(Last Updated On: )
سرزمین عرب براعظم ایشیاکے جنوب میں ایک جزیرہ نما،یعنی جس کے تین اطراف میں سمندر اور ایک طرف خشکی ہے واقع ہے۔عرب کی آب و ہوا انتہائی خشک ہے،بارشیں بہت کم ہوتی ہیں اور وہ بھی صرف ساحلی علاقوں میں۔کوئی بڑا قابل ذکر دریانہیں ہے،اگر بارشیں ہوں تو کچھ ندی نالے بہہ نکلتے ہیں وگرنہ لق ودق صحراہی صحراہے۔اس علاقے کو سیاسی اصطلاح میں ”مشرق وسطی“بھی کہتے ہیں۔یہاں گرمیوں میں سخت گرم ہوا چلتی ہے جس کے باعث گرمی کی شدت دو چند ہوجاتی ہے۔سرزمین عرب کے مغرب میں بحیرہ قلزم،مشرق میں خلیج فارس اور بحیرہ عمان،جنوب میں بحیرہ ہند اور شمال میں ملک شام واقع ہیں۔یمن،حجاز،تہامہ،نجداور عروض عرب کے تاریخی پانچ حصے ہیں،ان میں یمن نسبتاََ سرسبزوشاداب ہے اور مکہ و مدینہ جیسے علاقے حجاز میں واقع ہیں۔اونٹ،گھوڑے،شہد،کھجوراور اورتلوارعرب کی روایتی پہچانیں ہیں اور مہمان نوازی یہاں کا قدیم دستور ہے۔لفظ”عرب“کا مطلب بولنے والا ہے،اس قوم کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ عربی زبان بہت وسیع اور بہت بڑی ہے،ایک چیز کے سو سو الفاظ ہیں مثلاََ اونٹ کے ہزار سے زیادہ نام ہیں،نر اونٹ کااورنام ہے،مادہ کا اور نام ہے،جنگ میں لڑنے والے اونٹ کا اور نام ہے،مال بردار اونٹ کا اور نام ہے،گابھن اونٹنی کا اور نام ہے،جس اونٹنی کے پوتے پیداہونے لگیں اس کا اور نام ہے اور جس کے نواسے پیدا ہونے لگیں اسکا اور نام ہے،جو اونٹ قربانی کے لیے ہو اسکا اور نام ہے اور جو اونٹنی دس بچے پیدا کر چکی ہے اسکا اور نام ہے وغیرہ۔اسی طرح گھوڑوں کے سینکڑوں نام ہیں تلوروں کے بے شمار نام ہیں وغیرہ۔اس وسعت لسانی کی وجہ سے عرب اپنے آپ کو عرب کہتے تھے یعنی بولنے والے اور دنیا کی دیگر زبانوں میں چونکہ اتنے الفاظ نہیں ہوتے اور انکاحجم کم کم ہوتا ہے اس لیے عرب لوگ دوسری اقوام کو عجم کہتے ہیں جس مطلب ”گونگا“ ہے یعنی بولنے کی صلاحیت سے محروم۔
سلطنت عثمانہ کے زمانے میں سب عرب اقوام اور عرب علاقے ایک ہی جھنڈے کے نیچے جمع تھے،سامراج نے سب کو تنہا تنہا کر دیااوردور غلامی کے بعد امت مسلمہ کے علاقوں کو چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں بانٹ کر اتحادویگانگت سے محروم کردیا۔اس کے باوجود بھی کچھ درد دل رکھنے والوں نے عرب ممالک کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع کرنے کی کوشش کی اور باہمی متفقہ مفادات کی خاطر سب ممالک کو ایک نام سے جمع کیااور عرب ممالک کی ایک تنظیم”عر ب لیگ“ کے نام سے بنائی۔ ”الجمعیۃ دولۃ العربیہ“یا”الجمعیہ العربیہ“ یہ مشرق وسطی کے عرب ممالک کی علاقائی تنظیم ہے۔اسے”لیگ آف عرب اسٹیٹس“ بھی کہتے ہیں (League of Arab Satates)22مارچ 1945میں مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے اندر اس تنظیم کی تاسیس کی گئی۔عرب کے ابتدائی اراکین میں مصر،شام،لبنان،عراق،اردن،سعودی عرب اور یمن شامل تھے۔اس کے بعد 1953میں لیبیا،1956میں سوڈان،1958میں تیونس اور مراکش،1961میں کویت،1962میں الجیریا،1971میں بحرین،قطر،عمان اور متحدہ عرب امارات،1973میں موریطانیہ،1974میں صومالیہ،1976میں فلسطینی تنظیم آزادی اور ایک دو مزید چھوٹے چھوٹے عرب جزائر بھی اس تنظیم کے رکن بنے۔اس تنظیم کی فیصلہ سازی میں ہر ملک کاایک ووٹ ہے اور کسی بھی نتیجے تک پہنچنے کے لیے صرف رکن ممالک ہی کی رائے شامل کی جاتی ہے۔
