عرب کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں ماہرین لغت کے درمیان بہت اختلاف ہے، دانشوروں کا ایک گروہ قائل ہے کہ مذکورہ کلمہ 'یعرب بن قحطان' سے لیا گیا ہے جو ایک یمنی شخص تھا اور جسے سب سے پہلا عرب ہونے کا اعزاز حاصل ہے جبکہ محققین کی ایک جماعت اس نظریہ سے متفق نہیں، ان کا کہنا ہے کہ در اصل مسئلہ یہ کہ ہم جانیں کہ خود یعرب اور اس کے والد اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
اسے سامی النسل کی اولاد سے منسوب کرنا مناسب نہیں چونکہ یشحب، یعرب کا اور سبا یشحب کا فرزند تھا۔سبا کے والد کا مکمل قبیلہ قحطانی عرب تھا۔اس کے دس فرزند تھے جن میں چھ اولاد؛ ازد، کندہ، مذحج، اشعرون، انمار اور حمیر نیک و صالح تھے جبکہ چار اولاد؛ عاملہ، جزام، لخم اور غسان نالائق۔عرب قحطانی کا قبیلہ انہی کے نام سے موسوم ہوا اور پھر ان ہی سے نسل چلی جو ظہور اسلام کے بعد بھی صدیوں تلک باقی رہی۔سامی النسل در اصل سام بن نوح علیہ السلام کی نسلی کا تسلسل ہے۔اس لیے ان کی زبان میں سامی زبان کے اثرات موجود ہیں جو کہ بہترین زبان کے مالک مانے کئے جاتے ہیں۔
(تاریخ اسلام، از آغاز تا ھجرت،علی دوانی، ص 12،ناشر دفتر انتشار جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم)
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ عرب کی وجہ تسمیہ کے متعلق مختلف رائیں ہیں اور اہل لغت کہتے ہیں کہ عرب اور اعراب کے معنی فصاحت اور زبان آوری کے ہیں اور چونکہ اہل عرب اپنی زبان آوری کے سامنے تمام دنیا کو ہیچ سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے اپنے آپ کو 'عرب' اور دنیا کی اور تمام قوموں کو عجم (ژولیدہ بیان) کہہ کر پکارا۔بعض کی رائے یہ ہے کہ عرب اصل میں عربۃ تھا، قدیم اشعار میں عرب کے بجائے عربۃ آیا ہے۔
ورجت باحۃ العربات رجا
ترقرق فی مناکبھا الدماء
و عربۃ ارض فی جد فی الشر اھلھا
کما جد فی شرب النقاح ظماء
وعربۃ ارض ما یحل حرامھا
من الناس الا اللوذعی الحلاحل
(معجم البلدان ج 6 لفظ عربۃ و عربات 137 تا 140 مصر 1324 ھ 1906 ء بحوالہ سیرۃ النبی، شبلی نعمانی، ج 1 ص 96 مطبوعہ مکتب اسلامیہ سن طباعت 2012)
قرآن کریم نے دو صیغے اعراب اور عرب(شاید کتاب میں ٹائپنگ کی غلطی ہو اور عرب نہ ہونے کے بجائے عربی ہو) کا استعمال کیا ہے۔کلمہ اعراب دس مرتبہ اور کلمہ عربی گیارہ دفعہ۔ عربی لفظ کو زبان کی صفت اور واضح اور فصیح ہونے کے عنوان سے بیان کیا ہے۔ ارشاد گرامی پروردگار ہوتا ہے۔
اِنَّا جَعَلۡنٰهُ قُرۡءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَۚ
بیشک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔
(سورہ زخرف 3)
وَكَذٰلِكَ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ قُرۡاٰنًا عَرَبِيًّا لِّـتُـنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰى وَمَنۡ حَوۡلَهَا
اور ہم نے اسی طرح آپ کی طرف عربی زبان میں قرآن کی وحی بھیجی تاکہ آپ مکہ اور اس کے اطراف والوں کو ڈرائیں۔
(سور شوریٰ 7)
كِتٰبٌ فُصِّلَتۡ اٰيٰتُهٗ قُرۡاٰنًا عَرَبِيًّا لِّقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَۙ
اس کتاب کی آیتیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں عربی زبان کا قرآن ہے اس قوم کے لئے جو سمجھنے والی ہو۔
(فصلت 3)
وَهٰذَا كِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنۡذِرَ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا ۖ وَبُشۡرٰى لِلۡمُحۡسِنِيۡنَۚ
اور یہ کتاب عربی زبان میں سب کی تصدیق کرنے والی ہے تاکہ ظلم کرنے والوں کو عذاب الہٰی سے ڈرائے اور یہ نیک کرداروں کے لئے مجسمئہ بشارت ہے۔
(سورہ احقاف 12)
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ قُرۡءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ
ہم نے اسے عربی قرآن بناکر نازل کیا ہے کہ شاید تم لوگوں کو عقل آجائے۔
(سورہ یوسف 2)
قرآن نے ہجرت اور اس کے بعد کے زمانوں میں کلمہ عرب کا استعمال کرکے شاعروں کے لیے راہیں کھول دیں تاکہ وہ اسے ایک نئی تعبیر سے پیش کریں کہ جس سے عنترہ محروم تھا۔کعب ابن مالک نے آنحضرت کے سلسلے میں کہا ہے۔
بدالنا فاتبعنا نصدقہ
و کذبوہ فکنا اسعد العرب
