(Last Updated On: )
عربوں کی تاریخ میں جو فن سب سے زیادہ باعثِ تکریم سمجھا جاتا تھا وہ فصاحت اور بلاغت ہے۔ فصیح و بلیغ طرزِ بیان اور اس کے ذریعے فنِ شاعری سے عربوں کی دل بستگی کا جواز یوں بھی موجود تھا کہ ان کی خانہ بدوش زندگی میں زمزمۂ شعری ہی سکوت بھرے لق و دق صحرا میں ان کا مونس و غم خوار ٹھہرتا۔ جس طرح اہلِ یورپ کے ہاں مصوری اور اہل ہند میں سنگ تراشی اہم سمجھی گئی، اسی طرح شاعری اور اس کا خطابیہ آہنگ بھی عرب تہذیب کی شناخت و پرداخت کا اہم جزو بنا۔ گستاولی بان کے مطابق:
’’عرب کے تمام تعلیم یافتہ لوگ خواہ مدبرینِ ملک ہوں یا ریاضی داں یا طبیب، سب میں شاعری کا جز شامل تھا اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اکیلے عربوں کا منظوم کلام تمام دنیا کے منظوم کلام کے برابر ہے‘‘(۱)
صحرا نشیں عربوں کی شاعری، سادگی اور صاف دلی سے عبارت تھی۔ ان کی بے ساختہ زندگی کی طرح صداقت کے مخلصانہ احساسات بھی واضح طور پر ان کی شاعری پر عکس ریز ہوئے۔ شعرا کی شخصی عواطف، احساسات اور غرائز پر مبنی فطرت کا اظہار، اپنے قبیلے اور آباؤ اجداد کے کارناموں پر احساسِ تفاخر اور دیگر قبائل کی غرابت اور ان سے وابستہ اشخاص کی ہجو اور معنوی حوالوں سے بعض سادہ سی اخلاقی مفاہمت کی باتیں اس عہد کی امتیازی خصوصیات تھیں۔ عرب شعرا کی شعر سے وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے استاذ احمد حسن زیات لکھتے ہیں:
’’جو خیال بھی ان کے دل میں آیا یا جس چیز کا انھیں احساس ہوا۔ انھوں نے فوراً اس کو نظم کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ان کے علم و حکمت و تجارت کا مخزن، ان کے کردار اور جنگی وقائع کی مرقع، ان کے صحیح و غلط کی آئینہ دار اور ان کی گفتگو نیز شبینہ قصہ گوئیوں کا خلاصہ ہے‘‘(۲)
معاشرے میں انقلاب رونما ہونے سے ادب عالیہ کی مروجہ سمت بھی بدل جاتی ہے۔ ظہورِ اسلام کے بعد عربی شاعری’’زوال پذیر ‘‘ ہوئی کیوں کہ جو عناصر ایامِ جاہلیت کی شاعری کا اہم جزو سمجھے جاتے تھے ان کا معاشرے میںوجود ناپید ہوگیا تھا۔ نسلی تفاخر، تعصب اور قبائل پرستی کی جگہ انکسار ، رواداری اور بھائی چارے نے لے لی۔ اس عہد میں جن شعرا نے اسلام قبول کیا، ان کے مذہبی تصورات نے بھی ان کی فکر کو جلا بخشی اورپیغمبر اسلام ﷺکی عملی دعوت ان کے لیے ایک سحر آفریں تجربہ بن گئی۔ ڈاکٹر علی کمیل قزلباش کے مطابق’’ ان شعرا کے لیے جو آدھی شعری عمر عہدِ جاہلیت اور آدھی عمر نورِ اسلام میں بسر کرچکے تھے، مخضرم کی اصطلاح رائج ہوگئی‘‘ (۳)۔شعرا کی اس نسل میں حسان بن ثابتؓ اور خنسا ؓ کی شاعری اسلامی شعور کے ظہور کا عمدہ نمونہ ہے۔ حسان بن ثابتؓ تو شاعر النبیؐ کے خطاب سے سرفراز کیے گئے۔ ان کی شاعری یوں بھی استناد کے لائق ٹھہری کہ اس میں مختلف غزوات کے حوالے اور ان میں شریک شخصیات کے ناموں کی تفصیل ملتی ہے:تاریک دور کے رسیا شعرا نے اپنے موضوعات میں لکھنا جاری رکھا لیکن اسلام کی ترویج و اشاعت میں تیزی کی بہ دولت غیر اہم ہوگئے۔ بازارِ عکاظ کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔ اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے متبادل جامع پروگرام کی وجہ سے تہذیب و تمدن کی نئی بنیادیں پڑگئیں۔ استاذ احمد حسن زیات کے مطابق:
’’‘اسلام نے عربی ذہنیت اور طرز و فکر میں عظیم الشان انقلاب پیدا کردیا تھا، جاہلیت پر پوری قوتوں سے ہلہ بول کر اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اور سماج کے سامنے کچھ ایسے بلند اصول پیش کیے جو ان کے سابقہ متداول اصولوں کے مخالف اور ان کے مسلمہ اقدار کے مناقض تھے‘(۴)
اموی دور میں عربی شاعری کے جاہلی عناصر ایک دفعہ پھر عود کر آئے۔’’اموی دور کی شاعری اسلامی روح سے متاثر ہوئے بغیر بڑی حد تک جاہلی دور کی شاعری کے طرز پر ہی جاری رہی۔ اس لیے کہ بیش تر شعرا دیہاتی علاقوں سے آتے اور مختلف قبائل و اجتماعات میں اپنے تعصب بھرے جذبات بیان کرتے رہے ‘‘(۶)۔خلافتِ عباسیہ کا دور عربی میں وسعت کا باعث بنا۔ نو مسلم قومیں اسلامی ملت کا حصہ بنیں تو ان کا تعلق عربی زبان و ادب سے باقاعدہ طور پر قائم ہوا۔ یہ عربی ادب کی تاریخ کا زریں عہد تھا۔ عربی تہذیب میں دیگر ثقافتوں کے مدغم ہونے کی وجہ سے عربی شاعری کی باگ ڈور اب عربوں کے نہیں بل کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ اس مرحلے پر فارسی، ہندی، سریانی اور یونانی ثقافتوں نے عربی شاعری کے موضوعاتی اور اسلو بیاتی ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ۔ عباسی دور کے اکثر عربی شعرا، باپ یا ماں کی طرف سے غیر عرب تھے اور ان کا تخلیق کردہ ادب بھی غیر عرب عناصر کا مجموعہ تھا۔
