حضرت عثمان نے خلیفہ بنتے ہی اپنے قریبی لوگوں کو مقرر کردہ وظائف کے علاوہ ان کے لیے انعام کرام جاری کر دیئے۔ حضرت زبیر کو چھ لاکھ اور حضرت طلحہ کو دو لاکھ درہم دیئے۔ اور وہ قرض بھی معاف کر دیئے ، جو انہوں نے حضرت عثمان سے لیے تھے۔ حضرت عمر نے قریش کے لوگوں پر مدینے سے باہر مفتوح علاقوں پر جانے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔
حضرت عثمان نے نقل و حرکت کی پابندی ہٹا لی۔ اور قریش قبیلے کے لوگ نئی سلطنت کی وسعتوں میں پھیل گے۔ انہوں نے اپنے پیسے کو تجارت میں لگاکر اسے مزید دوگنا کر نا شروع کر دیا، یعنی مدینے میں بھی امراء کا ایک نیا طبقہ تشکیل پانے لگا۔ جسے قریش ارسٹو کریسی کہہ سکتے ہیں۔ ان صحابہ کرام نے حضورکے ساتھ اپنی قبائلی قرابت داری کا استعمال کیا۔ اور مختلف شہروں میں بڑی بڑی ملکیتیں اور جائدادیں بنا لی۔ لوگ بھی ان کے قریب اس لئے ہوگے کہ آئندہ یہ خلیفہ بھی بن سکتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر دنیاوی متاع کے طلب گار تھے، حضرت عثمان کے دور میں مصر اور شمالی افریقہ کے علاقے فتح کرلئے، حضرت عثمان نے کوفہ میں بنو امیہ کے دباو کے تحت سعد بن ابی وقاص کو معزول کیا۔ اور ولید بن عقبہ کو یمنی قبائل کی مخالفت کی وجہ سے گورنری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ کوفہ میں فتنہ و فساد ابھرنے شروع ہو گے۔ مفتوحہ علاقوں کی زمینوں، اور دولت پر کن کا قبضہ ہونا چاہئے، مقامی اور فاتحین کے درمیان کیا تعلقات ہونے چایئے۔
حضرت عمر نے مفتوحہ علاقوں کی زمینوں پر عربوں کے قبضہ کی مخالفت کی تھی۔اس کے برعکس حضرت عثمان نے اہل حجاز اور عا م عربوں کو مفتوحہ علاقوں میں جا کر زمینیں خریدنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ حجاز کے کئی صحابہ کرام بڑی بڑی منقولہ اور غیر منقولہ املاک کے مالک بن گے۔ انہوں نے شاداب او ر زرخیز زمینیں خرید لی۔ جس سے عراق اور دوسرے علاقوں میں بڑی بڑی جاگیریں وجود میں آگئی۔ عرب معاشرہ کچھ اس طرح کے طبقات میں تقسیم ہو گیا۔ فاتح عرب، مفتوح عجمی، قریش سرمایہ دار اور جاگیر دار، کھیت مزدور اور چھوٹے مالکان اراضی۔ بے زمین عرب بدو اور شہروں کا چھوٹا درمیانہ طبقہ۔ زر اندوزی کے مسئلے پر ہی ۔معاویہ نے حضرت عثمان کو لکھا ، کہ ابو زر غفاری میرے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ خلیفہ عثمان نے جواب میں لکھ بھیجا، کہ ابوزر غفاری کے ساتھ نرمی برتو اور اس کو میرے پاس بھیج دو۔
عثمانی عہد میں اسلامی مملکت میں طبقاتی تضاد شدید ہو گیا تھا۔ حضرت عثمان پر کنبہ پروری کے الزامات عائد ہوتے رہے۔ ۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد ان کے پاس ایک لاکھ دینار اور دس لاکھ درہم تھے۔ کئی جاگیریں تھی، بے شمار اونٹ اور گھوڑے تھے۔ زبیرؓ نے ترکے میں پچاس ہزار دینار، ایک ہزار گھوڑے اور ہزار لونڈیاں چھوڑی تھی۔ طلحہؓ کی عراق سے غلہ کی یومیہ آمدنی ایک ہزار دینار تھی۔ عبدالرحمان کے اصطبل میں ایک ہزار گھوڑے، ہزار اونٹ، دس ہزار بکریاں، چوراسی ہزار دینار، زید بن ثابتؓ نے ایک لاکھ دینار کی جاگیر علاوہ سونے چاندی کی اینٹیں چھوڑی۔ ان کے بصرہ ، کوفے، اسکندریہ، مصر میں بڑے بڑے مکانات تھے۔
یہ تھے وہ حالات جس سے ایک اشرافیہ تشکیل پائی، جو مدینے کے پس ماندہ مزاج کا ساتھ لگا نہ کھاتی تھی۔۔ جو قبائلی طرز کی ریاست چاہتے تھے، ان کو کربلا میں شکست ہوئی، اور جو طاقت ور رائل اسٹائل اشرافیہ ابھر رہی تھی، جن کو سیاسی داو پیچ بھی آتے تھے۔ وہ جیت گے۔