شخص سے شخصیت بننے کے لئے تشخص کا عرفان بیحد ضروری ہے۔ اجداد کے عقائد کے عقائد پر سوال اُٹھانا شیوہ پیغمبری ہے۔ اور پیغمبری پر قدغن لگانے والے مشرکین تھے۔ آب زم زم پیاسے کے حلق میں نہ اترے تو کچھ بھی نہیں۔ اعتقاد کو اعتماد کا قلاش کرنا استخفافِ اعتقاد ہے۔ غریب امیر ہوجاتا ہے۔ امیر غریب ہوجاتا ہے۔ یہ تغیر کیوں رہنما ہوتا ہے۔ کیونکہ امیر کو امارت بگاڑ دیتی ہے جبکہ غریب کو غربت بیدار کردیتی ہے۔ اس لئے زندگی دوڑ ہے اور دوڑ میں فقط دوڑنا ہی پڑتا ہے۔ نفسیاتی مریض بن کر جینے سے بہتر ہے کہ نفسیات کو سمجھو۔ ہر وہ شے ہے جس کا مدعا حرکت ہو فزکس کہلاتی ہے۔ اسی طرح ہر وہ فکر جس کا مدعا دردِ دل ہو معراجِ انسانیت ہے۔ معاف کر دو معاف کر دئیے جاؤں گے۔ معافی بہ حرصِ معافی انسانی معراج نہیں۔ انسانی معراج بے حرص معافی میں ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دنیا کے 4200 مذاہب میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کی عمارت کی بنیاد ڈر اور لالچ پر کھڑی نہ ہو۔ جس علامہ اقبال نے ترکھانوں والے مُنڈے کا مذہبی کارڈ کھیلا۔ اسی کے فرزند نے مذہبی شدت پسندی کے خوف سے اپنی رائے بیان کرنے سے گریز کیا۔ جس ایم ڈی تاثیر نے غازی علم دین تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اسی کے فرزند کو مرتد بنا کر قتل کر دیا گیا۔ فطرت بڑی بے رحم منصف ہے انتقام لینے میں عار محسوس نہیں کرتی۔ میرا قلم منصف ہے مصنف کا عقائد نہیں حقائق لکھتا ہے۔ اس کو تمھارے عقائد سے نہیں حق سے غرض ہے۔ جس عمران خان نے مذہبی شدت پسندی کے خوف سے ہمسایہ ملک میں گورنر پنجاب کے قتل پر رائے دینے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی جنونیت سے خوفزدہ ہوں وہی بندہ بطور وزیراعظم اقوام متحدہ کے فلور پر مذہبی جذبات مجروح ہونے کی بات کرتا ہے۔ فقیر کی نظر میں شان سکندری کچھ بھی نہیں۔ جمہور کی نظر میں شان سکندری بہت کچھ ہے۔ شان فقیری کچھ بھی نہیں۔ یوں جمہوریت کو ختم کرنا پڑے گا۔ مذہب نہیں سکھاتا کسی سے بَیر رکھنا۔ قادیانی کافر زندیق واجب القتل ہیں۔ خودی کے پیامبر تادم مرگ انگریز کے وظیفہ خور رہے۔ جن کے لئے خودی عرفاں زندگی کا دوسرا نام ہے ان کے لئے ملکہ الزبتھ کی قصیدہ گوئی کرنا بے عیب رہی۔ ہمارے ہاں روٹی بھی عزت کی ہوتی ہے یعنی بے عزت روٹی بھی وجود پذیر رہی ہے۔ جیسے لکھاری دائیں بازو کے بھی ہوتے ہیں بازوں کے بھی۔ ہر شے میں تفریق باکمال ہے۔ ہمارے پاس ایکسپریس اخبار بھی ہے جس میں اپنی بائیں کے خیالات ایکسپریس کرنے کی ممانعت ہے۔ ہمارے پاس ایسا دنیا نیوز اخبار بھی جس میں دنیاوی خبروں سے زیادہ دینی خبریں ملتی ہیں۔ ہم وہ قوم کے ہیں جس کو دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا کہ ہم غیر مسلم اکثریت کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ یہ الگ بات ہے کہ آدھی سے زیادہ قوم کو یورپ میں بطور اقلیتی رکن سکونت اختیار کرنے کی خواہش ہے۔ جو ملاء نے فرنگیوں کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے۔ زندگی میں غلطی سے بھی ایک آدھ بار یورپ کا منہ دیکھ بیٹھیں۔ باقی تمام عمر نام کے ساتھ خطیب یورپ لکھتے گزار دیتے ہیں۔ زندہ دلانِ لاہور غلط راہ بتانے کو اعزاز سمجھتے ہیں۔ دو آدمی اگر کسی کو جان و مال کو نقصان پہنچائے بغیر خوش رہ سکتے ہیں تو اس سے مذہب یا معاشرے کو کوئی نقصان نہیں۔ پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں۔ ہر پیدا ہونے والا بچہ لاکھوں روپے کا مقروض ہے۔ مملکت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے مگر کیا یہ عنایت کم ہے کہ پاکستان نور ہے۔ شبِ مہتاب کی روشنی یعنی چاندنی دلکش لگتی ہے جبکہ روزِ آفتاب کی روشنی کشش نہیں کرتی۔ کیونکہ روزِ آفتاب کی روشنی اپنی ہوتی ہے جبکہ شبِ مہتاب کی روشنی اپنی نہیں بلکہ روزِ آفتاب کی روشنی کو اپنی دکھا کر پیش کرتا ہے۔ اس کی چاندنی فقط سراب ہے۔ یہی ہماری نفسیات ہے کہ حقیقت سے ہٹ کر ہمیں سراب کشش کرتے ہیں۔ مذاہب نیکی کے بدلے جنت، سؤرگ وغیرہ کا لالچ دیتے ہیں۔ میں بغیر لالچ کے نیکی کرنے کا قائل ہوں اس لئے میری مذاہب سے نہیں بنتی۔
مصنوعی ذہانت انسانی تخیل اور ادب کا مستقبل
مصنوعی ذہانت کا لفظ پہلی بار Dartmouthبرطانیہ میں ہونے والی ایک سائنسی کانفرنس میں معرض وجود میں آیا۔مصنوعی ذہانت یعنیArtificial...