بدقسمتی سے عباسی عہدِ حکومت کے آخری دور میں تاتاریوں کے حملوں اور عثمانی ترکوں کے غلبے کی وجہ سے یہ شاعری کسی ’’مفلس کی قبا‘‘ کی طرح اکثر و بیش تر چاک ہوتی رہی۔ عثمانی خلافت کا مقتدرطبقہ عربی زبان کی سیادت کو ختم کرکے اس کی جگہ ترکی زبان کو رواج دینے کی طرف متوجہ تھا۔ عربی ادب سے سرد مہری کی بنیاد پر قائم شدہ انتعلقات کی وجہ سے اس عہد کی عربی شاعری وقفِ زوال دکھائی دیتی ہے۔ احمد حسن زیات کے خیال میں ایرانیوں کے ’’تعصب‘‘ اور ترکوں کی’’دھاندلی بازی‘‘ نے عربی زبان کے ساتھ وہ سلوک کیا جو کسی زمانے میں دیگر سامی زبانوں کے ساتھ ہوا تھا، کہتے ہیں:
’’یہ زبان اپنے بولنے والوں کے ختم ہوجانے کے باوجود باقی رہی اور کس نے اسے باقی رکھا؟ یہ ایک معجزہ ہے اور اس کا سہرا قرآن کے سر ہے‘‘(۴)
خلافتِ عثمانیہ کا سلسلہ ختم ہونے کے سبب مسلم امہ ذیلی مملکتوں میں منقسم ہوگئی، ہر ملک اور مملکت کے جداگانہ نظامِ حکومت کی وجہ سے وحدت کا تصور جب پارہ پارہ ہوا تو عربی بھی اپنے موضوعات کے سطحی پن اور روایتی اصنافِ سخن کی حرمت کے تصور کی وجہ سے ہیئت اور اسلوب کی وہ نئی دنیا بھی دریافت نہ کرسکے جو عظیم شاعری کی معراج ہوتی ہے۔ نپولین بوناپارٹ کے مصر پر حملے سے اہلِ یورپ کا عرب دنیا سے رابطہ قائم ہوا، خوش قسمتی سے یورپی استعمار کی عیاریوں نے عرب بدووں میں نیشنل ازم کے تصور کو پروان چڑھانے میں مہمیز کا کام دیا۔ مصریوں کو اپنی تمدنی عظمت اور بلندی کا احساس ہوا تو انھوں نے بھرپور انداز میں اپنی تاریخ، زبان اور تشخص کے بقا کی جنگ لڑی۔ مصر میں جدید انداز کے تعلیمی اداروں کے قیام، عربی اخبارات و رسائل کے اجرا اور روحِ آزادی کی بیداری نے ہر طبقۂ زندگی پر خوب صورت نقوش مرتب کیے اور اس طرح عرب دنیا عثمانیہ عہد کی غنودگی سے نکل آئی۔ جمہوریہ مصر کا یورپ سے علمی تعلق قائم ہوا، نئی عرب نسل جب اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یورپ گئی تو واپسی پر’’جدید کلچر‘‘ کا تحفہ ساتھ لائی۔ جدیدیت کی یہ تحریک، جس کا بیج مصر میں بویا گیا تھا۔ لبنان میں ایک تناور درخت بن گئی۔ مصر میں عربی کے شاعر محمود سامی البارودی’’جدید‘‘ کہلائے ،سچ ہے کہ عباسی دور کے اہم شاعر ابولطیّب المتنبی کے بعد، صدیوں کی خاموشی کا قفل البارودی ہی نے توڑا۔ عصری اقدار و حالات سے مربوط اس شاعری کو نوکلاسیکی دبستان بننے میں دیر نہ لگی۔ یہ سلسلہ یہیں رک نہیں گیا بل کہ نجلا عزاالدین کے خیال میں ایک بھرپور روایت کے طور پر آگے چلا، لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ:
’’اس نئی شعری روایت میں جسے احمد شوقی نے آگے بڑھایا اس کے بعد خلیل مطران نے نئی نسل کو نئے شعری رویوں سے آگاہ کیا، عربی شاعری کو بیانیہ اسلوب دیا۔ اسی حلقے میں بعدازاں بشارہ الخوری، عبدالرحمن شکری اور احمد ذکی ابو شادی جیسے اہم شعرا سامنے آتے ہیں‘‘(۵)
اس مرحلے پر جب عربی شاعری بڑی تیزی سے ارتقائی مراحل طے کررہی تھی۔ محمود سامی البارودی کی شاعری نے عربی شاعری کا تعلق عباسی دورِ خلافت سے جوڑدیا ۔ البتہ ان کی رائج کردہ جدیدیت جلد بوسیدہ ہوگئی اور عربی شاعری جدید موضوعات کو لے کر ترقی کی مزید منازل طے کرتی چلی گئی۔ محمد کاظم اس سلسلے میں رقم طراز ہیں:
’’زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ بارودیؔ اور صبریؔ بھی پرانے ہوگئے اور جدید عربی شاعری اب وہ کہلائی جو مصر کے احمد شوقی اور حافظ ابراہیم، لبنان کے خلیل مطران اور عراق کے معرو ف الرصافی کا طرزِ سخن تھی۔ ان لوگوں نے عربی شاعری کی اس نئی روایت کو آگے بڑھایا اور بلاغتِ لفظ کا دامن حسنِ خیال سے باندھتے ہوئے اس میں اظہار کے ایسے خوب صورت تجربے کیے کہ دنیائے عرب میں عربی شاعری کا کھویا ہوا وقار بحال ہوگیا‘‘(۶)
