عربستان کی یادیں۔ چچا پٹھان اور بھابی
۔
زندگی میں کچھ شرمندگیاں ایسی ہوتی ہیں جو لوگوں کو بھول جاتی ہیں، مگر آپ کے دل کے کسی کونے میں بیٹھ جاتی ہیں۔ اور جب جب آپ ویلے ہو کر کسی کونے میں بیٹھتے ہیں تو ماضی کی کسی سہانی یاد سے پہلے یہ شرارتی بچوں جیسی آگے آ کر آپکی توجہ کی ٹافی اپنے منہ میں ڈال لیتی ہیں۔
ایسی ہی ایک یاد ان دنوں کی ہے جب سعودیہ میں میں نیا نیا "بھرتی" ہوا تھا۔ کام کی جگہ پر پاکستانیوں کے بعد سب سے زیادہ قربت انڈین مسلمانوں سے محسوس ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جاتے ہی بہت سے انڈین دوست بن گئے جن میں سے کچھ کے ساتھ آج بھی دوستی قائم ہے۔ دلبر بھائی کے قصے تو آپ سنتے ہی رہتے ہیں۔
انہی دوستوں میں ایک انڈین دوست تھے، جن کا نام تو کچھ اور تھا، مگر ہم انکو چچا پٹھان کہتے تھے۔ کیونکہ پٹھان انکے نام کا حصہ تھا۔ ویسے آپکی اطلاع کے لیے اگر انڈین پٹھان اپنے نام کے ساتھ پٹھان نہ لگائیں تو رنگ و روپ سے وہ مارواڑی لگتے ہیں۔ (متعصب جملے کی معذرت)۔
تو چچا پٹھان کے پاس اپنی گاڑی نہیں تھی۔ ابھی اس نے اپنا لائسنس بھی نہیں بنوایا تھا۔ دلبربھائی نے ویک اینڈ سے پہلے مجھے بتایا کہ چچا پٹھان کی فیملی انڈیا سے آ چکی ہے اور انہوں نے کچھ گھریلو سامان خریدنا ہے۔ تو انکو پک اینڈ ڈراپ کی ضرورت پڑے گی۔ کیا تم ویک اینڈ پر فری ہو جو انکی مدد کر سکو؟ دلبر بھائی خود دوستوں کی اتنی مدد کرتے تھے کہ انکے لیے یہ عام سی بات تھی۔ میرے جیسے موڈی بندے کو بھی انکار کی ہمت نہیں ہوئی۔ ویسے چچا پٹھان سے بھی خاصی بے تکلف دوستی تھی، اس لیے حامی بھر لی۔
اگلے روز چچا پٹھان کے اپارٹمنٹ کے نیچے گاڑی پارک کر کے چچا کو موبائل پر اطلاع دی تو تھوڑی دیر میں بلڈنگ سے چچا پٹھان اور کالے برقعے میں نقاب میں ایک خاتون ان کے ساتھ چلتی ہوئی آئی۔ چچا آگے میرے ساتھ بیٹھ گیا، اور اس کی بیوی پچھلی سیٹ پر۔
دوستو! اب وہ لمحہ ہے جب خاکسار کی شرمندگی نے صفحہ قرطاس پر رقم ہونا تھا۔ لاہوری، پاکستانی، یا تہذیبی فرق کو سمجھانے کا وقت نہیں ہے۔ (آپ سیچویشن سے سمجھ لیجیے گا)۔ جیسے ہی چچا کی بیوی گاڑی میں بیٹھی، میں نے بھابی کی سلام کیا۔ حال احوال پوچھا، جس کا جواب سر ہلاتی خاموشی سے ملا۔ شولری غالب آئی، انکو سعودیہ میں آنے پر خوش آمدید کہا اور شکوہ کیا کہ چچا پٹھان مجھے غیرسمجھتے ہیں جو دلبر بھائی سے کہلوایا۔ مگر یہ ایسے ہی ہیں۔ مگر آپ آ گئی ہیں۔ ہماری بھابی ہیں۔ آپ کو کسی قسم کی شاپنگ یا گاڑی پر کہیں جانے کی ضرورت ہو، بلاتکلف بتا دیجیے گا۔ اور ہاں چچا پٹھان کو چاہے ہم چچا کہتے ہیں مگر عمر میں ہمارے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کو ان سے شکائت ہو تو بلاتکلف ہم سے کہیے گا، ہم ٹھیک کردیں گے انکو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔
وہ سیکنڈ کا ہزارواں حصہ تھا، جب مجھے اندازہ ہوا کہ گاڑی میں میری آواز کے علاوہ "خاموشی" گونج رہی ہے۔ چچا پٹھان کا ادھ کھلا منہ، عجیب سی غیر ارادی مسکراہٹ نما کوئی چیز، پچھلی سیٹ پر برقعے میں لپٹی بھابی، جو اب سر بھی نہیں ہلا رہی تھی۔ میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور منزل کی جانب موڑ دی۔ شاپنگ مال پر اتر کر چچا کو یاد آیا کہ اس نے کسی اور دوست کو کہا ہوا ہے واپسی پر ڈراپ کرنے کا۔ میں واپس چلا آیا۔
اگلے روز دلبر بھائی میرے کیبن میں آئے اور آتے ہی بولے تم نے چچا کی بیوی سے کیا باتیں کیں؟ میں نے حیرانی سے بتایا کہ بھابی تو خاصی شرمیلی ہیں، کوئی بات نہیں کی۔ شائد انکو ٹھیک سے اردو بھی نہیں آتی۔ اور ہاں واپسی پر چچا نے کسی اور دوست کے ساتھ جانا تھا۔ دلبر بھائی نے ہاتھ میں چائے پکڑی ہوئی تھی، دوسرے ہاتھ کو نچا کر بولے، ابے پاکستانی! چچا پٹھان جس ماحول سے تعلق رکھتے ہیں وہاں کسی دوسرے کی بیوی سے ڈائرکٹ بات کرنے کو بہت بڑا سمجھا جاتا ہے۔ اور تم اس سے گھریلو انداز میں باتیں کرتے رہے۔ یہ تم نے کیا کیا؟ اسی لیے وہ واپسی پر ٹیکسی لے کر گھر گئے۔ مجھے چچا پٹھان نے منع کیا کہ تم نے نہ کہوں، مگر انہوں نے مائنڈ کیا۔
دوستو! باقی کہانی فضول ہے۔ اس کے بعد کئی سال میں چچا پٹھان کے ساتھ ہمارے بہترین تعلقات بھی رہے۔ ہماری فیمیلیز کی دوستی بھی، بچے بھی ساتھ ساتھ کھیلے۔ مگر اب بھی کبھی اکیلے بیٹھے خیال میں عربستان کی وہ دوپہر، گاڑی میں میری چہکتی آواز، اور چچا کا حیرت سے کھلا منہ، برقعہ بھابی کی خاموشی یاد آتی ہے تو عجیب سے شرمندگی ہوتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“