق م انڈویورپین کی شاخ جسے ہم فل حال اندویورپین کہیں گے ، اپنے مشترکہ وطن پامیر پنہچی اور حتی جو انڈویورپین زبان بولنے والوں کی قدیم ترین قوم تھی تقریباََ ۱۹۵۰ ق م میں اپنے نئے وطن کپادوشہ پنہچے ۔ لہذا ان دوباتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حتی اور اندوایرانی جوانڈویورپین کی دو شاخیں ہیں ، تقریباََ ایک عرصہ میں اتنے دور افتادہ مقامات یعنی کپادوشہ اور پامیرسے یکساں فاصلے پر رہتی ہوں گی اور یہ مقام وسط ایشاء کے سوا دوسرا نہیں ہوسکتا ہے ۔ لیتھونیائی زبان کی یہ توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک ایسی انڈویورپین گروہ کی زبان ہے ، جو اصل قوم سے الگ ہوکر ایک ایسے علاقے میں آباد ہوگئے ، جہاں عرصہ دراز تک اس پر خارجی عناصر اثرانداز نہیں ہو سکے ۔ یورپ کی دوسری قدیم زبان یونانی ہے ۔
نسلی گروہ پر اعتراض
مثلاََ پرفیسر مجیب لکھتے ہیں کہ یورپ میں سنسکرت کا مطالعہ شروع ہوا اور اس کا پتہ چلا کہ سنسکرت ، ایرانی ، لاطینی ، یونانی اور جرمن ایک ہی اصل سے تعلق رکھتی ہیں ، تو ہند جرمانی یا ہند یورپی زبان و تہذیب اور اس تہذیب کو پھیلانے والی آریائی نسل کا تصور قائم ہوا ۔ اصل میں یہ تصور ہی بے بنیاد ہے اور آریائی نسل میں کوئی حقیقت میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ وہ جسمانی خصوصیات جو آریائی نسل کی پہچان مانی جاتی ہیں اس کثرت سے نہیں پائی جاتی ہیں کہ ان جی آریائی دعویٰ کو تسلیم کرلیا جائے ۔ لیکن قومیت کے پرستاروں نے اس عقیدت کے ساتھ آریانسل کے گن گائے کہ ایک دنیا دھوکہ میں پڑھ گئی ہے ۔ آریاکا لفظ اس قدر رائج ہوگیا ہے کہ غلط فہمی کے اندیشوں کے باوجود اسے ترک کرنا مشکل ہے ۔ آریادراصل کسی نسل کا نام نہیں ہے ۔ ہم یاد رکھیں کہ یہ سب لوگ گورے نہیں اور قد آور نہیں تھے ۔ وہ آریا صرف اس لئے آریا کہلاتے ہیں کہ وہ اپنے کو آریاکہتے تھے ۔ میکس ملر کا کہنا ہے کہ کلمہ آریاصرف ان کی زبان کی ترجمانی کرتا ہے اس کاکسی نسل یاقوم سے تعلق نہیں ہے ۔
آریائی نسل کی وحدت پر اس طرح کے بہت سے اعتراضات کئے گئے ہیں ۔ لیکن اس طرح کے کسی اعتراض کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آریائی اقوام کی ہجرت تقریباََ چار ہزار سال پہلے ہوئی تھی اور ان اقوام نے ایک ہی گروہ کی شکل میں ہجرت نہیں کی تھی ، بلکہ یہ گروہ کی شکل میں مختلف وقفوں کے ساتھ تقریباََ ایک ہزار سال تک ان کی ہجرت جاری رہیں تھی ۔ چوں کہ انہوں نے مختلف سمتوں میں ہجرت کی ، اس لئے آریا جہاں بھی گئے ان پر وہاں کے لسانی ، جغرافیائی ، معاشرتی ، تہذیبی اور مذہبی حالات اثر انداز ہوئے ہیں اور ان پر مقامی اثر پذیر عناصر کے مطابق ان کی زبان ، مذہب ، معاشرت اور رنگ و روپ میں تبدیلیاں ہوتی رہیں ہیں ، اس لئے بعد میں آنے والے گروہ ابتدا میں ہجرت کرنے والوں کے لئے اجنبی ہوگئے ۔ لیکن اس کے باوجود پہلے پہل لسانیت اور بعد میں رسم و رواج اور دوسرے عوامل نے احساس دلایا کہ یہ کوئی واحد نسلی اور لسانی گروہ ہے ، جو ایک ہی مسکن اور سرچشمہ سے تعلق رلکھتے ہیں ۔ کلمہ آریاجو اس کی نسلی اور لسانی پہچان ہے اور یورپ سے لیکر برصغیر میں مختلف صورتوں میں رائج ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