اس دور میں ماضی کے آئینے میں فردا کی جھلک دیکھنے کے تصور نے عرب قوم پرستی کے بیدار شدہ احساس کے تحت شعری ادب کو پرانے عہد کی طرف لوٹنے کی ترغیب دی۔ نوکلاسیکی ادب نے جلد اپنی جگہ رومانوی ادب کے لیے خالی کردی’’ اس وقت احمد ذکی ابوشادی نے ستمبر ۱۹۳۲ء میں اپولو کے نام ایک رسالہ جاری کرکے عربی میں رومانوی تحریک کو دوام بخشا‘‘(۷)۔ ان شعرا میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنھوں نے یورپ اور لاطینی امریکہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ وطن سے جدائی کا غم، تصوف کی ایک ہلکی سی لہر کے ساتھ ان کی شاعری میں اس قدر رومانوی انداز میں آتا ہے کہ بعض اوقات عورتوں کے سنگی مجسمے فرائیڈ کے ایڈی پس کا مپلیکس کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، رومانویت کی یہ لہر بعض اوقات سریل ازم کی تحریک کی ہم نوا بن جاتی ہے، عبدالحق حقانی القاسمی کے مطابق:
’’جدید عرب شاعری میں رومانویت ، رمزیت اور سرریلزم کے بھی بہت عمدہ تجربات ہوئے اور وابستہ شاعری، الالتزام سے متعلق شاعروں نے بھی شاعری کو نئے رجحانات و رویے عطا کیے، یہ دراصل دوسرے ممالک کی شعری روایات اور ثقافتی اقدار سے تاثر کا نتیجہ تھا‘‘(۸)
دوسری عالمی جنگ نے جہاں تاریخ میں کئی انسانیت سوز باب رقم کیے، وہاں مسئلۂ فلسطین کی صورت میں اس نے مشرق وسطیٰ میں انسانی حقوق کی پامالی کی ایک ایسی مثال قائم کردی جس کی نظیر شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ اس جنگ کے دوران جانب داری سے کام لیتے ہوئے برطانیہ نے اسرائیل کے قیام کے لیے راستہ ہم وار کیا ۔ جنگ کے بعد یہودی ایجنسی حجانہ(Hagana)نے خودہی اس سازش سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا:
’’ہم نے دوسری جنگ عظیم میں ایک اینگلو جیوش فوج منظم کی، ہم نے غیر سرکاری نیشنل گارڈ ترتیب دے کر عربوں کی تخریبی کارروائیوں کو کچلا۔ہم نے برطانوی ہائی کمیشن کے منصوبے کی تکمیل کے لیے کام کیا،۔۔۔ہم عربوں سے بالاتر اور ان کے ہر حملے اور بغاوت کو کچل سکتے ہیں ۔ ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ سرزمینِ فلسطین سے برطانوی فوج کا انخلا ہمارے مفادات کے منافی ہے‘‘(۹)
اس بنیادی تبدیلی نے جدید عربی ادب کے نئے موضوعات سے روشناس کیا، اس مرحلے پر جدید عربی شاعری نے مصر میں انقلابی رجحانات اور عرب تشخص کی بحالی کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ آج کی عربی شاعری نے استحکام، جارحانہ اندازِ فکر، دفاعی بے باکی اور موضوعاتی صراحت جیسے اسالیب اختیار کرتے ہوئے ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کارنامہ روایتی موضوعات اور ہیئت پرستی سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، جدید عربی شاعری کے اس رجحان پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر علی کمیل قزلباش کہتے ہیں:
’’جدید عربی شاعری نے پہلے مرحلے میںروایتی اصناف جیسے قصیدہ، مخمس وغیرہ سے آزادی حاصل کی اور بلاد ہجر کے شعرا نے روایتی قالبوں کے بندوں میں تبدیلیاں پیدا کیں اور آزاد نظم اور نثری نظم مرسل کے لیے راستے کھولنے کے لیے نت نئے تجربات کیے جب کہ خلیل جبران نے تو شاعرانہ نثر کے تجربے بھی کیے‘‘(۱۰)
جدید عرب شاعری پر البرٹ کامیو، ژاں پال سارتر اور کارل مارکس کے گہرے اثرات ہیں، سارتر کے فلسفۂ وجودیت اور مارکس کے جدلیاتی مادیت کے فلسفے سے عرب شعرا نے اپنے لیے نت نئے موضوعات اخذ کیے، اسرائیل کے قیام کے پس منظر میں موجود سام راجی سازشوں سے یہ شعرا مکمل طور پر باخبر تھے، اس قومی سانحے سے عرب شعرا کے تخلیقی شعور، جذبات اور افکار میں تبدیلی آئی اور ان کی شاعری روحِ عصر کی ترجمان بن گئی۔ اسرائیل کا قیام پر تشدد جارحیت سے عمل میں آیا تو ’’اندرونِ فلسطین مزاحمتی شاعری کی بنیاد پڑی اور فلسطینی شعرا بھی تیسری دنیا کے اس انقلابی ادبی قافلے میں شامل ہوگئے جن کا بنیادی مقصد نو آبادیاتی شکنجوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا تھا‘‘(۱۱)۔ عرب شاعری میں فلسطین کا تذکرہ اس زمانے سے موضوع بحث بننا شروع ہوگیا تھا جب پہلی جنگ عظیم کے دنوں میں ’’اعلان بالفور‘‘ کے منظر عام پر آنے سے فلسطین میں یہودیوں کی آمد ایک معمول بن گئی تھی۔ا س زمانے کے معروف شعرا عبدالمحسن الکاظمی، رشید سلیم الخوری، محمد علی الحومانی، ابراہیم طوقان، امین ناصرالدین ، بشارۃ الخوری، احمد محرم اور علی الجارم نے کشیدہ سیاسی صورت حال کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا، محمد کاظم کے مطابق’’ ان نظموں کی تعداد اتنی تھی کہ ان کے دیوانوں میں وہ فلسطینیات کے عنوان سے ایک علاحدہ باب کی صورت میں درج ہوتی تھیں‘‘(۱۲)
’’اعلان بالفور‘‘ کے بارے میں رشید سلیم الخوری کا ایک شعر بہت معروف ہوا:
لو کنت مل اہل المکارم لم تکن
من جیب غیرک محسناً یا بلفر!
