لیلی کا تعلق سعودیہ اور مجنوں کا یمن سے تھا، یہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ُ کےدور میں تھے۔انہیں مجنوں کا لقب بھی حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےدیا تھا۔
لیلیٰ مجنوں بنیادی طورپرایک عربی الاصل داستان ہے۔اس میں بیان کردہ کردارتاريخی طور پر ثابت مانےجاتے ہیں کہ لیلیٰ مجنوں دو حقیقی شخصیات تھیں۔
مجنوں کااصل نام یا جس نام کواصل تصورکیا جاتا ہے،قیس ابن الملوح ابن مزاحم ہے۔اوروہ ایک مالدارنجدی قبیلے بنوعامر کےسردارکا بیٹا تھا۔لیلی کانام لیلیٰ بنت مہدی ابن سعد بیان کیاجاتا ہے۔
نظامی گنجوی کےقصے”لیلیٰ مجنوں” کےمطابق لیلیٰ اورمجنوں بچپن میں ایک ہی مدرسےمیں پڑھنےجاتےتھے۔تب ہی ان میں باہمی تعلق پیدا ہوا۔
بچپن میں قیس اورلیلیٰ دونوں اپنےقبیلےکی بکریاں چراتے تھےوہ ساتھ بیٹھتے اورآپس میں باتیں کرتے۔قیس کی توجہ تعلیم کی بجائے لیلیٰ کی طرف رہتی،۔ جس پراستاد سے اسے سزا ملتی مگراستاد کی چھڑی قیس کے ہاتھوں پرپڑتی اوردرد لیلیٰ کے ہاتھوں پرہوتا۔
استاد نے یہ بات لیلیٰ اور قیس کے گھر والوں کو بتادی۔جس پرلیلیٰ کےمدرسےجانے اور گھر سے نکلنے پر پابندی لگادی گئی۔
ایک دن اچانک ہی قیس کی نظرلیلیٰ پر پڑ گی۔اوربچپن کا عشق تازہ ہو گيا۔قیس نے لیلیٰ کا ہاتھ مانگامگر لیلیٰ کے باپ نے انکار کردیا۔
لیلیٰ کے بھائی تبریزنے قیس کومارنےکی کوشش کی مگرقیس نے اسی کو قتل کردیا ۔ جس پرقیس کوسرعام محبت کا اظہارکرنےاورلیلی کے بھائی کو مارنےپرسنگسارکرنےکی سزا سنائی گئی۔
کچھ کہانیوں میں تبریزکے قتل کا قصہ نہیں ہے بلکہ رشتہ دینےسےانکار کیا جاتا ہےاورکچھ عرصہ بعد لیلیٰ کی شادی کسی دوسرے کے ساتھ کردی جاتی ہے۔جس پر قیس پاگل سا ہوجاتا ہے۔جامعہ الازہر شعبہ اردو کےسربراہ ڈاکٹرابراہیم محمد ابراہیم المصری لکھتے ہیں کہ لیلیٰ مجنوں کی شدید عشق و محبت کی کہانی کوئی فرضی داستان نہیں ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر طحہٰ حسین نےخیال ظاہرکیا ہےیہ پہلی صدی ہجری کا سچا واقعہ ہے۔جوعرب کےنجد کےعلاقےمیں رونما ہوا اورلازوال بن گیا۔مجنوں ایک مالدار نجدی قبیلےبنو عامر کے سردار کا بیٹا تھا۔ وہاں ایک گوراچٹا، خوب صورت اور خوش گفتار نوجوان تھا ۔شاعرتھا۔
قیس نےلیلی پر شاعری کرتے ھوے ایک جگہ لکھا ھے۔ترجمہ:
’وہ ایک چاند ہے
جو ایک سرد رات میں
آسمان کے وسط میں چمک رہا ہے
وہ نہایت حسین ہے
اس کی آنکھیں اس قدرسیاہ ہیں
کہ انھیں سرمےکی ضرورت نہیں
