عرب بہار؟ کون سی عرب بہار؟ کون سی عرب سپرنگ؟ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
تونس کا حال یہ ہے کہ ایمرجنسی بدستور نافذ ہے۔ اچانک کرفیو لگا دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے 19؍فروری کو استعفیٰ دے دیا۔ کون حکومت بناتا ہے کچھ معلوم نہیں۔ فروری ہی میں ایک سیاسی رہنما قتل ہوا تو ہنگامے ایک بار پھر پھوٹ پڑے۔ تنظیم اور قانون پسندی کا یہ عالم ہے کہ ستمبر میں ایک ہوٹل پرہجوم حملہ آور ہوا کہ وہاں شراب بیچی جا رہی تھی۔ ایک فرانسیسی سکول کے خلاف پورے شہر کی دیواروں پر نعرے درج کر دیے گئے۔ پاسپورٹ یا شناختی کارڈ ہر وقت پاس رکھنا پڑتا ہے۔
مصر کا احوال سب کے سامنے ہے۔ شاید ہی کوئی جمعہ ایسا گزرا ہو کہ احتجاجی جلوس نہ نکلے ہوں۔ پورٹ سعید، سویز اور اسماعیلیہ میں زبردست سکیورٹی ہے۔ جنوری میں وہاں پولیس اور عوام کے درمیان ہنگامے ہوئے۔ بے تحاشا نقصان ہوا۔ اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ مصر قرار پکڑ رہا ہے تو بے وقوف ہے یا دروغ گو۔
شام میں قیامت برپا ہے۔ بشار الاسد کے فوجیوں اور عوام کے گروہوں میں ایسی جنگ برپا ہے کہ شہر تباہ ہو گئے ہیں اور قصبے کھنڈر بن گئے ہیں۔ باہر سے مداخلت ہوئی تو انجام بدتر ہوگا۔ شام کی حکومت کو روس اور چین کی حمایت تو حاصل ہی ہے، لبنان کی حزب اللہ اور ایرانی حکومت کی اشیرباد بھی حاصل ہے۔ عرب ریاستیں اور امریکہ مخالف کیمپ میں ہیں۔ نوشتۂ دیوار صاف نظر آ رہا ہے۔ جب تک بشار الاسد کی حکومت گِر کر جاںبحق نہیں ہو جاتی، انسان ہلاک ہوتے رہیں گے۔ اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ حکومت ختم ہونے پر شام نسلی اور مذہبی بنیادوں پر کئی ٹکڑوں میں بٹ جائے۔ کوئی نہیں جانتا کہ شام کے دروزیوں، نصیریوں، عیسائیوں، کُردوں اور فلسطینیوں پر کیا گزرے گی۔ علوی، جو اب حکومت کر رہے ہیں، انتقام کا نشانہ بنیں گے۔ پڑوس کی ریاستیں اردن، لبنان اور عراق بھی اِس صورتِ حال سے محفوظ نہیں رہ سکیں گی۔
نام نہاد ’عرب بہار ‘کا آغاز جب تونس سے ہوا تو قاضی حسین احمد مرحوم جیسے رومان پسندوں نے آنے والے دنوں کے خوبصورت نقشے بنانے شروع کر دیے۔ اسے عالمِ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ تک قرار دیا گیا۔ یہ وہی خواب تھے جو 1992ء میں سوویت یونین کے انہدام پر دیکھے گئے۔ وسط ایشیا کی مسلم ریاستیں آزاد ہوئیں لیکن کیا آزاد ہوئیں۔ فراق گورکھپوری نے کہا تھا ؎
دلِ آزاد کا خیال آیا
اپنے ہر ’’اختیار‘‘ کو دیکھا
پہلے یہ ریاستیں بھارت کے چنگل میں تھیں۔ اب اسرائیل کے لیے موقع نکل آیا۔ چند سالوں ہی میں ان ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان مختلف شعبوں میں کیے گئے معاہدوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی۔ حکیم سعید شور مچاتے رہے کہ پاکستان کو آگے بڑھ کر اِن ریاستوں کی مدد کرنی چاہیے۔ اُن دنوں پنجاب کا ایک تاجر ملک کا وزیراعظم تھا۔ جن صاحب کو ازبکستان میں سفیر مقرر کیا گیا وہ صرف گالف کھیل سکتے تھے۔ ایک وفد بھیجا گیا۔ سنا ہے کہ اس کے سربراہ ہر وقت ’’ہوش‘‘ میں رہتے تھے۔ نتیجہ معلوم۔ بینکنگ سے لے کر تعمیر تک، ہوٹل کے کاروبار سے لے کر فلمسازی تک، کفش دوزی سے لے کر پارچہ بافی تک سب کچھ بھارت کے قبضے میں چلا گیا۔ آج یہ ریاستیں اتنی ہی ’’آزاد‘‘ اور اتنی ہی ’’اسلامی‘‘ ہیں جتنی سوویت یونین کی غلامی میں تھیں۔
