**مرد اور مردانگی**
ہماری سوسائٹی میں عورتوں کے علاوہ مردوں کے ساتھ بھی جذباتی معاملات میں بہت زیادتی کی گئی ہے۔ مردانگی کے ساتھ اس قسم کے اٹریبیوٹس کو جوڑ دیا گیا ہے کہ مرد اس چکرویو میں خوب جکڑا گیا ہے۔ کیونکہ تم مرد ہو تو رونا نہیں، کیونکہ تم مرد ہو تو جذباتی بلکل نہیں ہونا، کیونکہ تم مرد ہو تو بچوں کو پیار نہیں کرنا، گود میں نہیں لینا، ان کا پیمپر نہیں بدلنا۔ کیونکہ تم مرد ہو اس لیے غصہ کرنا، سخت رہنا، طاقت کے نشے میں چُور رہنا اور ہر وقت لڑنے مرنے کے لئے تیار رہنا ہی تمہاری مردانگی کو جچتا ہے۔ ماں مر گئی رونا نہیں، بچہ مر گیا رونا نہیں، گرل فرنڈ چھوڑ گئی رونا نہیں کیونکہ تم مرد ہو۔
ارے یار! مرد بھی انسان ہے، دل رکھتا ہے، جذبات رکھتا ہے۔ اس کا بھی رونے کا من ہو سکتا ہے، اس کا بھی دل دُکھ سکتا ہے، اسے بھی محبت ہو سکتی ہے، اس کا دل بھی چاہ سکتا ہے بچے کو گود میں کھیلانے کو، پیار کرنے کو۔ مگر افسوس اس سوسائٹی پر جس نے مرد سے اسکے بُنیادی احساس سے لبریز جذبات چھین لیئے ہیں یا ان پر برف کی موٹی سلیں چڑھا دی ہیں اور اس کے بدلے میں مردانگی کا ڈنڈا اس کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔
اس کے علاوہ جنسی طمانیت کا بوجھ بھی مرد کے اوپر، جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ احساس کمتری کا شکار ہی رہتا ہے کہ پتا نہیں اس کی مطلوبہ پیمائشیں درست ہیں کہ نہیں؟ جا بجا دیواروں پر مردانہ کمزوری کے اشتہارات مردوں میں مزید شکوک اُبھارتے ہیں اور ایک بار پھر تف اس سوسائیٹی پر جس نے جیسے عورت کی عزت کا تعلق اس کی ٹانگوں کے درمیان لا رکھا ہے، اسی طرح مرد کی مردانگی کا پینڈولم اس کی ٹانگوں کے درمیان لا جوڑا ہے۔
ہمارے یہاں سینکڑوں باپ ہر سال خودکشی کر لیتے ہیں، جس کی ایک وجہ تو بھوک اور غربت ہے تو دوسری وجہ یہی نام نہاد مردانگی یا بوجھ ہے کہ میں کیسا مرد ہوں جو اپنے بچوں کو نہیں پال سکتا۔
حتی کے کھانے پینے کے معاملات میں بھی مرد کی ڈشز الگ ہیں، کئی جگہ تو چٹپٹے چٹخارے دار کھانے بھی مرد کی مردانگی پر حرف اور سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔
معاشرے نے آیڈییل مرد کو مردانہ طاقت سے بھرپور، انا پرست اور سخت مزاج ایسا "ماچو مین" بنا کر پینٹ کیا ہے کہ مرد کے پاس جمالیاتی و فطری احساسات کا ہونا ہی اس کی مردانگی کو ٹھس کرنے کے لئے کافی ہے، اس لئے وہ زبردستی خود پر سماج کے پینٹ کردہ مرد کا خول چڑھائے رکھتا ہے۔
اے کاش! مرد حضرات خود ہی سمجھ جائیں کہ ان کی مردانگی کا تعلق ان کے سخت گیر جابر ہونے، بہادر ہونے یا جذبات سے عاری ہونے یا ان کے کسی خاص عضو کی پیمائش سے ہرگز نہیں ہے تو خود ان کی زندگی بھی آرام و سکون سے گزرے اور ان کی قربت میں آنے والی دوسری صنف بھی کسی آقا و مالک نہیں بلکہ کسی مخلص و غمگسار ساتھی کی محبت و چاہت سے قرار پائے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“