عرب شریف قسط ہشتم
فيصل بن الحسين بن علي الهاشمي May 1885 – 8 September 1933
فیصل بن حسین شریف مکہ حسین ابن علی کا تیسرا اور شاید سب سے لائق ترین بیٹا تھا۔ لارنس آف عربیہ نے اسے ہی تربیت کے لئے منتخب کیا تھا۔ ایک متحدہ عرب مملکت کا قیام اصل میں فیصل کا خواب تھا۔
1913 میں وہ جدہ سے عثمانی پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہوا۔ 1916 میں فیصل نے دمشق میں عرب قوم پرستوں کے الفتح گروپ کے ساتھ تعلق استوار کیا۔
23 اکتوبر 1916 کو فیصل اور لارنس آف عربیہ کی ملاقات ہوئی جس نے عالمی جنگ کے بعد ایک متحدہ عرب مملکت کے قیام کی بات کی۔ اور فیصل کو اس سلسلے میں ہاشمیوں کی طرف سے قائدانہ کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا، فیصل نے ابتدا میں حجاز، اردن اور شام پر مشتمل ایک حجازی مملکت کا منصوبہ ترتیب دیا اور اس سلسلے میں ترکیوں کے خلاف باغی فوج کی قیادت کی۔
1917 میں فیصل نے عثمانیوں سے مل کر ایک خودمختار حجازی مملکت کی تجویز پیش کی جس میں شام اور اردن کے علاقے شامل ہوں مگر ترکی حکمرانوں نے فیصل کو ا ہمیت نہیں دی۔
فیصل نے شریف مکہ کی طرف سے مدینے کے محاصرے اور فتح میں حصہ لیا۔
برطانوی اور عرب مشترکہ افواج نے اکتوبر 1918 میں دمشق فتح کیا۔1919 میں شام کی نیشنل کانگرس کے لئے الیکشن ہوئے
1919 میں فیصل نے صیہونی تحریک کے سربراہ Chaim Weizmann سے معاہدہ کیا جس میں یہودی مملکت کے قیام کا بالفور اعلامیہ تسلیم کر لیا۔مگر یہ ریاست عربوں کی رضا مندی اور زیر نگرانی وجود میں آتی۔ مگر فیصل عرب سرداروں کو اپنے اس منصوبے سے اتفاق کرنے پر آمادہ نہ کر سکا۔
1920 میں شام کی نیشنل کانگرس نے فیصل کو شام بادشاہ مقرر کیا۔ مگر عالمی معاہدے میں شام کا بندوبست فرانس کے ذمہ کیا گیا۔ اس لئے 24 جولائی 1920 کو فرانسیسی افواج نے شام فتح کرلیا اور فیصل برطانیہ چلا گیا۔
.
مارچ 1921 میں فیصل کو قاہرہ کانفرنس میں برطانیہ نے عراق کا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اگست 1921 کو فیصل عراق کا بادشاہ مقرر ہوا جہاں کے بیشتر لوگ فیصل کے بارے بہت کم معلومات رکھتے تھے۔
فیصل نے عرب عصبیت کی بنیاد پر عراق کے شیعہ اور سنی لوگوں کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ مگر اس سے عراق کی کرد آبادی عدم تحفظ کا شکار ہوئی فیصل نے مملکت میں بہت سی انتظامی اصلاحات کی مگر وہ شیعہ، سنی، کرد اور عراقی یہودیوں کو ساتھ رکھنے میں بہت زیادہ کامیاب نہیں رہا۔ فیصل کی خواہش تھی کہ وہ شام لبنان اور فلسطین کو عراق سے ملاکر ایک مملکت قائم کرے۔ فیصل کی عرب عصبیت کی پالیسی نے شیعہ اور سنی مذہبی گروپوں کو فیصل سے بدظن کردیا۔
فیصل نےایک طاقتور عراقی فوج تشکیل دینے کی کوشش کی۔ 1925 میں شام کی بغاوت کو دبانے میں فیصل نے اس شرط پر فرانسیسیوں کی مدد کی کہ وہ شام متحدہ عرب مملکت کا حصہ بنائیں گے مگرفرانس نے فیصل کو محض بغاوت کو دبانے کے لئے استعنال کیا۔
1929 میں یروشلم میں عرب اور یہودی فسادات کے بعد فیصل نے تجویز دی کہ فلسطین کو اردن اور غرب اردن میں اس کے بھائی عبداللہ کے زیرنگرانی دیا جائے جس میں یہودی آباد کاروں کو مکمل تحفظ اور امن دیا جائے تاہم وہ ایک الگ یہودی مملکت کا مخالف تھا۔
1932 کو برطانیہ نے عراق کو خود مختاری دے دی اور عراق اقوام متحدہ کا رکن بن گیا۔1933 کو لندن کے دورے مین فیصل نے فلسطین میں یہودیوں اور عربوں میں بڑھتے ہوئے تنائو پر تشویش کا اظہار کیا
8 ستمبر 1933 کو فیصل 48 سال کی عمر میں اچانک موت کا شکار ہوگیا۔ وہ ایک متحدہ عراقی شام عرب مملکت کا خواب اپنے ساتھ لے گیا۔ اس کی اچانک موت کے پیچھے زہر دیئے جانے کا شبہ ظاہر کی گیا۔
فیصل کی موت کے بعد اس کا بیٹا غازی بادشاہ بنا۔ اس کی اچانک موت کی وجوہات جاننے کی بجائے اس کے جسم کو جلدی سے دفن کردیا گیا۔
بعد میں غازی سپورٹس کار کے ایک ٹریفک حادثے میں مارا گیا اور اس کا نوعمر بیٹا فیصل دوم بادشاہ بنا' جس کی سرپرستی کے لئے فیصل کے بھتیجے اور علی بن حسین کے بیٹے عبداللہ کو مقرر کیا گیا۔
1958 کے فوجی انقلاب مین عراق کے شاہی خاندان کے تمام اراکین کو قتل کردیاگیا
فیصل کو ایک لائق اور ذہین لیڈر سمجھا جاتا ہے مگر ترکی کے خلاف سازشون اور ہاشمی فیملی کے افراد کو مل کر رکھنے میں ناکامی اور ہوس اقتدار نے اس کی صلاحیتوں کو عربوں کے کام نہ آنے دیا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“