ترجمہ: اے بالفور! اگر تو باکردار لوگوں میں سے ہوتا تو دوسروں کی جیب کاٹ کر یوں نوازشیں نہ کرتا (۱۳)
۱۹۱۷ء میں جب ترکوں کو شکست دے کر برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس مرحلے پر کچھ وقت کے لیے فلسطینی شعرا کو بھی یہ تبدیلی خوش آیند دکھائی دی اور انھوں نے اس تبدیلی پر حکومتِ برطانیہ کو خراجِ تحسین پیش کیا، شیخ علی رمادی اپنی ایک نظم میں اس موضوع پر لکھتے ہیں:
وحل محل الظلم عدل محبب
وقد لاح من بعد الظلام لنافجر
فکل ضمیر بالھناء ممتع
وکل یراع فی مھارقہ حر
ترجمہ: ظلم کی جگہ انصاف نے لے لی اور تاریکی کے بعد صبح طلوع ہوئی ہے۔ ہر دل آج مسرت سے لبریز ہے اور ہر قلم آزادی کے ساتھ لکھنے کے لیے تیار(۱۴)۔
اسکندر الخوری نے بھی اپنی شاعری میں سلطنت عثمانیہ کے دور کے فلسطین کو ایک کم زور اور ناتواں لڑکی سے تشبیہ دی، جس کا حسن نقاہت کی وجہ سے برباد ہوچکا تھا لیکن خوش قسمتی سے برطانوی تسلط سے اس لڑکی کے بدن میں اب حرکت اور قوت بھردی گئی ہے:
ملئت حیاۃ بعد ما
کانت فتاۃ ضامرۃ
ھذی البلاد کماتری
للترک کانت صاغرۃ
ترجمہ: کم زور اور نحیف جسم میں زندگی بھردی گئی ہے۔ یہ فلسطین کل تک ترکوں کے ہاتھ میں ذلیل و رسوا تھا(۱۵)
اس صورت حال میں کچھ شعرا اب بھی برطانیہ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا شکار تھے، انہوں نے ابتدا ہی سے قیام اسرائیل تک مرحلہ وار پیش آنے والے مذموم واقعات پر تخلیقی تحرک سے عوام الناس اور مقتدر طبقے کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ مثلاً معروف شاعر ودیع البستانی نے جافا میں گورنمنٹ ہاؤس کے ایک کمرے کے دروازے پر جبThe Jewish Society Lieutenant کی تختی دیکھی تو برطانیہ سے یوں مخاطب ہوا:
فتحنا لکم صدرا مدد نالکم یدا
وانی لاخثی ان تدیروا النا ظھرا
ترجمہ: ہم نے تمہارے لیے اپنے دل کے دروازے کھول دیے۔ دستِ تعاون دیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم لوگ اپنی پیٹھ نہ دکھاؤ (۱۶)
۱۹۲۹ء میں ’’البراق‘‘ کے حادثے کے بعد برطانیہ کی اصل صورت سے پردہ اٹھا تو برطانیہ سے دوستانہ جذبات رکھنے والے عرب شعرا کو بھی اس بات کا ادراک ہوا کہ برطانیہ اس خطے میں ان کی نہیں بل کہ یہودیوں کی مخافظت کررہا ہے، نفرت کا یہ جذبہ ہر سطح پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس موضوع پر فلسطین کے معروف شاعر ابراہیم طوقان اپنی غلطیوں پر یوں شرم سار دکھائی دیتے ہیں:
الذنب ذنبی یوم ھمت لجھبہ
یاموطنی ھٰذا فوادی فاطعن
ترجمہ: اے میرے وطن! غلطی میری تھی کہ میں نے ان سے پیار کیا، یہ میرادل ہے اسے چھلنی چھلنی کردو (۱۷)
ایک اور جگہ پر کمال ناصر اپنی ایک نظم میں برطانیہ کو اس کے وعدے یاد دلاتے ہوئے کہتے ہیں:
یا ’’مکدونالد‘‘ تری تناسیت المودۃ والعھود
ایام کنت لنا الحلیف وکنت ذا الخل والودود
یالیت شعری ھل عفت تلک الوثائق والوعود
ترجمہ: اے مکڈونلڈ!(برطانوی وزیر اعظم) کیا تم دوستی اور پیمانِ وفا کو بھول گئے جب تم ہمارے دوست اور حلیف تھے۔ کاش میں جان پاتا کہ وہ وعدے، معاہدے سب ایک ساتھ ختم ہوگئے (۱۸)
۱۹۳۵ء میں شاہ سعود بن عبدالعزیز نے جب فلسطین کا دورہ کیا تو عبدالرحیم محمود نے اپنی نظم’’ نجم السعود‘‘ میں مسجدِ اقصیٰ کو لاحق خطرات کی نشان دہی کچھ اس پیرائے میں کی:
المسجد الاقصیٰ اجئت تزورہ
ام جئت من قبل الضیاع تودعہ
وغدا وما ادناہ لایبقی سوی
ودمع لنا یھمی وسن نقرعہ
ترجمہ: مسجد اقصیٰ کی زیارت کرنے آئے ہیں یا کھونے سے پہلے اسے الوداع کہنے کے لیے آنے والے کل میں اور وہ کتنا قریب ہے کہ ہمارے پاس آنسو بہانے اور دانت پیسنے کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا۔(۱۹)
فلسطینی شاعر برہان الدین العبوشی نے اپنی قوم کو اس کے دہشت ناک اور مایوس کن مستقبل سے آگاہ کرتے ہوئے یوں خبردار کیا:
فافیقوا یا قوم قبل جلاء
عن بلاد فیھا عظام الوجود
ما تقولون ان نزحتم صغارا
لصلاح و خالد بن الولید
ترجمہ: اے میری قوم کے لوگو! جاگو اس سے پہلے کہ اپنے اس ملک سے جلاوطن کیے جاؤ جہاں تمہارے آباؤ اجداد مدفون ہیں۔ صلاح الدین اور خالد بن ولید کو کیا منہ دکھاؤ گے اگر تم ذلیل کرکے وطن سے نکال دیے گئے(۲۰)