1945میں عرب لیگ کے قیام کامقصد رکن ممالک کے درمیان سیاسی،ثقافتی اور معاشی ہم آہنگی کافروغ تھا۔اس کے علاوہ مشترکہ معاشرتی اقدار کی ترویج اور باہمی علاقائی تنازعات کا حل یا رکن ممالک میں سے کسی کے غیررکن ممالک سے تنازعات کے حل بھی پیش نظر تھے۔لیکن بہت جلد13اپریل 1950کو ہی رکن ممالک باہمی دفاع پر بھی متفق ہو گئے اورطے پایا مضبوط معاشی ربط و تعلق اور دفاعی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کیاجائے گا۔اس کے باوجودبھی ابتدا میں عرب لیگ بس معاشی و معاشرتی اور ثقافتی تعلقات پر ہی قانع رہی۔1959میں پہلی عرب پٹرولیم کانگریس منعقد ہوئی،1964میں عرب لیگ ایجوکیشنل،کلچرل اینڈ سائنٹفک آرگنائزیشن (ALECSO)کا وجود عمل میں لایا گیا۔1964میں اردن کے بے حد اسرار پر فلسطینی تنظیم آزادی کوفلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم تسلیم کیاگیا۔1972سے1979کے دوران تیسرے سیکرٹری جنرل محمدریاض کے دور میں عرب لیگ کی سیاسی سرگرمیاں بہت زیادہ ہو گئیں اور ان سرگرمیوں کا زیادہ تر محور اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی سے روکناتھا۔26مارچ1979کو جب مصر نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پردستخط کیے تو عرب لیگ کے ممبران نے مصر کی رکنیت معطل کر دی اور ہیڈ کوارٹر مصر سے تیونس میں منتقل کردیاگیا۔1989میں مصر کی رکنیت دوبارہ بحال کی گئی اور1990میں عرب لیگ کا صدر دفتر دوبارہ قاہرہ میں منتقل کردیاگیا۔
1990کے کی دہائی میں جب عراق نے کویت پر چڑھائی کر دی تو سعودی حکومت نے فوراََ ہی امریکی فوج کودفاع وطن کے لیے اپنی سرزمین پر بلالیا۔یہ مذہبی طور پر بھی ایک بہت بڑا گناہ تھا۔حجاز مقدس پوری امت کے لیے مقدس سرزمین ہے،اسی سرزمین پر حرمین شریفین جیسے مقامات ہیں جہاں کی زیارات کے لیے لاکھوں نہیں کروڑوں مسلمان ہر سال جاتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے اور انکے خلفائے راشدین نے اس سرزمین کویہودو نصاری سے پاک کیاتھااور انہیں یہاں سے بزور قوت نکال دیاتھا،کم و بیش ڈیڑھ ہزارسال کے دوران باوجود بھرپور کوشش کے یہودو نصاری یہاں داخل نہیں ہو سکے لیکن سعودی حکمرانوں نے تھالی میں رکھ کر یہ مقدس سرزمین ان غیرمسلم افواج کے سپرد کردی۔کتنی حیرانی کی بات ہے کہ قرآن مجید نے جنہیں ہمارا دشمن قرار دیا دیا ہے انہیں دشمنوں کو مسلمانوں کے حکمران اپنے دفاع کے لیے دعوت دیتے ہیں۔گویا یہ تاریخ کے عجوبے ہیں دوستوں سے بچنے کے لیے دشمنوں کی مدد لی جارہی ہے۔یہ ردعمل اگر چہ پوری امت کاتھا لیکن عرب لیگ کے اندر بھی سعودی عرب کو اپنے اس اقدام پربہت زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑااور بہت سے عرب ملکوں نے یہودونصاری کی افواج کو اس مقدس سرزمین پر داخل ہونے دینے پر شدیداحتجاج کیا۔
