کئی دفعہ احباب پوچھتے ہیں کہ عربی زبان میں طلبہ کمزور کیوں رہتے ہیں؟
راقم سے کئی احباب نے یہ، یا اسی نوعیت کے سوالات کئے۔ جواب بہت سارے ہو سکتے ہیں اور اپنے اپنے نقطہاے نگاہ کے لحاظ سے متنوع بھی ہوں گے۔ ملتان کے ایک محترم دوست مولانا ابوبکر صاحب پچھلے دو تین دن سے اصرار کر رہے ہیں کہ میں اس سلسلے میں اپنے تجربات تحریر کروں۔
میری عربی تعلیم کا آغاز
میں نے عربی کی تعلیم کا آغاز بہت اچھے ماحول میں نہیں کیا تھا؛ استاذ کی دہشت بل کہ وحشت اس قدر کربناک تھی کہ مجھے وہ مدرسہ چھوڑنا ہی پڑا جہاں عربی کی تعلیم کا آغاز کیا تھا۔
اولا نحو کی تعلیم پیچیدہ؛ اور پھر ایسی صورت میں جب کہ آپ کو عربی تو عربی کوئی بھی زبان کما حقہ نہ آتی ہو۔۔۔ ( نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ زبان کا شعور اور اس کی ساختیات کا علم یا احساس تک آپ کو نہ ہو ….محض مادری زبان جانتے ہوں) ….. ایسی صورت میں نحوِ عربی کا سمجھنا اور اس کی پُر پیچ مصطلحات ، تراکیب اور اجراءِ قواعد کی بھول بھلیاں میں پڑ جانا بہت مشکل معمہ ہوتا ہے۔۔ بس ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا تھا ؛ جس سے یہ احساس ایک بار تو دل و دماغ پر اس قدر مسلط ہو گیا تھا کہ ہم اس " عربی " کے لئے پیدا ہی نہیں ہوئے ۔
مگر جب والدین نے دوسرے مدرسے میں پہنچا دیا تو وہاں محسوس كيا كه استاذ قدرے نرم خو اور خوش مزاج اور افہام و تفہیم سے کام لینے اور نکالنے والے ہیں۔
تب طبیعت عربی کی تعلیم کی طرف مائل ہوئی۔ اور عربی اول میں نحومیر اور میزان الصرف خوب یاد کی۔ صرف میں میزان الصرف سے آگے میں نے کچھ نہیں پڑھا، اور نحو میں ہدایت النحو حرفِ آخر ثابت ہوئی۔ کافیہ میں نے — خوش قسمتى کہوں یا بد قسمتی — اب تک نہیں پڑھی۔
( علامہ عبد العزیز میمنی علیہ الرحمہ نے بر صغیر کے اہلِ علم کے حصے میں کافیہ اور شرح جامی کے آنے اور شرح ابن عقیل کے نہ آنے کو بد قسمتی کہا ہے )
بہر حال جب نحو میر پڑھ چکا تو یہ احساس استاذ کی سمجھ بوجھ اور رفقاء درس کے مذاکرے سے پیدا ہو ہی گیا تھا کہ یہ قواعد عربی زبان کے سمجھنے اور بولنے میں کام آتے ہیں۔ مگر جب کسی کتاب کو پڑھتا یا حواشی پرنگاہ ڈالتا تو سمجھتا کیا خاک عبارت تک نہیں پڑھ پاتا تھا۔۔ ( بولنے لکھنے کا خیال تو اس وقت متخیلہ سے بہت دور تھا ) … دھیرے دھیرے عبارت پڑھنے کا معرکہ تو سر کر ہی لیا مگر سمجھ میں نہ آتی تھی ۔ ایک بار رابطہ عالم اسلامی کے مجلے الرابطہ ایک نسخہ کہیں دیکھا ؛ دل کش تصاویر ، رنگین اور دل فریب طباعت اور چمکدار کاغذ ۔ ۔ غرض بظاہر بہت ہی حسین و جمیل نظر آنے والے اس مجلے کو ، جب کسی جگہ سے پڑھنا شروع کرتا ، تو عربی سوم کا طالب علم ہونے اور نحو و صرف کے " تمام قواعد" کے استحضار کا بہت بڑا مدعی ہونے کے باوجود ایک حرف نہیں سمجھ پاتا۔۔ ہاں خوش قسمتی یہ رہی کہ "جدید عربی غلط ہوتی ہے ۔ اس میں نحو و صرف کے قواعد کی رعایت نہیں ہوتی " قسم کے غلط مفروضوں سے اپنی نحو و صرف دانی کے مزعوموں پر فخر کرنے کی بجائے احساس یہی رہا کہ اگر عربی سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو جو نحو و صرف پڑھا ہے شاید وہ ابھی ناکافی ہے یا یہ کہ عربی زبان سیکھنے کے لئے نحو و صرف سے ہٹ کر کچھ الگ کرنا پڑے گا۔
( بہت سے اساتذہ اپنے طلبہ كو اس قسم کی غلط معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں کہ جدید عربی میں نحو و صرف کے قواعد کی رعایت نہیں ہوتی، یا جدید عربی کو قدیم عربی سے کوئی مناسبت نہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ خیالات طلبہ کی علمی صلاحیتوں کے لئے زہر سے کم نہیں ہیں )
"کچھ الگ" میں نے یہ کیا کہ عربی کی کوئی بھی عبارت ہو اس کو قاموس کی مدد سے از خود سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ( اس کو الگ اس لئے کہتا ہوں کہ ماحول طریقہء تعلیم اس سلسلے میں معاونت کرنے سے بالکل قاصر تھے ) کئی بار قدم ڈگمگائے اور ہمت جواب دینے لگی۔۔ خاص طور سے مالوف افکار و خیالات سے ہٹ کر اگر کوئی کتاب ہوئی تو حوصلہ ٹوٹ ہی کر رہتا۔۔ مالوف سے مراد یہ ہے کہ درسی کتب اور ان کے حواشی تو اکثر سمجھ لیتے ہیں مگر جب کوئی عصری اسلوب کی فکری کتاب ہاتھ لگتی ہے تب طلبہ کچھ بھی سمجھ نہیں پاتے اور عموما غلط خیالات کا شکار ہو جا تے ہیں ۔ مگر ایسی کتابیں انھی طلبہ کے ہاتھ لگتی ہیں جن کو مطالعہ کا کچھ شوق و ذوق حاصل ہو چکا ہو۔۔۔اور جنھیں مطالعہ کا ذوق و حظ حاصل نہیں ہے وہ ایسی کتابوں کی طرف نگاہِ غلط انداز بھی نہیں کرتے۔
لہذا زبان سیکھنے والے کے لئے محض نحو و صرف پر عبور کافی نہیں ہے اس کو شوقِ مطالعہ بھی پیدا کرنا ہی ہوگا۔
نور الایضاح کے شروع میں جو تحریریں محشین اور شارحین کی طرف سے بڑھائی گئی ہیں اور باریک خط میں تحریر کی ہوئی ہیں۔۔ میرے دماغ کو ان تحریروں نے بھی ہلایا تھا؛ کہ جب کبھی انھیں کہیں سے پڑھتا اور سمجھ نہیں پاتا تو سوچتا کہ یہ شاید اساتذہ بھی نہیں سمجھ پاتے ہیں اسی لئے پڑھائی نہیں جاتیں ۔ مگر جب لکھی گئی ہیں تو ضرور پڑھنے اور سمجھنے ہی کے لئے لکھی گئی ہیں۔۔۔ بہر حال اسی قسم کے ٹوٹے پھوٹے تجربات نے عربی زبان کے سیکھنے کا شوق پیدا کیا۔۔ ( نور الایضاح ہی میں باب " زلة القارئ " ہے اور یہ بھی باریک خط میں ہے اور اتفاق سے استاذ محترم نے پڑھایا بھی نہیں۔۔ تب پھر اسی قسم کے " مجرمانہ " خیالات نے ذہن کو ستایا ) اس موقع پر میں یہ لکھ دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ درسِ نظامی کی کسی بھی کتاب کے پڑھانے والے استاذ کو عربی زبان پر عبور ہونا بہت ضروری ہے؛ مگر بد قسمتی سے ہمارے مدارس کا حال کافی برا ہے۔ اردو شروح کے بغیر کوئی استاذ سبق پڑھا ہی نہیں سکتا ۔ حد تو یہ ہے کہ میزان الصرف نحو میر منہاج العربیہ اور قصص النبیین ایسی ہلکی پھلکی کتابیں بھی اردو کی شرح کے بغیر نہیں پڑھا سکتے ۔۔ اب طلبہ کو عربی آئے تو آئے کیسے ۔
اور خود طلبہ کے لئے اردو شرح کا مطالعہ "علمی خودکشی" ہے۔ باذوق اور تجربہ کار استاذ کی صحبت کا کوئی بدل نہیں ہے۔
استاذ کی حالت طلبہ سے چھپ کر نہیں رہ سکتی اگر استاذ ہی اپنے میدان میں کمزور ہے تو ذہین طلبہ اپنے آپ کو محروم اور بد قسمت تصور کرنے لگتے ہیں اور کمزور اور کام چور طلبہ کے لئے یہی تصور کافی ہوتا ہے کہ ہمارے استاذ کو جب عربی نہیں آتی تو ہمیں کہاں سے آئے گی ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ضمیر کی ملامت سے بچ جاتے ہیں یعنی سب سے مخلص اور بہترین دوست کی نصیحت سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاتے ہیں ۔
(انگریزی پڑھانے والے استاذ کو انگریزی نہ آئے تو شاید عجوبہ خیال کیا جائے گا لیکن ہمارے عربی مدارس کے اکثر عربی پڑھانے والوں کی عربی بس یوں ہی سی ہوتی ہے اور ایک اچھی خاصی تعداد کو شد بد بھی نہیں ہوتی مگر اس کو کوئی عجوبہ نہیں سمجھتا )
وہ کوہ کن کی بات ( سوانح مولانا وحید الزمان کیرانوی رحمہ اللہ اور مصنفہ : مولانا نور عالم خلیل امینی مدظلہ ) نے اسی دور میں متاثر کیا اور خوب کیا اس کتاب کا عربی دوم یا سوم کے سال ہاتھ لگ جانا میرے لئے بہت بڑا انکشاف اور ساتھ ہی بہت بڑی نعمت ثابت ہوا۔۔ اسی کی معرفت دارالعلوم دیوبند کے دو عظیم ادیب سپوتوں سے واقفیت حاصل ہوئی۔۔ اور ساتھ ہی ادبِ عربی اور اردو کی جانب توجہ کرنے کی ایک ہلکی سی امنگ بھی اسی کتاب کی معرفت ہوئی ۔
اسی کتاب نے مجلہ الداعی تک پہنچایا جس کے ایک ایک صفحے کو حل کرنے کے لئے نہ جانے کتنے گھنٹے بل کہ کتنے دن اور کتنی راتیں میں نے کسی زمانے میں خرچ کی تھیں ۔
اگر طلبہ کو عربی زبان پر عبور حاصل کرنا ہے تو جرائد اور مجلات کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئیے ۔ ”جدید عربی“ سمجھ کر ان سے بے اعتنائی کرنا بہت بڑی نا انصافی ہوگی ۔ یہاں جدید اور قدیم عربی کا کوئی فرق نہیں ہے ۔ اگر ہے تو یہ ہے کہ ان مجلات و جرائد کی عربی چھٹی اور ساتویں صدی کے بہت سارے مصنفین کی عربی سے بہتر ، شستہ اور شائستہ ہے ۔
وہ کوہ کن کی بات… ہی نے ہندوستان کی 1200 سالہ اسلامی علمی اور ادبی تاریخ کے عظیم ترین مصنفین میں سے ایک حضرت مولانا علی میان ندوی علیہ الرحمہ کی کتابوں تک پہنچایا۔۔۔ اور پھر جو کتاب حضرت علیہ الرحمہ کی ہاتھ لگی پڑھ ہی ڈالی۔۔ خواہ اردو ہو خواہ عربی ۔ میری بد قسمتی رہی کہ ماذا خسر…. الطريق إلى المدينة ، روائع إقبال ، المرتضى اور إذا هبت ريحُ الإيمان کے علاوہ حضرت کی بہت ساری کتابیں طالب علمی کے دور میں حاصل نہیں کر سکا ۔ مگر دیگر طلبہ کو دیکھ کر اپنے آپ کو بہت خوش قسمت خیال کرتا ہوں کہ ان کتابوں تک اس دور میں رسائی حاصل ہوگئی جب دیوبند کے کتب خانوں میں ایسی کتابوں کا بہت کم گزر ہوتا تھا ۔ مذکرات سائح ۔ ۔ جستجوئے بسیار کے با وجود آج تک حاصل نہیں کر سکا ہوں ۔
طلبہ کو ایسے قلمکاروں کو ضرور پڑھنا چاہئیے ؛ جن کی تحریریں علمی و فکری روشنی کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی کی بھی حامل ہوتی ہیں ۔ میں اس نظریہ میں پورا یقین رکھتا ہوں کہ علم ایک اکائی ہے اس کی ہر شاخ دوسری شاخ سے غذا ، توانائی اور حسن و جمال حاصل کرتی ہے ۔ اردو ادب میں دل چسپی رکھنے والا اگر ادبِ عربی یا انگریزی ادب کا کچھ حصہ پالے تو اس کی اردو میں ایک نئی شان جمالی پیدا ہو جائے گی ۔ اسی طرح نحو و صرف پر عبور رکھنے والا اگر زبان کی باریکیوں سے آگاہ ہو جائے تو اس کی نحو و صرف کی مہارت نئے بال و پر نکال لے گی ۔
میرے عظیم استاذ اور مشفق و محسن مفتی حبیب اللہ نعمانی مد ظلہ نے کلیلہ و دمنہ سے نہ صرف تعارف کرایا ؛ بل کہ اس کے کچھ اسباق آپ نے پڑھائے بھی ۔ ( اس واقعہ کو بطور خاص اس لئے لکھ رہا ہوں کہ دارالعلوم دیوبند کے نصاب تعلیم میں کلیلہ و دمنہ ایسی کتابوں کی کوئی گنجائش ہی نہیں ) طیور و بہائم کی زبانی اِن حکایات میں ابن المقفع کے جادوئی قلم نے جو بلاغت بھر دی ہے اس کو تو خیر اُس وقت کیا سمجھتا ؛ بس اتنی سی بات ہے کہ ادبِ عربی کے ایک گراں قدر خزانے سے واقفیت ضرور حاصل ہوگئی ۔
یہاں پر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ کو علم حاصل کرنا ہے تو اس تنگ حصار سے ضرور نکلنا ہوگا جس میں ہم ماحول کے طفيل میں گھر گئے ہیں ۔ ۔ مثلا یہ ندوے کی کتاب ہے یہ دیوبند والوں کی کتاب ہے ۔۔۔ علم اور تنگ نظری کا ایک ساتھ رہنا اجتماع ضدین ہے ۔ الحکمة ضالة المؤمن ….. پر عمل ہونا چاہئیے۔۔ اور ہر عمدہ کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئیے ۔
عربی مجلات و جرائد صحرائے راجستھان میں تو کہاں سے لاتا ؛ ہاں البتہ دیوبند جانے کے بعد النادی کی لائبریری میں عربی مجلات کافی تعداد میں موجود تھے مجلہ الأزهر (مصر) اور مجلہ العربي (كويت) کے کچھ نسخے پڑھنے کو ملے۔۔ ذوق و شوق سے کچھ سمجھ کر اور کچھ بغیر سمجھے پڑھے ۔ فٹ پاتھ پر اخبارات و رسائل بیچنے والے ایک شخص سے کئی مجلات اور اخبار خرید کر بھی پڑھے جن میں مجلہ الیمامہ اور " الحج و العمرہ " خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں ۔
