1978 کی ایک شام کو ملک گیانا کے علاقے جونسٹائون میں ایک راہ گزر دیکھتا ہے کہ پیپلز ٹیمپل نامی مندر کی سیڑھیوں پہ بچے بیہوش پڑے ہیں، وہ فورا سے مقامی پولیس کو اطلاع دیکر بلاتا ہے اور آگے جاکر جو منظر دیکھنے کو ملتا ہے اس سے انسان کی روح کانپ جاتی ہے۔
ایک نہیں،
دو نہیں،
تین چار یا چالیس پچاس نہیں،
بلکہ گنتے گئے، گنتے گئے اور گنتے چلے گئے،
کل ملاکر 276 بچوں کو مردہ پایا گیا،
جبکہ 642 مرد و خواتین کی لاشیں برآمد ہوئیں۔
اتنی بڑی تعداد میں یہ سب ایک ساتھ مردہ کیسے پائے گئے ؟ اس واقعہ نے پوری دنیا کو عجیب سے تجسس میں ڈال دیا کہ آخر اس نئے مندر میں ہوا کیا تھا ؟
تحقیقات ہوئیں ڈائریز برآمد ہوئیں، کتابچے اور لیکچرز پھر مندر کے دیگر ممبرز سے ہونیوالی تمام تر معلومات کو اکھٹا کیا گیا جسکے بعد اسکو ایک “مذہبی خودکشی” یا Mass Suicide کا نام دیا گیا جس خودکشی میں بچوں کی جانیں تک نہیں بخشی گئیں اور وہ سب ہنسی خوشی زہر پیتے گئے جس سے ان سب کی موت ہوئی ۔
لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ اس بننے والے نئے عیسائیت کے فرقے کے بانی جم جونز خود کو ابتداء میں ملحد کہتے تھے پھر اچانک سے شدید مذہبی کیوں بن گئے ؟
فرقہ کچھ اسطرح سے تھا کہ الحاد، عیسائیت سوشلزم اور سویت یونین تک کے چند چنیدہ قوانین پر مبنی اس فرقے کی بنیادیں تھیں، مگر اسکا بانی کچھ اور ہی چاہتا تھا جسکو اس نے “انقلابی خودکشی” کا نام دیا،
یہ واقعہ آج تک معمہ بناہوا ہے کسی نے قتل کہا کسی نے خودکشی تو کسی نے سازش یا پھر کسی نے نفسیاتی عارضہ۔
کلٹ ازم کی انتہاء کو چھونے والے اس واقعہ نے بہت سے سوالات کو جنم دیا اور آزادانہ تحقیقات کے علاوہ بہت سے مختلف الزامات بھی سامنے آئے، لیکن مرد و خواتین اور بچوں کی لاشوں سے اٹے بھرے پڑے اس مندر نے یہ سبق دیا کہ زندگی ہار گئ اور عقیدت مندی پر مبنی خیالات جیت گئے جن خیالات کے آگے سوالات کی ممانعت تھی بس جی حضوری ہی کو سرفہرست رکھا جاتا رہا۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بھی ایک پیر صاحب نے درجنوں خواتین و مرد کو عقیدت کے نام پہ قتل کیا جسمیں اسوقت کے وزیراعظم کے پروٹوکول آفیسر بھی قتل ہوئے اور یہ اجتماعی مقتل گاہ اصل میں ہنسی خوشی پیش کرنے والا سر تھا یعنی اجتماعی خودکشی،
دنیا کے تمام مذاہب میں ایسے فرقے موجود ہیں جو مریدین کو “سر تک حاضر کرنے” یعنی محبت کی انتہاء میں سوال تک نا کرنے کی تلقین ہوتی ہے جو شے آگے چل کر شدید ذہنی غلامی پہ مجبور کرلیتی ہے جی ہاں ایک ایسی غلامی جہان ممانعت کفر کہلاتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...