آج کل اس قسم کے بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا واقعی اللہ موجود ہے؟ وہ اگر ہے تو اس کا کیا ثبوت ہے؟ یہ سوالات جو کہ لادینی حلقوں کی طرف اٹھائے جارہے اور جب ایسی آواز ہمیں سنائی دیتی ہے تو عام طور پر لوگوں کا یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ موجودہ دور میں لادینت کا اثر بڑھ گیا ہے۔ اس لیے اس قسم کے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ہر دور اور ہر معاشرے میں انکار خدا کے داعیوں کی طرف سے اس طرح کے سوالات اٹھتے رہے ہیں اور اٹھتے بھی رہیں گے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے ان کا حلقہ ہر دور میں بہت محدود رہا ہے اور اب بھی محدود ہے۔ اگرچہ مغرب کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں لادینت پھیل چکی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے وہاں کے بشتر لوگ بظاہر مذہب سے دلچسپی نہیں رکھتے ہیں اور مذہبی رسمی رسومات سے بھی دور ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے لوگوں کی اکثریت کسی نہ کسی شکل میں اللہ، گوڈ یا ایشور یا کوئی بھی آپ نام دے لیں پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہمارے سامنے روس اور کیوبا کی مثالیں موجود ہیں ۔ جہاں مذہب سے پابندی اٹھنے کے بعد وہاں مذہب کا اثر بڑھ گیا ہے ۔ خود کیوبا کے کاسٹرو جب پوپ سے ملے تھے تو آنسوؤں کی چھڑی ان کے چہرے پر واضح نظر آرہی تھی ۔ مغرب میں سیکڑوں ریڈیو اور ٹی وی چینل ایسے قائم ہیں جو صرف مذہبی پروگرام بھی پیش کرتے ہیں اور بہت سے مبلغ ایسے ہیں جو روزانہ کئی کئی چینلوں پر اپنا پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ ان کے پاس پیسوں کی کمی نہیں ہے اور جب بھی انہوں نے کسی وجہ سے پیسوں کی اپیل کی تو چند دن میں انہیں کڑوروں ڈالر مل جاتے ہیں۔ اس لیے یہ خیال غلط ہے مغرب لادینیت کی طرف مائل ہے۔ اگرچہ وہاں لوگ مذہبی عبادتوں میں باقیدیگی سے مسلمانوں کی طرح شریک نہیں ہوتے ہیں لیکن اللہ کو مانتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو عیسائی مسلمانوں سے زیادہ اپنے عقائد کے بارے میں انتہا پسند ہیں۔ آج جو اسرائیل کی حمایت عیسائی دنیا یہودیوں کی محبت میں نہیں بلکہ عقیدے کے وجہ سے کی جارہی ہے۔ جس کی تفصیل کے لیے میرا مضمون اسرائیل اور عیسائی دنیا دیکھیں۔
اللہ کیا ہے؟ ہم اس کے بارے میں صرف انتاہی جانتے ہیں جتنا کہ ہماری مذہبی کتابوں میں آیا ہے اور اللہ پر یقین کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی عقلی دلیل نہیں ہے بلکہ صرف عقیدہ اور ایمان ہے۔ اگر یہ عقیدہ اور ایمان اللہ پر نہیں ہو تو لامذہبیت کہلاتی ہے ۔ لامذہبوں کے پاس انکار خدا کے لیے بہت سی طاقتور عقلی دلیلیں دیتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم خدا کے حق میں دلیل دیں گے تو آخر میں مادہ آئے گا ۔ اس طرح اگر ہم مادہ کے حق میں دلیل دیں گے تو اس کے جواب میں خدا آئے گا ۔ لہذا ان کے شافی جواب عقلی بنیاد پر دینا آسان نہیں ہے اور اعتراضات کا جواب دینا بھی فضول ہے ۔ اس کے وجہ یہ ہے مذہب کا تعلق عقیدے سے ہے عقل سے نہیں ہے ۔ لہذا ان کا جواب دینا بالکل ایسا ہوگا کہ ایک شخص کسی گاڑی کی برائیاں بتائے جواب میں اس گاڑی کے رنگ کی خوبصورتی کی بات کریں ۔ لہذا ان کے جواب دے کر مخالف کو مطمعین نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس کا سب بہتر جواب یہی ہے کہ اللہ پر ہمارا عقیدہ و ایمان ہے اور دنیا میں اربوں انسانوں کے پاس مذہب کی سب سے طاقت ور دلیل بھی یہی ہے ۔ یہی وجہ ہے ہر دور میں مذہب کے مانے والوں کے تعداد کثیر اور لامذہبوں کی اقلیت رہی ہے ۔
