پہلی تصویر ییلوسٹون نیشنل پارک کی ہے۔ گرم پانی کے اس چشمے پر دھنک کی طرح رنگ بکھرے ہیں۔ کبھی کبھار یہاں سے پانی فوارے کی طرح پھوٹ پڑتا ہے۔ سیاحوں کی توجہ کھینچنے والے اس نیلوفر جیسے رنگوں والے اس تالاب کا نام مارننگ گلوری پول ہے (جس کا مطلب نیلوفر جیسے رنگوں والا تالاب ہے)۔ لیکن اس پانی میں طرح طرح کے رنگ کیوں ہیں۔ اس کی وجہ اس کے اندر کی زندگی ہے۔ کونسی؟ اس کے لئے زندگی کی ایک شاخ کا پس منظر جس کے بارے میں کچھ کم بات کی جاتی ہے۔
ہمیں زمین پر قسم قسم کے درخت، جڑی بوٹیاں، حشرات، پرندے، مچھلیاں اور دوسرے جانور نظر آتے ہیں لیکن ان انواع سے کہیں زیادہ زندگی کی اقسام وہ ہیں جو ہمیں ننگی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتیں۔ 1977 تک زندگی کی تمام اقسام جس کے خلیے کے درمیان نیوکلئیس نہیں، اسے بیکٹیریا کہا جاتا تھا لیکن پھر مائیکروبائیولوجسٹ کارل ووز نے دس سال تک ان بیکٹیریا کہلانے جانے والے آرگنزمز کے تفصیلی مطالعے کے بعد اس سمجھ کو بدل کر رکھ دیا۔ جن جانداروں کو بیکٹیریا کہا جاتا تھا، ان میں زندگی کی بالکل دو ہی مختلف شاخیں تھیں۔ آرکیا ایک الگ شاخ تھی جس سے بیکٹیریا پونے چار ارب سال قبل الگ ہوئے تھے۔
کارل ووز کے اس کام کو آہستہ آہستہ مقبولیت ملی اور نوے کی دہائی میں یہ قبولِ عام ہوا اور زندگی کا یہ درخت نصابی کتابوں میں اکیسویں صدی میں اپ ڈیٹ ہوا۔ آرکیا کی ڈومین کی زندگی کی اقسام ہر جگہ پر ہیں اور ہمارے معدے کے اندر بھی۔ زمین کے سب سے مشکل حالات میں رہنے والے جاندار اسی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انتہائی تابکار ماحول میں، انتہائی سردی میں، انتہائی گرمی میں، بغیر آکسیجن کے میتھین پر گزارا کرتے ہوئے، سمندری کی گہرائی میں آتش فشانی عمل کے قریب، تیزابی ماحول میں، انتہائی نمک والے ماحول میں اس ڈومین سے تعلق رکھے والی انواع ملتی ہیں۔
بیکٹیریا کی طرح آرکیا بھی غیرجنسی طریقے سے مختلف طرح کی خلیاتی تقسیم کے ذریعے نسل آگے بڑھاتے ہیں۔ ان میں نیوکلئیس نہیں لیکن ان کی خلیاتی دیوار بیکٹیریا سے بالکل مختلف ہے۔ زندگی کی تاریخ کے سب سے اہم موڑ (جب یوکارئیوٹ بنے) میں انہوں نے میزبان کا کردار ادا کیا تھا۔ اس ڈومین کی ایک نوع ہمارے جسم میں جلد پر بھی رہتی ہے اور ہمارا پسینہ اس کی خوراک ہے۔ اس کا ہماری جلد کی صحت میں بھی کردار ہے۔
اب ہم پھر اس تالاب کو دیکھتے ہیں۔ اس تالاب کا پانی درمیان میں انتہائی گرم ہے اور جس طرح ہم کناروں کے پاس آتے چلے جاتے ہیں، یہ درجہ حرارت کم ہوتا جاتا ہے۔ یہاں پر آرکیا کی مختلف انواع کثرت سے موجود ہیں۔ ہر نوع فرق درجہ حرارت پر بہتر پھلتی پھولتی ہے۔ درمیان سے کناروں تک جوں جوں درجہ حرارت بدلتا جاتا ہے، یہ انواع بھی بدلتی جاتی ہیں۔ اس پانی کا رنگ ان انواع کی وجہ سے ہے۔ پانی کے درجہ حرارت کے بتدریج بدلاؤ کی وجہ سے انواع کا بتدریج بدلاؤ ہے جس کے باعث رنگوں کا بتدریج بدلاؤ بنتا نظر آ رہا ہے۔ گرم پانی کے اس جوہڑ کے رنگ زندگی کے رنگ ہیں۔
پہلی تصویر مارننگ گلوری پول کی
دوسری تصویر اسی طرح کے رنگوں سے سجے گرینڈ پرزمیٹک چشمے کی فضائی فوٹو
تیسری تصویر زندگی کے اس درخت کی
نوٹ: زندگی کے درخت کی ساتھ لگی تصویر عام نصابی کتابوں میں ملتی ہے لیکن اس میں یوکارئیوٹ کی ابتدا کے بارے میں غلط تاثر ملتا ہے، جم لیک کی اس تحقیق پر پوسٹ پھر کبھی۔
آرکیا پر وکی پیڈیا کا آرٹیکل
https://en.wikipedia.org/wiki/Archaea
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