رسول اسلام ہمارے درمیان تشریف لائے تو ہم نے ان کا اتباع کیا اور تصدیق کی لیکن انہوں نے آپ کی تکذیب کی اس لیے سعادت مند ترین عرب ہم ہیں۔
حسان بن ثابت نے بنی ہذیل پر اعتراض کا نشانہ ساندھتے ہوئے کہا کہ انہوں نے قبولیت اسلام کی شرط آنحضرت سے زنا کو حلال کرنے پر رکھی تھی۔
سألت ھذیل رسول اللہ فاحشۃ
ضلت ھذیل بما قالت، ولم تصب
سألوا رسولھم مالیس معطیھم
حتی الممات و کانو سبۃ العرب
قبیلہ ہذیل نے رسول اسلام سے زنا کے حلال ہونے کی درخواست کی۔ وہ اسی سبب گمراہ ہوئے اور کہیں کے نہ رہے۔ انہوں نے آپ سے ایسا مطالبہ کیا جو تا حیات قبول نہ ہوا اور وہ عرب کی رسوائی کا ساماں بنے۔
قیس بن عاصم عمر بن اھتم کی مذمت میں کہتا ہے۔
ظلت مفترشا ھلباک تشتمنی
عند الرسول فلم تصدق ولم تصب
ان تبغضونا فان الروم اصلکم
والروم لاتملک البغضاء للعرب
تم نے اپنی نشست گاہ کو زمین پر وسیع کیا اور آنحضرت کے حضور میری تذلیل کی لیکن کسی نے تمہاری تائید نہ کی اور تمہاری ایک نہ چلی ۔اگر ہمارے متعلق بغض و کینہ رکھتے ہو تو جان لو کہ تم رومی ہو اور اہل روم عرب سے کینہ رکھنے کی تاب نہیں رکھتے۔
(ماخوذ:'تاریخ عرب قبل از اسلام' ،عبد العزیز سالم، مترجم فارسی باقر صدری نیا، ص 28 تا 30 ،مطبع شرکت انتشار علمی و فرھنگی 1380 تھران)
عرب اور اعراب میں معنوی فرق
بعض اہل لغت اس بات کے قائل ہیں کہ مذکورہ دونوں کلمات مترادف اور ہم معنی ہیں۔ جوہری کتاب المصباح میں تحریر کرتا ہیں:
عرب قوم سے مراد شہری حضرات ہیں۔
عرب کا اسم نسبی عربی اور اعراب کا اعرابی ہوگا ۔عرف عام میں عرب کا استعمال سب پر ہوتا ہے۔قاموس اور لغت کی دیگر کتابیں بھی اس کی تایید کرتی ہیں۔
ابو العباس احمد بن عبداللہ جو ابن ابی غدہ کے نام سے مشہور ہیں اپنی کتاب 'نھایت الارب فی معرفۃ الانساب' میں رقمطراز ہیں: شہر میں بسنے والوں کے لیے لفظ عرب کا استعمال ہوتا اور صحرا کے لیے اعراب مگر عرف عام میں عرب دونوں کے لیے قابل استفادہ ہے۔
مفسرین کی ایک جماعت کہتی ہے کہ عرب سے شہروں اور بستیوں میں رہنے والے مراد ہیں۔ان میں جو لوگ بادیہ نشین یا ان کے موالی ہیں انہیں اعراب کہا جاتا ہے۔اس قول کے مطابق عرب اور اعراب دو مختلف چیزیں ہیں اور ان دونوں میں جمع اور واحد کا امتیاز یاء کے ذریعے ہوتا ہے لہذا واحد کے لیے عربی اور اعرابی کہیں گے جبکہ جمع کے لیے عرب اور اعراب۔اسی طرح اعاریب بھی جمع کی لفظ ہے۔یہ اسی طرح ہے جیسے ہم مجوسی اور یہودی واحد کے لیے استعمال کرتے ہیں مگر جمع کے لیے یاء کو گرادیتے ہیں اور المجوس یا الیہود کہتے ہیں۔بلغا کا استعمال مفسرین کے عین مطابق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورہ توبہ میں منافقین مدینہ کا حال بیان کرنے کے بعد عرب کے دیگر منافقین کے سلسلے میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ جَآءَ الۡمُعَذِّرُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ لِيُؤۡذَنَ لَهُمۡ وَقَعَدَ الَّذِيۡنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ
اور آپ کے پاس دیہاتی معذرت کرنے والے بھی آگئے کہ انہیں بھی گھر بیٹھنے کی اجازت دے دی جائے اور وہ بھی بیٹھ رہے جنہوں نے خدا و رسول سے غلط بیانی کی۔
(سورہ توبہ 90)
وَمِمَّنۡ حَوۡلَــكُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ۛؕ وَمِنۡ اَهۡلِ الۡمَدِيۡنَةِ ؔۛ مَرَدُوۡا عَلَى النِّفَاقِ
اور تمہارے گرد دیہاتیوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں۔
(سورہ توبہ 101)
اَلۡاَعۡرَابُ اَشَدُّ كُفۡرًا وَّ نِفَاقًا وَّاَجۡدَرُ اَلَّا يَعۡلَمُوۡا حُدُوۡدَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوۡلِهٖؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ
یہ دیہاتی کفر اور نفاق میں بہت سخت ہیں اور اسی قابل ہیں کہ جو کتاب خدا نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اس کے حدود اور احکام کو نہ پہچانیں اور اللہ خوب جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے۔
(سورہ توبہ 97)
(ماخوذ:بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب 12 اور 13 ،السید محمود شکری الالوسی البغدادی، الجزء الأول، الطبع الثانیہ، ب ط)
“