۱۹۴۹ء میں پہلی بار جب اسرائیل نے عرب ریاستوں کی مشترکہ فوج کو ہزیمت کا نشانہ بنایا تو عرب عوام میں اس کا شدید رد عمل سامنے آیا۔ عرب عوام کا اپنے حکم رانوں پر سے اعتماد اٹھ گیا اور نظامِ مملکت کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں مل گئی۔مصر میں شاہ فاروق کی معزولی اور جمال عبدالناصر کی آمد کے پس منظر میں بھی کسی حد تک یہ اندرونی خلفشار محرک بنتا دکھائی دیتا ہے۔فلسطین سے محرومی کے دکھ کا فلسطینی شاعری میں نمودار ہونا اس دور کے عربوں کے شعری مزاج کی غمازی کرتا ہے۔اس تاریخی سانحے نے جسے عرب دنیا میں ’’النکبہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ عرب شاعری کی سمت نمائی میں اہم کردار ادا کیا، جوڈتھ گیبرئیل کے خیال میں:
’’۱۹۴۸ء میں فلسطین سے محرومی کے بعد روایتی شاعروں کی آوازیں کچھ عرصے کے لیے صدمے کے سبب خاموش ہوگئی تھیں، اس لیے کہ وہ بھی یا تو پناہ گزین بن گئے یا غریب الوطن ہوکر در در بھٹکنے لگے یا محاصرے میں موجود محکوم شہری بن کر رہ گئے، مگر جب ایک مرتبہ انہوں نے قلم دوبارہ اٹھالیا تو ان کی شاعری موجود سانچوں کو توڑنے لگی، فن شعر کی حالت کو بدل کر رکھ دیا اور ارتقا پذیر عربی شاعری میں خاص فلسطینی موضوعات کا لہو دوڑا دیا‘‘(۲۱)
۱۹۴۸ء کے خون ریز واقعات کے بعد لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی عرب بے گھری اور مہاجرت کے عذاب سے گزرے، وطن سے نکل کر انھیں جہاں بھی امان ملنے کی توقع تھی، وہاں کے مہاجر کیمپ ان کی پناہ گاہیں بنے۔ ان کی زندگیوں میں مجبوری اور بے بسی بہت سی آنکھوں کو اشک بار کردینے کے لیے کافی تھی۔ شاعر چوں کہ معاشرے کے حساس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کے لیے توبہ طورِ خاص زندگی کے اس کرب ناک پہلو کو برداشت کرنا خاصا مشکل تھا۔ پناہ گزینی کا دکھ اس عہد کی نظموں میں انتہائی شدت سے محسوس کیا جاسکتا ہے، ہجرت کے موضوع پر دنیا کی ہر زبان میں کچھ نہ کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن فلسطینی شاعری میں اس کا ظہور اس لیے بھی زیادہ جہتیں لیے ہوئے ہے کہ فلسطینی عوام نے اس کرب کو طویل عرصے کے لیے برداشت کیا ہے، مہاجرت اورپناہ گزینی کی بپتا کو انسانی ذہنوں پر درج کرنے کی ایک کوشش ہارون رشید ہاشم کی نظم ’’لاسلام‘‘ ہے:
اقولھا
اقول لاسلام
لان ساکنی الخیام
قد سمئو منزلۃ الخیام
قدسمئو للعذاب والشقاو السقام
قد سمئو الموت یدب فی العظام
قد سمئو الحیاۃ کلھا
ترجمہ: کبھی امن نہیں ہوگا خیمے میں، کہ اکتا چکے ہیں تذلیل سے وہاں کے لوگ، اور تھک چکے ہیں، تکلیف مشقت اور بیماری سے اور بور ہوچکے ہیں اس موت سے جو رس رہی ہے ان کی ہڈیوں میں بس کہ وہ پوری زندگی سے عاجز ہیں۔ (۲۲)
مہاجرت اور جلاوطنی کے اس کرب میں وطن کی یادیں کسی بھی تخلیق کار کے لیے فردوسِ گم شدہ سے کم نہیں ہوتیں۔ محمود سالم اپنی نظم میں یوں گویا ہوتے ہیں:
ماضقت یوما بنا جنۃ فقدت
فکیف عفت بنا افاق اقطار
ترجمہ: اے جنتِ گم شدہ! تم ہمارے لیے کبھی تنگ نہ تھے مگر اب تو بڑے بڑے وسیع و عریض ممالک بھی ہمارے لیے چھوٹے پڑ گئے ہیں ۔(۲۳)
غم و اندوہ کی ان کیفیات میں فلسطینی عوام نے ہمیشہ استعمار کے خلاف آواز اٹھائی، یہی وجہ ہے کہ قانون اور اس کی تعریف و تشریح کرنے والی قوتوں کے نزدیک ان کی حیثیت ہمیشہ قانون شکن کی رہی، فلسطینی عوام نے اپنے نحیف بازؤوں اور محدود وسائل کے باوجود وطن کی آزادی کے جذبے کو زندہ رکھا، پابہ زنجیر ہوکر بھی ان کے قدم تھکے نہیں، وطن کی خاطر جان دینے والے فدائین کو فلسطینی عوام کے ذہن و احساس نے کبھی فراموش نہیں کیا۔ شیخ القسام اور شیخ فرحان فلسطینی تاریخ میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والی وہ شخصیات تھیں کہ جن کا قتل ہر فلسطینی کے لیے اداسی کا سبب بنا۔ فلسطینی عوام کے نزدیک یہ شخصیات ان کی اصل محافظ تھیں۔ مطلق عبدالخالق نے ان جاں بازوں کے جذبۂ حریت کو سراہتے ہوئے کہا:
ماھم اشقیاء ولکن شقی
کل من قال عنھم اشقیاء
ھم ضحایا اوطانھم واسود
لفظتھم من جوفھا الصحراء
زھدوا فی الحیاۃ لاتشتبھیم
کاس حمراو یطلنون ثراء
فقراء لا یطلبون ثراء
غیران یلحدو اوھم شرفاء
ترجمہ: وہ قانون شکن نہ تھے، بل کہ وہ لوگ ہیں جو انھیں قانون شکن کہتے ہیں۔وہ صحراؤں میں شیروں کی طرح ہیں۔ جنہوں نے اپنے ملک کے لیے خود کو قربان کردیا، اپنی زندگی میں وہ زاہد تھے جب کہ شراب کا پیالہ اور نازک اندام لڑکی اپنی طرف کھینچتی تھی۔ وہ فقرا تھے، دولت کے طلب گار نہیں، ان کی خواہش صرف باعزت موت کی تھی (۲۴)
