ایک بھارتی فلم دیکھی تھی جس کا نام یاد نہیں۔ اس فلم میں دلیپ کمار اپنی انتہائ بیمار بیوی ( وحیدہ رحمان) کو ھسپتال لے جانے کے لئے گھر سے نکلتا ہے۔ بیوی جاں بلب ہے۔ کوئ اس غریب کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ وہ رو رو کر فریاد کر رہا ہے کہ خدا کے واسطے میری بیوی کو ھسپتال لے چلو۔ لیکن کوئ گاڑی کوئ رکشہ کوئ ٹیکسی اس کی مدد کو نہیں رکتے۔ محلے والے کان لپیٹے پڑے رہے۔ وہ رو رو کر چلاتا رہا۔ ارے کوئ ہے؟ ارے کوئ ہے؟
دلیپ کمار کی ایکٹنگ اور یہ ڈائیلاگ بڑا مشہور اور مقبول عام ہے۔
یہی حال آجکل کراچی والوں کا ہے۔
کراچی کی کوئ گلی کوئ محلہ کوئ سڑک کوئ مارکیٹ اسٹریٹ کرمنلز سے محفوظ نہیں۔۔۔
آپ پیدل ہوں یا بس میں ، گاڑی میں ہوں یا دکان میں، مارکیٹ میں ہوں یا سڑک پر، گھر میں ہوں یا گلی میں، بینک میں ہوں یا ATM پر، کلینک میں ہوں یا ھسپتال میں،
کسی جگہ محفوظ نہیں۔
ایک طوفان سا آیا ہوا ہے۔ اب اسٹریٹ کرمنلز کی ہمت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لوگوں کو گھروں کے سامنے لوٹ رہے ہیں۔ ایک منٹ میں واردات کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔ کراچی پولیس چیف کے مطابق ایسے ایسے کرمنلز بھی پکڑے گئے ہیں جو بیس بیس مرتبہ پکڑے گئے اور پھر ضمانت پر رہا ہوگئے۔ یہ کیسا قانون ہے؟ ضمانت صرف ایک مرتبہ ہونی چاہئے۔ دوسری مرتبہ پکڑے جانے پر کڑی سزا ہونی چاہئے۔ یہ ہمارے منتخب نمائندے اسمبلیوں میں قانون سازی کرنے جاتے ہیں یا خوش گپیاں کرنے؟ زرا اندازہ کیجئے کہ آج سندھ اسمبلی میں ائر کنڈیشننگ کم یا تیز کرنے پر ہی بحث ہوتی رہی۔
چیف جسٹس آف پاکستان کو اس پر نوٹس لینا چاہئے اور قانون ساز اداروں کی توجہ ضمانت کے ڈھیلے اور بوگس قانون کی جانب مبذول کروانی چاہئے۔
کراچی پولیس چیف آج ایک ٹی وی انٹرویو میں بجائے اپنی کوتاہی اور نالائقی قبول کرنے کے دنیا کے مختلف شہروں کی مثال دیتے رہے کہ فلاں جگہ اتنے جرائم ہوتے ہیں تو فلاں جگہ اتنے۔
ان جرائم میں کراچی پولیس کے افراد بھی شامل ہیں جو نہ صرف جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتے ہیں بلکہ خود بھی اغوا بھتہ اور اسٹریٹ کرائمز میں ملوث ہیں اور پکڑے بھی جاچکے ہیں۔
کراچی آپریشن دے پہلے متحدہ کے زمانے میں گلیوں محلوں اور سڑکوں پر جگہ جگہ بیرئیرز اور گیٹ نصب تھے جس کی وجہ سے کم از کم گلی محلے ان اسٹریٹ کرمنلز سے محفوظ تھے کیونکہ تیزی سے فرار ہونے کی راہیں مسدود تھیں۔ گزشتہ آپریشن میں رینجرز کی نگرانی میں یہ تمام بیرئیرز ہٹا دئے گئے اور اب جرائم پیشہ افراد کھل کر کھیل رہے ہیں۔
جب سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کیسا!
اب کہاں ہیں رینجرز? کہاں ہے پولیس؟
ان بیرئیرز سے تم کو کیا خوف تھا؟
کراچی کے عوام جس خوف اور حراس کی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں یہ کوئ کراچی والوں سے پوچھے۔
بتائیے کہ اگر چار مشٹنڈے جدید اسلحے سے لیس دن دہاڑے کسی گھر میں گھس جائیں تو کوئ پڑوس محلے والا کیا کرلے گا؟ ایسی کئ وارداتیں ہو چکی ہیں جس میں ڈاکو جدید ترین خودکار اسلحہ سے لیس ہوکر وارداتیں کرتے رہے۔ ان میں سے اکثر کی ٹی وی فوٹیج بھی دستیاب ہے لیکن کوئ نہیں پکڑا گیا۔
کراچی کی تاجر برادری بھی انتہائ شدید پریشان ہے کیونکہ اس خوف کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔کراچی میں عام مارکیٹس میں ایک ھفتے میں تین ارب روپے کا بزنس ہوتا ہے جو گاھکوں کی کمی کی وجہ سے چاکیس فیصد گھٹ کر ساٹھ فیصد رہ گیا ہے۔
اب جب ایک ایک مجرم بیس بیس مرتبہ پکڑے جانے کے بعد چھٹ جاتا ہے تو قانون ، پولیس کاکیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔
اب تو یہی ہے کہ بھائیو اگر ایسے کرمنلز کو پکڑو تو پھر وہیں ٹھوک دو! چھوڑنا نہیں ہے ان بے غیرتوں کو۔
ورنہ چلاتے رہو،" ارے کوئ ہے؟ ارے کوئ ہے؟"