قیس کے والدین اپنے خاندان کے ساتھ لیلیٰ کے والد کے پاس گئےاور لیلیٰ کا رشتہ مانگا
لیلیٰ کےماں باپ کو داغ بدنامی گوارا نہ ہوا اورانھوں نےرشتہ دینےسےانکارکردیا۔
اسی دوران قبیلہ ثقیف کے ایک نوجوان نے بھی جس کا نام ورد تھا۔لیلیٰ کو شادی کا پیغام دیا،
لیلیٰ کے والدین نے یہ رشتہ قبول کر لیا
قیس اس قدرمضطرب ھوا کہ وہ بیمارہوگیا
اس کے والدین نے چاہا کہ وہ اپنے قبیلے کی کسی اور خوبصورت لڑکی سے شادی کر لے مگر اب قیس لیلیٰ کی محبت میں اتنی دور نکل گیا تھاکہ واپسی ممکن نہ تھی ۔
رفتہ رفتہ قیس کی حالت ایسی ہو گئی کہ اسے اپنے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔لوگوں نے قیس کے باپ کو مشورہ دیا کہ وہ اسے مکہ لے جائےاور بیت اللہ کی پناہ میں دعامانگے۔
قیس کا باپ الملوح اسے لے کر مکہ گیا
اور حرم شریف میں اس سے کہا کہ غلاف کعبہ سے لپٹ کر لیلیٰ اور اس کی محبت سے نجات کی دعا مانگے۔
اس کے جواب میں جب قیس نے یہ دعا مانگی :
“اے اللہ! مجھے لیلیٰ اور اس کی قربت عطا فرما”
تو الملوح قیس کو واپس لے آئے۔
راستے میں اس نے ایک جگہ پہاڑی پر اپنے آپ کو گرانے کی بھی کوشش کی مگر لوگوں نے پکڑ لیا۔اپنے قبیلے میں واپس پہنچ کر قیس کا باپ ایک بار پھر لیلیٰ کے باپ کے پاس گیا تا کہ اسے لیلیٰ کی اپنے بیٹے سے شادی پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے مگر پھر انکار ھو گیا۔
لیلیٰ کی شادی اس دوسرے لڑکے سے کر دی گئی جس کا پیام آیا تھا۔ لیلیٰ خود بھی قیس کی محبت میں گرفتار تھی مگر خاندان کی نیک نامی اور والدین کی اطاعت سے مجبور تھی۔قیس کو یہ معلوم ہوا کہ لیلیٰ کی شادی ہو گئی ہے تو اس پر قیامت ٹوٹ پڑی۔اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ وہ اپنے وجود کو بھول گیا۔گوشہ نشین ہو گیا
اور پھر ایک دن صحرا میں نکل گیا۔لیلیٰ کو آوازیں دیتا، پہاڑوں، درختوں، جنگلی جانوروں سے پوچھتا لیلیٰ کہاں ہے۔اسی حال میں ایک دن اس کی نظرایک ہرنی پر پڑی۔وہ اس کے پیچھے ہو لیا اور نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔اس کے گھر والے صحرا میں اسے ڈھونڈتے رہے۔چوتھے دن وہ انھیں ایک پتھریلی وادی میں ریت پر مردہ پڑا ملا.
روایات کے مطابق لیلیٰ بھی شاعرہ تھی اور یہی چیز ہے جس نے اس محبت بھرے قصے کو ایک المیہ بنا دیا جس کے لیے دل اور آنکھیں روتے ھیں۔یہ ممکن توتھا کہ یہ محبت شادی پر منتج ہوتی اور خوشیوں بھری زندگی انھیں حاصل ہوتی۔مگر تقدیر کے آگے تدبیر کا کہاں بس چلتا ھے۔
ڈاکٹر ابرہیم المصری سربراہ شیعبہ اردو