جولائی ۱۹۵۲ء میں مصر کا انقلاب عرب دنیا میں ایک ولولۂ تازہ کا سبب بنا سیاست کے خارزاروں کے علاوہ ادب کے خیابانوں میں بھی ’’الثورہ، الثورہ‘‘ یعنی انقلاب انقلاب کے نعرے سنائی دینے لگے۔ اس زمانے کے عربی ادب میں ’’الادب الثوری‘‘ کی اصطلاح رائج ہوئی۔ یعنی وہ ادب جو اپنے اندر انقلابی روح رکھتا ہو یا یبوست زدہ ماحول میں تغیر لانا چاہتا ہو۔ محمد کاظم کے خیال میں:
’’یہ سارا انقلاب اور یہ جذبۂ بغاوت صرف بیرونی غاصب کے مقابلے میں ہی نہ تھا بل کہ اس کا ہدف اتنی ہی شدت کے ساتھ خود عربوں کے اندر کاہل، رجعت پسند اور تخریبی عناصر بھی تھے ‘‘(۲۵)
فلسطین کے مزاحمتی شعرا، عالمی سطح پر رونما ہونے والے انقلابات سے براہِ راست متاثر ہوئے، پال ایلیوا، ناظم حکمت، پابلو نرودا، لورکا، لوئی اراگان، پوشکن، ایلیا اہرن برگ، میکسم گورکی، مایا کوفسکی اور شولو خوف وغیرہ نے فلسطینی شاعری کو بصیرت، ہمہ گیریت اور درد مندی کے احساس سے مالا مال کردیا۔ فلسطینی شعرا آج بھی اپنی مزاحمتی شاعری کے باب میں تحفظات اور بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ جب کہ عالمی سطح پر طبقۂ شعرا نے فلسطین میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی، انصاف اور بقائے باہمی کے اصولوں پر مبنی نظام کے لیے المیہ فلسطین کو اپنے تحفظات کا موضوع بنایا ہے۔ اردو شعرا نے ناصرف مسئلہ فلسطین بل کہ دنیا بھر میں برپا کی جانے والی جدوجہدِ آزادی کی تحریکوں سے اظہار ہمدردی کے لیے انھیں اپنی تخلیقات میں اولیت دی ہے۔ تخلیقی سطح پر شاعری کا وسیع مواد دستیاب ہے۔ جب کہ ترجمے کی روایت کے زیر اثر بھی اردو شعرا نے کثیر تعداد میں فلسطینی اور عرب شعرا کی ان نظموں کے تراجم کیے ہیں جن میں مسئلہ فلسطین کو موضوع بنایا گیا ہے۔
۱۹۴۸ء سے ۱۹۶۷ء کے درمیانے عرصے کی فلسطینی شاعری اردو شعرا کے لیے زیادہ قابل کشش نہیں تھی کیوں کہ اس میں موضوعات کا وہ تنوع اور تصور و خیال کا وہ حسن ابھی پیدا نہیں ہوا تھا جو اسے عالمی سطح پر متعارف کراتا، خود اسرائیل میں رہنے والے شعرا کا بیرونِ ملک مقیم فلسطینی شعرا سے باہمی رابطہ ساٹھ کی دہائی میں کہیں جاکر ہوا اور نقل مکانی کرنے والے ادیبوں کو محسوس ہوا کہ ’’فلسطین کے عوام کو تقسیم کردینے والی آہنی دیواروں کے دوسری طرف ایک طاقت ور شعری سرگرمی جاری ہے‘‘(۲۶)۔ یوں بھی مسئلہ فلسطین ابتدائی ایام میں ایک غیر متعین صورت حال سے دوچار تھا۔ خود شعرایک عجیب قسم کے تحیر اور شش و پنج کی حالت میں تھے، اس لیے تخلیقی سطح پر توانائی کا فقدان فطری امر دکھائی دیتا ہے۔ بقول محمد کاظم:
’’اس زمانے کی شاعری کوئی شک نہیں بناوٹ اور آرایش سے پاک، خلوص اور سچائی کی شاعری ہے لیکن اس میں گہرائی نہیں ہے، وسعتِ نظر نہیں ہے تصور و خیال کی وہ اپچ نہیں ہے، وہ پختگی اور رچاو نہیں ہے جو کسی تجربے کے شاعر کی ذات میں پوری طرح جذب ہونے سے پیدا ہوتا ہے‘‘(۲۷)
اس دور کی شاعری میں بیانیہ منظر کشی تو موجود ہے لیکن شاعر کا اپنا فلسفۂ زندگی کار فرما دکھائی نہیں دیتا۔ ۱۹۶۷ء کی چھے روزہ عرب اسرائیل جنگ وہ مرکزی نقطہ ہے، جس کے بعد اردو دنیا مسئلہ فلسطین کی طرف بہ طورِ خاص متوجہ ہوئی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے کہ خود جنگ سے پہلے کی عربی شاعری کا معیار کے لحاظ سے کم درجے کا ہونا ہے، فلسطینی شاعری کا وہ حصہ جو عربی سے براہِ راست اردو میں ترجمہ ہوا ضخامت کے لحاظ سے بہت کم ہے، زیادہ تر ترجمہ شدہ مواد، ترجمہ در ترجمہ کے عمل سے گزرا ہے، بدقسمتی سے مذہبی طور پر عربی زبان کے ساتھ ایک مضبوط اور جذباتی رشتہ ہونے کے باوجود عربی ادب سے ہمارا براہِ راست تعلق نہ ہونے کے برابر ہے اور ترجمہ کے اس عمل کے دوران بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں، یعنی:
’’پہلے ترجمے میں بعض اصطلاحات ، الفاظ یا عبارت کے مفاہیم مبہم اور غیر واضح ہیں تو اس کے دوسرے ترجمے میں بھی یہ مشکلات قائم رہیں گی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ منٹو نے روسی ادب کے اردو تراجم کیے لیکن وہ روسی زبان سے ناآشنا تھے‘‘(۲۸)
