انگریزی اور فارسی زبان کے مزاج میں مماثلت کے پہلو تلاش کرنا سعی لا حاصل ہے تاہم جوانمرگی اور جوش و ولولہ کے اعتبار سے عرفی کو فارسی کا کیٹس کہا جا سکتا ہے ۔ کیٹس بھی گھر بیٹھ کر ارجمندی کا خواب دیکھنے کا قائل نہیں تھا وہ بادلوں اور باد صبا کے جھونکوں میں رچ بس کر سیر و سفر کا گرویدہ تھا۔
let the Fancy roam,
Pleasure never is at home:
At a touch sweet Pleasure melteth,
Like to bubbles when rain pelteth;
Then let winged Fancy wander
Through the thought still spread beyond her:
Open wide the mind’s cage-door,
She’ll dart forth, and cloudward soar.
Keats
عرفی بھی اوائل میں ہی بلاد ہند کی طرف چل پڑا عین جوانی میں وہ کیٹس کی طرح اپنی لازوال شاعری کا سکہ رائج کر چکا تھا۔ وہ تمام حدود و قیود سے اوپر اثھ کر دنیاکو دیکھنے لگا تھا
عشق اسکے پہلو سے نعرہ لگاتا تھا دین مجروح اس کے آنگن میں چیخیں مارتا تھا اسکو اپنی کمین گاہ میں کفر و انکار دکھائی دیتا ہے
نعره زد عشق و دین ما بگریخت
کفر نیز از کمین ما بگریخت
عرفی
عرفی خلوت کے بجائے جلوت کا شاعر تھا وہ و قنوطیت کا شکار ہو کر۔ کنج خلوت میں نہیں بیٹھنا چاہتا بلکہ وہ معشوق کی گلیوں میں خاک چھاننے کا قائل ہے اور وہاں رسوا ہونا اپنا مایہ افتخار سمجھتا ہے یہاں اس کے تصور Fency کی کڑیاں ملتی دکھائی دیتی ہیں۔
خلوت نشینی از «من» و «عرفی» مجو که ما
رسواییان کوچه و بازار ِ دوستیم
عرفی نے قاصائد لکھے لیکن ناشناس کی تحسین و داد سے نفریں تھا قدر و منزلتِ شعر بخوبی جانتا تھا اور اسکا احترام کرتا تھا عوام تو عوام وہ خواص کی داد سے خود کو بے نیاز سمجھتا تھا اسکے مطابق یہ واہ واہ کی ہوا شمع سخن کے لئے سازگار نہیں تھی ۔ اسکی شاعری درون دل کا سفر نامہ ہے۔ شعر
مزن ترانهی تحسین به شعر «من»، «عرفی»
که شمع طبع من از باد ِ آفرین میرد
کیونکہ یہ شعر خوانی دراصل عالمِ حال سے ہوئی اسے قیل و قال کے عالم سے کوئی غرض نہیں
جز با دل «عرفی» نزنم نغمهی منصور،
کیفیت این زمزمه را غیر نداند
عرفی
عرفی کے نزدیک میکدہ وسیع المشربی کا استعارہ۔ ہے جہاں مزہب و ملت کی قید نہیں جہان نسل ذات اور قلادہ بندی یعنی جماعتی پٹوں کو نہیں دیکھا جاتا میکدہ میں جو آیا وہ بلا امتیاز مزہب و مسلک مقصد پا لیتا ہے۔ درد دل ہی اصل پونجی ہے شعر
عرفی» برو از میکدهی «ما»، که کس اینجا
بی زخم دل و چاک گریبان ننشیند