بہت سے عالی دماغ دانش وروں نے ’عرب بہار ‘کو اُس آزادی سے تشبیہ دی جو سوویت یونین ختم ہونے پر مشرقی یورپ کی ریاستوں کو نصیب ہوئی۔ لیکن مشرقی یورپ کے ملکوں (پولینڈ، ہنگری، بلغاریہ، رومانیہ وغیرہ) کا ہدف واضح تھا۔ اوّل۔ آزاد معیشت ، دوم۔ جمہوریت، سوم۔ آزادیٔ رائے۔ ان ریاستوں کا مذہب بھی وہی تھا جو اہلِ مغرب کا تھا۔ مغربی یورپ اور امریکہ نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا۔
رومان پسند مسلمانوں نے ’عرب بہار ‘کا خواب دیکھا اور افسوس! اس خواب کا وہی حشر ہوا جو وسط ایشیائی ریاستوں کی آزادی کے ساتھ ہوا تھا۔ یہی حشر اُس خواب کے ساتھ ہوا جو پاکستان بنتے وقت مسلمانوں نے دیکھا تھا۔ ایک نئے آزاد ملک کا خواب جو دوسرے مسلمان ملکوں کے لیے ماڈل ثابت ہوگا۔ اقتصادی ترقی کا ماڈل، سائنسی ترقی کا ماڈل، جمہوریت اور آزادیٔ فکر کا ماڈل۔ افسوس یہ خواب بھی پورا نہ ہوا کہ بقول شہزاد احمد ؎
چوم لیں دیدۂ حیراں کو کہ آنکھیں پھوڑیں
چاند سمجھے تھے جسے ابر کا ٹکڑا نکلا
وہ پاکستان جسے دنیا بھر کے مسلمانوں کی آنکھ کا تارا قرار دیا گیا تھا ،آج لوہے اور بارود کا، آگ اور خون کا آتش فشاں ہے۔ عزت محفوظ ہے نہ مال نہ جان۔ سیاست دان بے شرمی سے پارٹیوں پر پارٹیاں تبدیل کر رہے ہیں، بقول عباس تابش ؎
عجیب پیڑ ہیں ان کو حیا نہیں آتی
ہمارے سامنے کپڑے بدلتے رہتے ہیں
حکمران اقتدار کے آخری دنوں میں، بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کے مصداق کُشتوں کے پشتے لگا رہے ہیں۔ ذہنی افلاس کا یہ عالم ہے کہ جس مملکت میں قرآن اور سیرت کو زندگیوں کا چراغ بننا تھا اور عمر فاروقؓ اور علی مرتضیٰؓ کے ٹھیٹھ منطقی اندازِ فکر کو رہنما بننا تھا، وہاں بڑے بڑے ثقہ اور قابلِ احترام دانشور اور توحید پرست کالم نگار‘ نجومیوں کی اور تصّوف کے نام پر شہرت کے بھوکے شعبدہ بازوں کی تشہیر کر رہے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ اگر روحانیت کے اسرار بیچنے والے یہ دکاندار اتنے ہی طاقتور ہیں کہ اپنے پجاریوں کو مطلوبہ ہیروئنوں سے ملا دیتے ہیں تو اپنے ملک ہی کوگرداب سے نکال دیں! اقبالؒ غیب دانی اور پیر پرستی کی اِس بھوکی قوم کو یہ بتاتے بتاتے ہی رخصت ہو گئے ؎
محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات
پنجابی مسلمان کے بارے میں تو اقبالؒ کی تشخیص حرفِ آخر ہے ؎
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
بات ’عرب بہار ‘کی ہو رہی تھی۔ حکومتیں بدلنے سے حقیقتیں نہیں بدلتیں۔ حسنی مبارک کی جگہ مُرسی آنے سے انقلاب نہیں آتے۔ مغرب آج جس مقام پر ہے وہاں پہنچنے میں اُسے صدیاں لگ گئیں۔ نام نہاد عرب بہار جن ملکوں میں آئی ہے وہاں حقائق کیا ہیں؟ ناخواندگی، توہم پرستی، برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی آبادی، فرقہ وارانہ اور نسلی نفرتیں، کردوں اور فلسطینیوں جیسے بے گھر قبیلے، جو اپنی اپنی ریاست کی تلاش میں سرگرداں ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اکثر ملک مغرب کے اقتدار کی بدولت وجود میں آئے۔ ورنہ اردن، قطر، بحرین اور متحدہ عرب امارات کا وجود کہاں تھا؟ اردن کے شاہ حسین مرحوم کے دادا نے جو کچھ ترکوں کے ساتھ کیا اور جس طرح اسرائیل وجود میں آیا، نئی نسل کو معلوم ہو تو حیرت سے گنگ ہو جائے۔
’عرب بہار ‘ابھی دُور ہے۔ بُہت دور ؎
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی