::: کہاوتیات یا اقوالیات { APHORISM} کا فکری اور نظریاتی خمیر : کچھ ذاتی یاداشتوں کی دریافت "
نوّے/۹۰ کی دہائی میں جب کراچی سے فہیم اعظمی مرحوم ادبی اور علمی جریدہ " ضریر" شائع کیا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے ایم مضمون میں "افارازم" کی ادبی اصطاح کو استعمال کیا۔ لیکن وہ اس اصلاح کی تشریح اور اس کی اشتقایت کو بیاں نہیں کرپائے۔ اس لفظ پر میری ان سے کئی برسوں وقتا وقتا بات چیت ہوتی رہی۔ وہ میرے " افارازم" کے ترجمے سے مطمن اور متفق نہیں تھے۔ جو میں نے " کہاویات" اور اقوالیات" کے نام سے کیا تھا۔ اور نہ ہی انھوں نے میری استدعا پراس کا کوئی ترجمہ اردو میں کیا۔ راقم السطور نے اس زمانے میں 'افارازم' پر خاصا مطالعہ کیا۔ اور نوٹس بناکر فہیم اعظمی مرحوم کو بھجوائے بھی تھے۔ مگر وہ اس پر بات نہیں کرسکے کیونکہ وہ ان دنوں بیمار تھے اور کچھ دنوں بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ میں نے ' افار ازم' پر جو نوٹس بنائے تھے وہ آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں۔ آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔
۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔۔
" افار ازم" ایک جامع یونانی ادبی اور فلسفیانہ اصطلاح ہے۔ جو ادب، لسان اور فکریات کے میدانوں میں زیادہ متحرک دکھائی دیتی ہیں۔ جس سے اردو کا علمی اور نظریاتی تنقید ی حلقہ کم ہی واقف ہے۔ اس کی کئی حد بندیاں ہیں۔ مگر ان کی حد بندیوں کی تشریحات ہوکر روایت سے عہد عصر میں نئی معنویت کے ساتھ سامنے آئی۔ اردو میں اس کا ترجمہ ' کہاوت' اور کہیں ' قول' کیا گیا ہے۔ افار ازم یا کہاویات میں اصل مقولہ سچائی کے اصولوں کے مشاہدے کی بناپر تاثرپذیری، فطانت کے خلیقے یا امتیاز کا عنصر چپھا ہوتا ہے۔ جس میں حکمت ہوتی ہے جس میں خود ہی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ اور سچائی کی بات ہوتی تھی۔ جس میں نوکیلی قسم کی ایک جامع اور گہری فکر ہوتی ہے لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے افارازم یا کہاوتیات مکمل طور پر سچی نہیں ہوتا اس کو آدھا جھوت اور آدھا سچی بھی کہا جاتا ہے۔ اور یہی اس کی تعریف کی اساس بنتی ہے۔ یہ ایک ایسا ٹھوس خیال ہوتا ہے جو فکری مشقت کے بعد لکھی جاتی ہے یا گفتگو کا حصہ بنتی ہے جو بعد میں ایک " یادگار" شکل بن جاتی ہے جو جامع بیاں بھی بن جاتی ہے۔ تاریخی طور پر کہا جاتا ہے کہ " افار ازم" کی اصطلاح کو بقراط نے استعمال کیا۔ بقراط اپنی تحریروں میں پہلا جملہ اس اصطلاح کے ساتھ شروع کیا کرتے تھے۔ جس طرح احمد ہمیش کے دوست اکثر کہا کرتے تھے کی وہ ہندوستان میں اپنے افسانے آیات قرانی سے اور پاکستان میں اپنے افسانے بھگوت گیتا کے اقوال سے کیا کرتے تھے۔ افارازم میں فلسفیانہ مقولہ ارفع ہوتا ہے جس میں زندگی ہمیں بڑی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اصل بہت مختصر ہوتی ہے اور زندگی کے تجربے میں زندگی کے فیصلے کرنا ایک کٹھن کام ہوتا ہے لیکن بعد میں یہ تصورکہاوتوں اور اقوال یا اصول طبعیی اور معاشرتی سائنس میں بھی زیر بحث آنے لگے۔ ساتھ ہی اس میں فلسفیانہ ، اخلاقی یا ادبی اصولوں کی بیانیہ میں شامل ہوگے۔