فلسطینی ادب کے ترجمے کے لیے بھی ہمارے ہاں دنیا کی دوسری زبانوں (خاص طور پر انگریزی) سے استفادہ کیا گیا ہے۔ امجد اسلام امجد شعرا کی اس محدود تعداد میں شامل ہیں جنھوں نے محمد کاظم کی معاونت سے براہِ راست عربی کے نام ور شعرا کی نظموں کا اردو میں منظوم ترجمہ کیا، وہ جن شعرا سے متاثر ہوئے ان میں عبدالوھاب البیاتی، نزار قبانی، نازک الملائکہ، محمود درویش، سمیح القاسم اور فدویٰ طوقان کے نام شامل ہیں۔ امجد اسلام امجد اپنے ترجمہ نگاری کے اس فن کے پس منظر میں ایک نظریۂ زندگی کا مکمل احساس و ادراک رکھتے ہیں۔ اپنی ترجمہ شدہ نظموں کے مجموعے’’عکس ‘‘ کے ابتدایے میں وہ لکھتے ہیں:
’’میں نے یہ نظمیں، ترجمہ برائے ترجمہ، کی خاطر نہیں کیں۔ میرے سامنے ایک واضح مقصد تھا اور وہ یہ کہ بیسویں صدی کے نصف آخر کے ایک شاعر کی حیثیت سے میرا فرضہے کہ میں شاعری کے ذریعے اپنے وطن، قوم اور عالمی انسانی برادری سے نہ صرف اپنا تخلیقی تعلق قائم کروں بل کہ دنیا میں برپا عظیم اقداری کش مکش میں بھی ترقی پسند، عوام دوست اور انقلابی قوتوں کا ساتھ دوں‘‘(۲۹)
ان تراجم کے لیے فلسطینی شاعری کا انتخاب ہی کیوں کیا گیا؟اس کے لیے شاعر کے سامنے سیاسی اور طبقاتی بیداری کے عمل میں فلسطین کا سب سے آگے ہونا ہے، تیسری دنیا کے عوام کی عظیم جدوجہدِ آزادی میں مقدور بھر حصہ لینے کے ساتھ ساتھ امجد اسلام امجد کے پیش نظر وہ ملی شعور بھی کئی سطحوں میں کارفرما دکھائی دیتا ہے جو اردو شعرا کی اس نسل کے حصے میں آیا ہے۔ ابتدائیے ہی میں آگے چل کے وہ رقم طراز ہیں:
’’باقی رہی فلسطینی شاعری کے انتخاب کی بات وہ یوں ہے کہ ایک پاکستانی مسلمان ہونے کی حیثیت سے عالمی انسانی جدوجہد میں فلسطینی عوام کی جدوجہد میرے لیے، پاکستان کے بعد سب سے اہم تاریخی استعارہ ہے‘‘(۳۰)
امجد اسلام امجد کو اس بات کا اعتراف ہے کہ عربی زبان سے ان کا تعلق بس واجبی نوعیت کا ہے لیکن انہوں نے ’’اس کام کو شوق سے زیادہ فرض سمجھ کرکیا ہے‘‘(۳۵)۔ زیر بحث نظموں کے نثری تراجم سید محمد کاظم نے کیے انہوں نے صرف نثری تراجم پر ہی اکتفا نہیں کیا بل کہ ایک ایک نظم کے سماجی اور لسانی پس منظر کے حوالے سے شاعر کے ساتھ کئی کئی گھنٹے تبادلۂ خیال بھی کیا۔ خود محمد کاظم ، امجد اسلام امجد کے تراجم کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بیروت کے’ الآداب‘ میں جب میں نے اس مجموعے کی پہلی نظم’ بکا الی شمس حزیران‘ پڑھی تو اس نے مجھے غیر معمولی طور پر متاثر کیا اور میں نے اس کا نثری ترجمہ کرکے امجد اسلام امجد کو دیا۔۔۔ اور اس نے اسے ایک دو روز کے اندر ہی اردو نظم میں ڈھال لیا۔۔۔ میں نے امجد کی اس نظم کو ایک تنقیدی نظر سے دیکھا۔۔۔ مجھے ایک خوش گوار حیرت ہوئی کہ اردو میں آکر بھی بیاتی، بیاتی ہی رہا تھا ‘‘ (۳۱)
تراجم کا یہ سلسلہ چلا تو عربی شاعری کے خوب صورت اردو تراجم پر موقوف ہوا۔ شاعری کے بارے میں یہ بات کسی حد تک ضرور مبنی بر حقیقت ہے کہ اس کا ترجمہ دنیا کی کسی دوسری زبان میں ممکن نہیں، اور بالفرض اگر ایسا کر بھی لیا جائے تو وہ فنی نزاکتیں، علمی موشگافیاں اور جادوئی عنصر جو اصل زبان کا جزو ہوتا ہے دوسری زبان میں منتقل ہونے سے عموماً رہ جاتا ہے، امجداسلام امجد نے کمالِ پختگی سے یہ تراجم اس انداز میں کیے ہیں کہ بعض اوقات وہ اسی ماحول کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔ محمد کاظم ان تراجم کے معیار کو پرکھتے ہوئے گواہی دیتے ہیں کہ ’’میں عربی اور اردو دونوں طرف کی نظموں کو سامنے رکھ کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ امجد نے اردو نظم میں ہر جگہ اصل شاعر کی جذباتی کیفیت اور مزاج اور طرزِ احساس کو کہیں مخل نہیں ہونے دیا، چناں چہ جذباتی اور احساسی کیفیت دونوں زبانوں میں ایک ہی ہے‘‘(۳۲)
امجد اسلام امجد نے اپنے تراجم میں کہیں بھی اصل شاعر کی بات کے ابلاغ کو قاری کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑابل کہ کوئی لفظ یا ٹکڑا اضافی لانا پڑا ہے یا کہیں کوئی لفظ حذف بھی کرنا پڑا ہے تو ترجمے کا شعری موڈ برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے ایسا کیا ہے۔ مثال کے طور پر محمود درویش کی نظم ’’امرأۃ جمیلۃ فی سدوم‘‘ کے ترجمے کا اقتباس دیکھیں:
یاخذالموت جسمک شکل المغفرۃ
وبودی لواموت
داخل اللذہ یاتفاحتی
یاامرأتی المنکسرہ
وبودی لواموت
خارج العالم فی زوبعۃ مندثرہ!
ترجمہ: تمہارے بدن کے خم و پیچ پر مغفرت کی طرح موت وارد ہوئی!
کاش میری بھی اس طور ہی موت ہو!
