اقوام عالم کا نیا سیاسی بیانیہ ۔
کچھ لوگ اس دنیا میں بہت دور کی بات کرتے ہیں ۔ وہ جب مر جاتے ہیں تو ان کو یاد کیا جاتا ہے ۔ اور پھر یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ کاش ہم ان سے مستفید ہو سکتے ۔ کیونکہ جب وہ زندہ ہوتے ہیں زیادہ تر لوگ ان کو سمجھ نہیں پاتے، جو سمجھ پاتے ہیں ان کو وہ وارا نہیں کھاتے ، اور استحصالی قوتیں جن کہ خلاف ان کا یہ سارا بیانیہ ہوتا ہے ان کی جان کی دشمن بن جاتی ہیں ، لہٰزا وہ ناپسندیدہ شخصیت بن کر زندگی گزارتے ہیں ۔
ایسا ہی ایک شخص امریکی پولیٹیکل فلاسفر Peter Viereck تھا جو ۲۰۰۶ میں ۸۹ سال کی عمر میں بغیر کسی سیاسی گھر کے فوت ہو گیا اور آج اس پر بحث ہو رہی ہے اسی امریکہ میں کہ جو پوری دنیا میں سیاسی crisis ہے اس کا حل صرف اور صرف پیٹر کی فلاسفی ہے ۔ پیٹر نے اپنی زندگی میں بے شمار کتابیں اور مضامین لکھے ۔ ہاورڈ سے تاریخ میں ڈگری لی ۔ پیٹر بنیادی طور پر شاعر تھا اور پچاس سال تاریخ کا استاد رہا متعدد امریکی اور باہر کی یونیورسٹیوں میں ۔ آجکل میں اس کی کتاب
Shame and glory of the intellectuals
پڑھ رہا ہوں ۔ بہت زبردست سیاسی بیانیہ ہے پیٹر کا ۔ اس کہ نزدیک کمیونزم اور جمہوریت دونوں ہی انتہا پسندوں کہ ہاتھ چڑھ گئے ہیں ۔ دونوں ہی ایلیٹ نوبل کلاس کنٹرول کر رہی ہے ۔ یہ وہ کلاس ہے جس نے اپنے حقوق کی خاطر بادشاہت اور تقلید یوں کہ گروہ سے آزادی لی اور اب خود ہم سب پر مسلط ہو گئے ۔ پیٹر ان دونوں پوزیشنیوں کو اب کچھ اس طرح بیان کرتا ہے ۔
“Right” and “left” are more fluctuating pretexts, mere fluid surfaces for the deeper anti individualism, of the mass man”
پیٹر کہ نزدیک تاریخ کی مادہ پرستی کی بنیاد پر تشریح چاہے کمیونسٹ نے کی ہو یا کیپیٹلسٹ نے بلکل غلط ہے ۔ تاریخ کی تشریح مزہب اور اخلاقیات کی بنیاد پر ہی دراصل درست تشریح ہے ۔ پیٹر کی سوچ کافی حد تک علامہ اقبال اور ہیگل کی فلاسفی سے ملتی جلتی ہے ۔ اس میں وہ unique individual soul کی بات بھی کر رہا ہے جس کو کوئ بھی کسی بیانیہ میں خاطر میں ہی نہیں لا رہا ۔ پیٹر اور بہت سارے قدامت پسندوں کہ نزدیک پارلیمانی اور سول لبرٹی ، ماڈرن لبرل جمہوریت کہ زریعے نہیں آئ بلکہ medieval feudalism کہ زریعے ۔ اس کہ نزدیک میگنا کارٹا ، آئین ، ڈُوما، پارلیمنٹ دراصل میڈیول نوبل مین اپنے تاریخی حقوق کہ لیے وجود میں لایا ۔ یہ اس کی جنگ تھی tyranny of the Kings اور tyranny of the conformist masses کہ خلاف ۔ اور یہی معاملہ آج بھی ہے ۔ اب ہم اس فیوڈل مڈل مین کہ ہاتھوں زلیل ہو رے ہیں ۔ اس کی مزید تشریح وہ کچھ اس طرح کرتا ہے ۔
The original liberal institutions — private property, due process under law, representation in deliberative bodies, the right to dissent politically — began a personalistic, self-interested agreements between groups of elites seeking protection against looting from above or mob
violence from below
نتیجتا اب یہ لبرٹی ماسوائے ایک floating abstraction کہ کچھ نہیں ۔
پیٹر ویریک، آج کہ دور میں بھی سمجھتا ہے کہ آزادی اور بنیادی حقوق ، صرف اور صرف ایک اجتماعی سوچ سیاست میں لا کر آ سکتے ہیں نہ کہ
Sterile liberalism of the markets and voting machines ..
کیا زبردست بات کی ۔ مجھے اس سے اسلام کا علامہ غامدی کی زبان میں اجتماعی خود کفالت والا معاملہ یاد آ گیا ۔ پیٹر کہ نزدیک یہ سارا معاملہ اخلاقی یا مزہبی قدریں کھونے سے پیدا ہوا ۔ جس کہ نتیجہ میں آج امریکہ یا باقی ممالک پولیس اسٹیٹ بن کہ رہ گئے ہیں اور اس کہ خاتمے کے لیے معاشرے میں radicalism بہت ضروری ہے لیکن ایسا نہیں جو ایک اور فلاسفر کہ نزدیک “آپ نکلو تاکہ میں آؤں “ والا
“get out so I can get in “
بلکہ ، ایک ایسا نظریہ اور بیانیہ جو پیٹر نے اپنی اس کتاب میں جس کا میں نے اوپر تزکرہ کیا لکھا ۔
the inspiring moral radicalism of the great utopian socialists and Christian socialists, the great individualists of philosophical anarchism, the Thoreaus and Tolstoys, the incorruptible honest Orwells
یہ بہت ہی آسان فلسفہ ہے اگر اسے ہم سمجھنے کی کوشش کریں ۔ یہ دراصل مدینہ کی ریاست والا معاملہ ہے جہاں اخلاقیات اور مزیب ایک ethical base بھی سیاست کو دے گئے تھے اور ہر شخص کی انفرادیت بھی قائم رہی ۔ یہی فلسفہ علامہ اقبال کی خودی میں ہے ۔ جو دراصل اندھی تقلید اور ملوکیت کہ خلاف بغاوت بھی ہے اور اپنے آپ کو رب کہ ساتھ منسلک کرنے میں ہتھیار اور ایک اچھی زندگی گزارنے کا نسخہ بھی ۔ سیاست کو بہر کیف ہم نے ایک درمیانی راستے پر لانا ہو گا جسے آسٹریلیا کے نئے وزیراعظم موریسن نے بہت اچھا کہا
Australia that is secured for all Australians and working for all of them ..
اور اقبال کہ نزدیک ۔
جلال پاد شاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ۔
بہت خوش رہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