افارازم یا کہاویات میں سچ کو مشاہدے کی بنیاد پر بڑی ہوشیاری سے بیان اور تشریح کرنے کی تکنیک کا دوسرا نام بھی کہا گیا ہے۔ جس میں حقائق کا انکشاف ہماری زندگیوں سے اخذ کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ایک ایسی سچائی ہوتی ہے۔ جو آفاقی تصور کی جاتی ہے اور انھیں مذھبی ، سیاسی رہنماوں، فلسفیوں، ادبّا، شعرا، فنکاروں اور کھلاڑیوں کے حوالے سے افارازم کے سیاق و تناظر میں آفاقی سطح پر قبولیت بھی حاصل ہو جاتی ہے جس میں تاثر پیدا کرنے کے لیے غازہ بندی ، پامال کلمات { کلیشے} ، مزاحیہ اور طنزیہ اظہار افارازم میں ادبی حکمتیں بھی بھرپور طور پر سامنے آتی ہیں۔ جیسا کہ ہندووں کے اساطیری ادب اور کاما سوترا، انجیلی خطبات، اسلام کی رشدو ہدایت اور قدیم معاشروں کے تحریری اور تکلمی متنون میں موجود ہے۔ خاص کی تلمیحات اور مذھبی قصص میں اس کا وافر ذخیرہ ملتا ہے۔ افارازم میں مجھل مشاہدہ سچائی کی بنیاد پر ہوتا ہے جیسے ایک پرانی کہاوت ہے۔۔" بچہ باپ کے لیے آدمی ہے"۔
افارازم یا کہاویات کی پہلی کتاب کا نام CADAGIA ہے۔ جس کے مصنف فرموس روٹرم { FRASUMROTTERDOM} ہیں ۔ اس کے بعد بلاسٹر گارشیا، فرانسیس ڈی لا روچل فکولوٹ اور بلاسس پاسکل نے بھی اس موضوع پر لکھا۔ پولستانی زبان میں میںسینولو لیسٹ نے " حکمت اور آزادی " پر لکھا اور میکائیل ٹروسکی نے کئی کتابیں لکھیں۔ جو بعد میں انگریزی اور روسی میں ترجمہ ہوئیں۔ معاشرتی سطح ہر افارازم کی ماہیت تشکیک زدہ اور " پوشیدہ" بھی ہے۔ مثلا یونانی ڈراموں میں شاہ سلیمان کے سات/۷ ایکٹ کے ڈراموں میں ثقافتی ہیروز کے اقوال مکالموں کی صورت میں پیش کئے جاتے تھے۔ یہی کچھ صورت حال کنفیوشیس کی تعلیمات میں نظر آتی ہے مگر ان ڈراموں میں بعض دفعہ غلط بیانی بھی کی جاتی ہے۔ اور دروغ گوئی کی حد تک جھوٹ بھی بولا اور لکھا گیا ہے۔ شاید یہ ہنسی مذاق اور ڈرامائی تقاضوں کے تحت کیا گیا ہو۔
' افارازم' کے اثرات ہنری امیائل، ڈبلیو ایں آڈن ، اسپنوزا، شیکسپّر، کارل مارکس چارلس ڈکنس، جان بودلیر، الیاس کانتی،مارک ٹوین ، سال بیلو، آئزک سنگر میسن کولے۔ کولرج، نطشے، ٹی ایس ایلیٹ ، ایزرا پاونڈ ، لیوی اسٹروس، آئن اسٹائن، مہاتما گاندھی،عنایت اللہ بخاری، علامہ مشرقی، شورش کاشمیری، بہادر یار جنگ، ماتھر لوتھر کنگ ، سیلوا ڈور ڈالی، چارلی چپلیں، البرٹ کامیو، ژاک دریدا، خورخے بورہس، وغیرہ کی تحریروں اور گفتگو میں نظر آتے ہیں۔
افارازم یا کہاوتیات کے سلسلے میں کچھ ادبّا، فلاسفہ، اداکاروں کے منتخب اقوال پیش کئے جاتے ہیں:
۱۔ نوجوان غلطی پر ہوتے ہیں جو ای جدوجہد کی مردانگی اور بڑ ہاپے کا افسوس ہوتا ہے۔ {بینجمن ڈیس ریلی}
۲۔ ایک آدمی پہاڑ کو بنا دیتا ہے۔ جو شروع سے چھوٹے پتھر دور لے جاتے ہیں۔ {ولیم فوکنر}
۳۔ زندگی کا المیہ پرانا ہوتا ہے اور جلد ہی عقل مند اسے حاصل کرلیتا ہے۔ { بینجمن فرینکلیں}
۵۔ گذرا ہوا دن آج کے دن کی یادگار ہوتی ہے اور کل آج کا خواب ہے۔ { خلیل جبران}
۶۔ آسان سوالات کے جوابات دینا مشکل ہوتا ہے۔ { نارتھرپ فرائی}
۷۔ سچا آدمی ہمیشہ جھوٹا ہوتا ہے { الفریڈ نوبیل}
۸۔ کہاوت، کہاوت نہیں ہوتی جس کی زندگی میں عکاسی ہوسکے۔ {جان کیٹس}
۸۔ الفاظ یقینا انسانی زندگی کا قوی نشہ ہوتا ہے۔ { رڈیارڈ کپلنگ}
۹۔ جیسے نظر آنا چاہیے ویسے بن جاو { سقراط}
۱۰۔ سب کا دوست کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ {ارسطو}
۱۱۔ علم کی جستجو جس رنگ میں بھی کی جائے۔ عبادت کی ایک شکل ہے۔ { علامہ اقبال}
۱۲۔ نصحیت ایسی چیز ہے جس کی عقل مندوں کی کی ضرورت نہیں ، اسے بے وقوف قبول نہیں کرتے۔ { عربی کہاوت}
۱۳۔ اگر ایک کرسکتا ہے تو، تم بھی کرسکتے ہو اور اگر کوئی نہیں کرسکتا تو تمھیں لازمی کرنا چاہیے ۔ { جاپانی کہاوت}
۱۴۔ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا { شیفتہ}
۱۵۔ یہ بستی نہیں یہ دلّی ہے۔ { شاہ حاتم}
۱۶۔ زندگی میں اس سے خراب چیز اور کیا ہوگی کی آپ ایک انشورنس فروخت کرنے والے کے ساتھ شام گذاریں { مزاحیہ اداکار وڈی ایلن}
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