تلذد کے لمحے میں اے میری جاناں
میری پر شکستہ، پری چہرہ عورت
کاش میری بھی اس طور ہی موت ہو
فنا و بقا کی حدوں سے ادھر
اک بگولے کے بکھرے ہوئے انت میں (۳۳)
جون ۱۹۶۷ء کی جنگ کے اثرات جدید عربی شاعری پر نہایت گہرے ہیں، یہ شکست ایک آفت کی شکل میں نمودار ہوئی۔ جون کی شکست کے اثرات بعد کی عربی شاعری پر نمایاںاور قابل شناخت ہیں، اس صورت حال میں ایک طرح کا احساسِ رایگانی بھی پیدا ہوا، محمد کاظم کے خیال میں:
’’سب سے زیادہ مایوس کن ردِعمل اس عرصے میں یہ دکھائی دیتا ہے کہ شاعر کا خود اپنے وجود کے جواز پر سے ایمان جاتا رہا اور وہ اپنے فن اور اس کی ضرورت و منفعت کے بارے میں سوال اٹھانے لگا۔ اسے بہت شدت سے اس امر کا احساس ہوا کہ الفاظ کی جنگ (حرب الکلمات) جس میں وہ ۱۹۴۸ء کی پہلی شکست کے بعد سے برابر لگا ہوا تھا، مادی اور حقیقی نتائج کے اعتبار سے اس کی قوم اور وطن کے لیے ایک سعیٔ رائیگاں ثابت ہوئی تھی‘‘(۳۴)
یہ اثرات اس عہد کے بعد کی عربی شاعری پر واضح انداز میں اثر انداز ہوتے دکھائی دیتے ہیں، مثلاً سمیح القاسم کی نظم’’قطرات دم علی خریطۃ الوطن العربی‘‘ کے ایک بند میں یہ موضوع آیا ہے اور مترجم نے کس خوب صورتی سے اس کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے:
وقفت فی الدودلکی اشتری خبز الاطفالی
و مسرت سینن
وحین صار الدورلی
قبلوا مافی یدی من عملۃ
ساخرین
تبدلت عملتنا یاحزین!
ترجمہ: برس ہا برس
آنے والے دنوں کے چمک دار خوابوں میں کھویا ہوا
میں قطارِ فنا میں قدم در قدم آگے بڑھتا رہا
اور جب میں زمانے کی دکان پر
اپنے گھر کے لیے روشنی مول لینے کی خاطر گیا
تو مرے حال پر تیرگی ہنس پڑی
میرے ہاتھوں میں سِکّوں کا انبار تھا
پر دکانِ جہاں کی کرنسی نہ تھی (۳۵)
تراجم ایک تہذیب کو دوسری تہذیب سے متعارف کرانے کا عمل بھی ہے۔ مصنف کی روح کا ترجمہ شدہ مواد میں حلول کر جانا ضروری ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے خیال میں:
’’مترجم کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں زبانوں پر کامل دسترس رکھتا ہو، نفسیاتی اعتبار سے مترجم کو دوہرے کرب اور فکری بے قراری سے دوچار ہونا پڑتا ہے، یہ دوئی خود مترجم کی شخصیت کو توڑ دیتی ہے‘‘(۳۶)
ایک مترجم کے طور پر امجد اسلام امجد کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے کہیں پر بھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ ان کی عربی دانی کسی حد تک سہی، محمد کاظم کے مرہون منت ہے، جس چابک دستی اور مہارت سے انھوں نے عربی نظموں کے تراجم کیے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زبان سے مکمل آشنائی نہ رکھتے ہوئے بھی اس کے مزاج ، استعاروں اور علامتوں کے نظام سے خوب واقف ہیں۔ فدویٰ طوقان کی ایک نظم میں امجد کے ترجمے کا انداز دیکھیے:
وما قتلوا منتہیٰ
وما صلبوھا
ولکنما خرجت منتہیٰ
تعلق اقمار افراجہافی السماء الکبیرہ
وتعلن ان المطاف القدیم انتہی
وتعلن ان المطاف الجدید ابتدا
ترجمہ: منتہیٰ لاش ہے پر اسے قتل کس نے کیا؟ کب کیا؟
کون ہے جو کہے میں نے مارا اسے
اسے کون مصلوب کرتا کہ جو
سوئے دشتِ فلک
گھر سے نقش فنا لے کے رخصت ہوئی
اپنی خوشیوں کے چاندوں سے جھولی بھرے
یہ بتانے کہ اب زندگی کے ہر اک کہنہ انداز کی
ہوچکی انتہا
یہ بتانے کہ اب ہو رہی ہے نئے دور کی ابتدا (۳۷)
جدید عربی نظم میں آزاد ہیئت کو متعارف کروانے کی تحریک میںعراق کی خاتون شاعرہ نازک الملائکہ کا نام خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ نازک الملائکہ شاید پہلی شاعرہ ہیں جنھوں نے عربی میں بحر شکنی کرتے ہوئے آزاد نظم کوباقاعدہ طور پر پیش کیا۔ اس کام میں انھیں ممتاز حیثیت اس لیے بھی حاصل ہوئی کہ ایک نقاد کی حیثیت سے انھوں نے اپنے نظریات کو متعدد مقامات کی صورت میں پیش کیاجو زیادہ تر’’الادب‘‘ میں شائع ہوئے۔ نازک الملائکہ کی ہم عصر شاعری پر گہرے اثرات کا مطالعہ کرنے کے لیے فدویٰ طوقان کی ڈائری میں سے یہ اقتباس دیکھے:
’’میں ادیبہ ’ن‘ (نازک الملائکہ) سے پہلی بار ملی۔ مجھے کسی نے کہا تھا کہ اس کی صاف گوئی اور کھرا پن لوگوں کو اس سے نفور کردیتا ہے لیکن مجھے وہ۔۔۔ ان باتوں کے باوجود بھی اچھی لگی۔ وہ ایک ایسے رویے کی نمائندگی کرتی ہے جو اپنی ظاہری توانائی کے باوجود کم زور اور حزن آمیز ہے۔ یہ رویہ میری سرزمیں کے انسان کی علامت ہے۔ ’ن‘ کی آواز کے پیچھے ایک جانب دارانہ جذبہ پایا جاتا ہے اور یہی میرے نزدیک اس کی کم زوری کا راز ہے ‘‘(۳۸)
امجد اسلام امجد نے نازک الملائک