مذہب کا تعلق اگرچہ عقیدے سے ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عقیدہ کے سامنے عقل بھی ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوجاتی ہے ۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کسی عقیدے کو عقل کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے ؟ اور یا علم و سائنس کی بنیاد واقعی عقل پر رکھی گئی ہے ۔ پہلے سوال کے جواب اکثر لوگ اس کا انکار میں جواب دیں گے اور دوسرے سوال کا لوگ شاید کچھ جواب نہیں دیں اور بشتر ہاں جواب دین گے ۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے مذہب ہی نہیں بلکہ ہر علم و سائنس کی بنیاد کے پیچھے حقیقت نہیں بلکہ خیال ، مشاہدہ اور تصور ہوتا ہے ، عقل نہیں اور بعد میں اس کی بنیاد عقل پر مستحکم کی جاتی ہے ۔ لہذا اس کے لیے تفصیلی بحث کی ضرورت ہے ۔
ہم مسلمان ہیں اور ہمارا اللہ پر ایمان ہے ، ہم قران کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں اور ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسم کو آخری نبی الزماں مانتے ہیں ۔ یعنی ہمارا مذہب بھی دوسرے مذاہب کی طرح عقیدے پر قائم ہے اور اسلامی فقہ کے بنیادی ماخذ کتاب اللہ ، حدیث اور اجماع ہیں ۔ جب کسی معاشرے میں کسی مذہب کو مان لیا جائے تو وہاں معاشرے کی تعمیر اس مذہب کے احکامات جو کہ اس کے بنیادی ماخذ میں ہوتے ہیں پر قائم ہوتی ہے ۔ جب ہم ان ماخذوں کی روشنی میں کسی امور پر بحث کریں گے تو وہاں ہم عقل کا استعمال کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر اسے غلط یا درست ثابت کرتے ہیں اور یہی ہمارے قانونی ماخذ بھی ہیں ۔ لیکن کوئی فرد اگر کسی دلیل کو نہیں مانتا ہے یا اس سے انکار یا اختلاف کرتا ہے تو وہ ایک الگ اپنا حلقہ اثر قائم کرلیتا ہے اور گویا الگ فقہ یا دبستان قائم ہوجاتا ہے اور اسلام میں مختلف مسلک یا فقوں کی بنیاد یہی ہے ۔ خیال رہے یہ بنیادی ماخذوں سے اختلاف نہیں کرتے ہیں مگر ان ان تشریح یا دلیل سے اختلاف کرتے ہیں ۔ لیکن اگر وہ بنیادی ماخذوں سے یعنی قران ، حدیث اور اجماع سے انکار کرتا ہے تو وہ الگ فرقہ قائم کرلیتا ہے مثلاً شیعہ فرقہ۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے سائنس اور علم کا تعلق عقل و حقیقت سے ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے علم و سائنس کا تعلق حقیقت سے ہے ۔ لیکن مذہب کی طرح سائنس اور دوسرے علوم کا آغاز خیال یا تصور یا مشاہدے سے ہوئی ہے ۔ عقیدہ اگرچہ خیال یا تصور اور مشاہدے بھی سے طاقت ور چیز ہے اور عقیدہ مستحکم بنیادوں پر قائم ہوکر مذہب کی بنیاد بنتا ہے اور اسے الہامی کیا جاتا ہے ۔ لیکن جب مذہب کو مان لیا جاتا ہے اس کو مزید ترقی و ترویح کے لیے عقل کار فرما ہوتی ہے اور ہماری زندگی کے ہر شعبے میں ایک دستور عمل اور ایک طریقہ کار فراہم کرتا ہے ۔ وہ دستور اور طریقہ کار ایسا مستحکم ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ اسی رنگ میں رنگ جاتا ہے ۔ جب معاشرے اسی راہ پر چلتا ہے تو کیا اس کی بنیاد میں عقل کار فرما نہیں ہوتی ہے۔