آج کے عہد میں طلبہ کے لئے مجلات و جرائد کا حاصل کرنا بہت آسان ہوگیا ہے۔ نیز بڑے بڑے عرب ادبا اور قلم کاروں کے مقالات کا پڑھنا مشکل نہیں رہا ۔ طلبہ کو چاہئیے کہ ایسے ادیبوں کی تحریریں ضرور پڑھیں اور اساتذہ کو اس سلسلے میں ان کی رہنمائی کرنی چاہئیے۔
عربی سیکھنے کا شوق رکھنے والے طلبہ کے لئے کچھ مشورے
(1) کسی ماہرِ فن باذوق استاذ کی صحبت نصیب ہو جائے تو زہے قسمت ! اس کو غنیمت جانیں۔ باذوق استاذ کا بدل کوئی کتاب نہیں ہو سکتی۔ کہا گیا ہے: علم در سینہ بود نہ در سفینہ ۔
(2) عربی زبان لکھنے اور بولنے کی ضرور مشق کریں ۔ روزانہ کچھ نہ کچھ ضرور لکھیں ۔ اس سے زبان سیکھنے کی راہ میں آپ نئے تجربات سے گزریں گے اور آپ کا ذہنی افق کشادہ ہوگا ۔ ہلکی پھلکی تحریریں قصے اور چٹکلے پڑھیں ۔ کامل کیلانی کا ادب الاطفال ضرور پڑھنا چاہئیے۔ نیز محفوظات کا ایک معتد بہ حصہ اپنے حافظے میں رکھنے کی کوشش کریں ۔ عمدہ اشعار ، امثال، جوامع الکلم اور نثر و نظم کا ایک حصہ ضرور حافظے کی زینت ہونا چاہئیے۔
(3) عرب مقریرین کو سنیں؛ ریڈیو یا موبائل فون کے توسط سے خبریں سنیں۔ انٹرنیٹ پر بے شمار عرب خطبا کی تقریریں موجود ہیں۔ آپ چند سیکنڈ میں ایسی تقریروں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
(4) عربی زبان کے عمدہ ناول ضرور پڑھیں۔ زبان کا بہترین استعمال اور گفتگو کا شاندار انداز ایسی ہی ادبی تحریروں سے سیکھا جا سکتا ہے۔ ( بد قسمتی سے میں نے زمانہء طالب علمی میں کسی عربی ناول کی صورت تک نہیں دیکھی ) اب اس طرح کی کتابیں اور تحریریں حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہ گیا ۔
(5) زیادہ مصنفین اور زیادہ کتابوں میں سے تھوڑا تھوڑا پڑھنے سے بہتر ہے کسی ایک مصنف اور اس کی کتابوں یا چند عمدہ کتابوں کو بار بار پڑھیں ۔
(6) علی طنطاوی، سید قطب، مصطفی صادق الرافعی، مصطفی لطفی المنفلوطی، عباس محمود العقاد، علی میاں ندوی، احمد امین، توفیق الحکیم، انیس منصور اور طہ حسین جیسے ادیبوں کو پڑھا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے اساتذہ سے مدد لینی چاہئیے۔
(7) مفردات یاد کرنے کا خاص اہتمام کریں ۔ افعال میں ثلاثی مجرد کے ابواب بطور خاص یاد کریں کیوں کہ اس سلسلے میں کوئی جامع قاعدہ نہیں ہے۔ نیز معتل و مہموز اور مضاعف کے افعال کی مشق خوب کی جاوے۔ اکثر طلبہ اِن کی بھول بھلیاں میں بھٹک جاتے ہیں۔ لغات میں المعجم الوسیط کو حرز جاں بنا لینا چاہئیے۔