1964میں عرب مشترکہ منڈی کی تجویز پیش ہونے کے بعد اس پر عملدرآمد کا فیصلہ کیاگیا اور مصرعراق،اردن،لیبیا،موریطانیہ،شام اور یمن نے اس منڈی میں اولین شمولیت کے ارادے ظاہر کیے۔1976میں ایک اور معاشی معاہدہ عرب مانیٹری فنڈ کے نام سے قائم ہوا جس کو جملہ تفصیلات کے بعد1977میں نافذ کر دیاگیا۔یہ ایک مالی نوعیت کے ادارے کا معاہدہ تھا جس کا صدر دفتر متحدہ عرب امارات کے شہر ابو ظہبی میں قائم کیاگیا۔اس ادارے کے ذمہ یہ کام تھا کہ وہ عرب ممالک کے درمیان کرنسیوں کے لین دین اور عرب ممالک کے دیگر دنیاؤں کے درمیان کرنسیوں،سٹاک مارکیٹ اور زرمبادلہ کے جملہ معاملات کو طے کرے گا اور عرب لیگ کے رکن ممالک کو ادائگیوں کاتوازن برقرار رکھنے کے لیے راہنمائی اور تکنیکی مشاورت فراہم کرے گا اور ضرورت پڑنے پر مختصر مدت کے قرضے بھی فراہم کرے گا۔نومبر1973میں عرب لیگ کی سربراہی کانفرنس میں عرب بنک کے قیام کافیصلہ کیاگیا،اس بنک کے قیام کا مقصد عرب لیگ کے تحت جملہ منصوبوں کے لیے رقومات فراہم کرنا تھا۔اسکا صدر دفتر سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں ہے اور اس بنک کی زیادہ تر توجہ ان افریقی ممالک پر ہے جو عرب لیگ کے رکن ہیں۔ان ممالک میں جاری منصوبوں پر یہ بنک اپنی رقومات فراہم کرتا ہے جو مدد کی صورت میں اور قرض کی صورت میں بھی بعض اوقات ہوتی ہیں۔اسی طرح ایک عرب لیگ فنڈ بھی قائم کیاگیا جس کا صدر دفتر کویت میں ہے اور اسکا مقصد بھی تعلیم اور ترقیات سمیت جملہ منصوبوں کے لیے رقم فراہم کرنا ہے تاہم اس فنڈ میں نجی ادارے بھی اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں۔
عرب لیگ نے عربوں کے کتنے مسائل حل کروائے؟؟اس سوال کاجواب کوئی ڈھکاچھپانہیں ہے،ہزاروں فلسطینی ہر سال اسرائیلی بموں کانشانہ بن جاتے ہیں،دنیاکی سب سے زیادہ دولت عرب علاقوں میں ہونے کے باوجود عرب اپنا دفاع کرنے کے قابل ہی نہیں اور یہودونصاری کی افواج امت مسلمہ کی مقدس سرزمین کو اپنے ناپاک جوتوں سے روند کر ان عربوں کی حفاظت کرتے ہیں،افریقی عرب علاقے بدترین غربت کاشکار ہیں اور کل عرب اقوام سائنس و ٹیکنالوجی سے حد درجہ محروم اور کل یورپی و امریکی درآمدی مصنوعات پر انحصار کرتی ہے،بے پناہ انسانی و مالی و قدرتی وسائل کے باوجود کارخانہ سازی نام کو نہیں ہے۔اپنی تہذیب و ثقافت پر نازاں وفخورعرب اقوام مغربی طرز تمدن کی بدترین غلامی کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ عربوں کو عرب اقوام اور عرب سرزمین کاامین نہیں ہونا چاہیے بلکہ آخری نبی ﷺ اور آخری کتاب کے تناظر میں عربوں کو کل امت کا خیرخواہ ہونا چاہیے اور جب تک امت کے درمیان سے عرب و عجم کا فرق ختم نہیں ہوجاتاعربوں سمیت امت کی ایک ایک اکائی کودشمن شکارکر کے کھاتا جائے گا۔آخری خطبے میں آپﷺ نے یہ بھی فرمایاتھاکہ کسی عربی کوعجمی پراورکسی عجمی کو کسی عربی پرکوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی کے۔ہم امید کرتے ہیں کہ عرب اقوام اپنے ماضی کاکردار ایک بار پھر دہرائیں گی اور کل امت کی سرپرستی کرتے ہوئے افتراق و انتشارکی بجائے اتفاق و اتحادکے ساتھ خلافت علی منہاج نبوت کی طرف اپنی قیادت و سیادت میں ایک نئے سفر کا آغاز کریں گے۔