عرفی آہو کی طرح نافہ اپنے اندر ہی تلاش کرتا ہے وہ اپنے دل میں عدن کی بہاریں دیکھتا ہے وہ حافظ کی طرح باغِ مصلا کی سیر سے لذت کشید کرنے کا قائل ہے نہ ہی رکن آباد کے نظاروں سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے عرفی کا جہان حسی وشعوری ہے یہاں وہ حافظ سے آگے نکل جاتا ہے شعر
بهای توای نافه خود کم نبود
که بر گشته سوی چمن میروی
عرفی
تغزل بھی عرفی کے یہاں اوج پر ہے مندرجہ ذیل اشعار سعدی و حافظ کے اعلی اشعار کے معیار و شاخص سے کم نہیں
مدار جلوه دريغ از دلم که خرمن حسن
بخوشه چيني آئينه کم نميگردد
عرفی
ترجمہ تم اپنے جلوہ حسن کے معاملہ میں مت ڈرو یہ خرمن خوشہ چینی سے کم نہیں ہوتا
ائینہ کو خرمن کہنا بدیع الاسلوبی کی اعلی مثال ہے
زبت نه گوشه چشمي نه چين ابرويي
بحيرتم که دل برهمن ز کف چون شد
عرفی
ترجمہ ،بت میں نہ تو گوشہ چشم سی دلکشی ہے اور ابرو کی سی چین محو حیرت ہوں کہ برہمن اسے کیسے دل دے بیٹھا
یہ شعر بھی فصاحت و بلاغت کی جیتی جاگتی مثال ہے
برافکن پرده تا معلوم گردد
که یاران دیگری را می پرستند
عرفی
ترجمہ یہاں مزہبی دعوے دار بہت ہیں ہر مزہب و مسلک پر چلنے والا خود کو بزعم خود حق پر سمجھتا ہے
عرفی نے ایک جست سے سفر تمام کردیا ای معشوق تو اپنے چہرہ سے نقاب اٹھا تاکہ دوستوں اور دعویداروں کو پتہ چل جائے کہ وہ کسی اور ہی پرستش کر رہے ہیں
کہتے ہیں ایک بار عرفی کا ایک دیوانِ شاعری گم ہوگیا تو عرفی نے یہ شعر کہہ کر اپنے نقصان پر خوشی کا اظہار کیا۔ اور خود کو مطمئن کر لیا ۔حیران ہوں کہ بعض نام نہاد ناقدین نے اس شعر کو خودثنائی پر محمول کیا۔
گفتہ گر شد ز کفم شکر کہ ناگفتہ بجا است
از دو صد گنج یکی مشت گہر باختہ ام
عرفی
ترجمہ ،کیا ہوا اگر میرے کہے ہوئے اشعار کا ایک دیوان گم ہوگیا ناگفتہ تو میرے پاس ہی بچا ہوا ہے۔ دو صد خزانوں یعنی غزلوں سے مٹھی بھر گوہر بر امد کر لئے ہیں یعنی حافظہ کو ٹٹول کر قعر گمشدگی سے کچ اشعار باہر لے آیاہوں ۔
نازش سعدی بمشت خاک شیراز چہ بود
گر نمی دانست کہ باشد مولد و ماوای من
عرفی
سعدی کے لئے مشتِ خاک شیراز، نازش کا باعث نہ ہوتی اگر اسکو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ میری مولد و منزل نہیں ۔
لیکن قدرت کو منظورکچھ اور ہی تھا عرفی نے لاہور میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ عرفی نے پہلے ہی پیشین گوئی کی تھی
بکاوش مزہ از گور تا نجف بردم
اگر بہند بخاکم کنی وگر بتتار
عرفی
اگر تم مجھے ہند یا تاتار میں دفناو گے میں جنبش مژہ سے نجف پہنچوں گا۔
وفات کے انتیس سال بعد، میر صابر اصفہانی نے انکی نعش جو دستبرزمانی سے محفوظ تھی نجف اشرف میں لے جا کر دوبارہ دفن کی۔ ملا رونقی نے اس تدفین ثانی کی تاریخ یوں کہی ہے۔
بکاوش مژہ از ہند تا نجف آمد
یعنی 1027ہجری
عرفی کے منتخب اشعار مع ترجمہ
دلہا سوختہ اند اہل بہشت از غیرت
تا شهیدان تو گلگون کفنی ساخته اند
عرفی
ترجمه، تیرے شہیدوں کے گلگوں کفنوں کو دیکھ کر اہل بہشت کے دل جل اٹھے ہیں۔ یعنی رشک و غیرت سے
من از گل باغ میجویم تو گل از باغ میجویی
من آتش از دخان بینم تو از آتش دخان بینی
میں پھول سے باغ کا مطالبہ کرتا ہوں جبکہ تو باغ سے پھول کا طالب ہے ۔ میں دھواں میں آگ دیکھتا ہوں تو آگ میں دھواں تلاش کرتا ہے ۔۔۔
سخنور را خموشی نقش خود میدان خطا باشد
که خاموشی بلبل را زیان مهرگان بینی
یعنی
سخنور کی خاموشی اچھی نہیں اور بلبل کی چاموشی سے مہر و فا اور دوستی کو نقصان پہنچتا ہے
مزید اسی قصیدہ کا ایک شعر ۔
بنزهتگاه معنی میهمان شو تا زاستغنا
مگس را باد زن در دست، بر اطراف خوان بینی
معنی کی نزہت گاہ میں میہمان ہوجا اور ہاتھ کےمگس ران سے دستر خوانی مکھیوں کو اڑاتے رہنا چاہئے۔
از من بگیر عبرت و کسبِ ہنر مکن
با بختِ خود عداوتِ ہفت آسمان مخواہ
(عرفی شیرازی)
مجھ سے عبرت حاصل کر اور ہنر پیدا کرنے کا خیال چھوڑ دے، تو کیوں چاہتا ہے کہ سات آسمانوں کی دشمنی خواہ مخواہ مول لے لے۔
من قیامت زار عشقم دیدہ کوتاہ بنگرد
صدبہشت ودوزخ ازھرگوشہ صحرای من
عرفی
ترجمہ ،میں عشق اور محبت کی قیامت گاہ ہوں، میرے ہر گوشہ صحرا میں سینکڑوں بہشتیں و دوزخیں ہیں۔
گمان مبر که چو تو بگذری جهان بگذشت
هزار شمع بکشتند و انجمن باقی است
ترجمہ
تیرے جانے سے دنیا کاسلسلہ ختم نہیں ہوگا
ہزار شمعیں بجھنے پر رونقِ انجمن باقی رہے گی۔
وعظ من گرد فشاندهٔ عصیان نشود
آستینٍ شکر آلود مگس ران نشود
عرفی
میرے وعظ گناہوں کی گرد نہیں جھاڑ سکتے ،شکر آلود آستین سے مکھیاں نہیں اڑ سکتی۔
کمال کی طنز ہے ۔
اقبالِ کرم می گزد ارباب همم را
همت نخورد نیشتر لا و نعم را
عرفی
اہل ہمت کو احسان اٹھانا تکلیف دیتا ہے کیونکہ وہ ہاں اور نہیں کا نیشتر نہیں برداشت کر سکتے۔
عرفی اگر بگریه میسر شدی وصال
صد سال می توان به تمنا گریستن
عرفی
عرفی اگر رونے وصال ہوتا تو سو سال روتے رہتے یعنی بہت روتے
از نقش و نگار درو دیوار شکستہ
آثار پدید است صنادید عجم را
عرفی
از آن به درد دگر هر زمان گرفتارم
که شیوه های تو را با هم آشنایی نیست
عرفی
شکستہ درو دیوار کے نقش و نگار سے رؤسائے عجم کے آثار نمایاں ہیں۔
کسی شاعر نے اسی شعر سے مصرع خوب باندھا ہے
ع
کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت عظیم تھی
******
تبصرہ و تنقید از غنی غیور
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...