ہمارے ایک دوست ریاض خٹک نے کراچی کی ایک واردات قلم کی تو مصرع ثانی کے طور پرکچھ "چشم دید" اسے سمجھےؑ۔ یہ احوال ہے اس جمعرات کو منعقد ہونے والے عرس کے پس منظر کا جو اب تین ہٹی پر جھانگیر روڈ کی ٹریفک بلاک کر دیتا ہے۔ایک طرف پھولوں اورمزار کے لوازمات کی دکانوں کا سلسلہ ہے۔ہتین ہٹی پر ہی اس کے سامنے۔ محبوب آپ کے قدموں پر" نوشتہؑ دیوار" والے چند سنیاسی بابے اور بی بیاں دکا نیں سجاےؑ بیٹھے ہیں۔ یہ سب پہلے نہیں تھا ۔ہمارے کچھ دبنگ پردہ چاک اینکرز نے "چھاپے" اورانکشافات کے سنسنی خیز ڈرامے بھی کیے لیکن ؎ وہی ہے نظم جہاں آج بھی تو کیا کیجےؑ۔۔
1967 سے 1970تک یعنی خانہ آبادی کے تین سال بعد یہ ملازم سرکاراپنی اوقات کے مطابق جہانگیر روڈ کے دو کوٹھریوں والے ایف ٹایپ کوارٹر کے ایک کمرے میں اپنی اکلوتی بیوی اور ایک پروڈکشن کے ساتھ مقیم رہا۔ دوسرے کمرے میں ایک ہم پیشہ و ہم مرتبہ دوست حمید بھٹی۔۔اللہ اسے اپنا قرب عطا کرے۔۔ بیوی اور تین بچوں کے ساتھ رہتا تھا(وہ انتقل کے وقت سپریم کورٹ کا وکیل تھاٗ)۔۔ہم اپنے اپنے حصے کا 50 روپے کرایہ ادا کرتے تھے۔۔ کیا آج آپ کو ممکن لگتا ہے کہ ایک چھوٹے سے مشترک کچن ۔ غسلخانے اور لیٹرین کے ساتھ دو خاندان تین سال ساتھ رہیں اور ان کی بیویاں ایک بار بھی نہ لڑیں اور ان میں دوستی کا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جاےؑ؟
کوارٹر کے سامنے ایک کمرے کی سرکاری زمین پر بنی مسجد تھی جس میں ایک بنگالی پیش امام اور چاریتیم طلب علم بچے تھے ۔ وہیں سامنے کے کورٹرسے ماہر فن بنگالی بانسری نواز جلیل القدر "پیارے میاں" نماز ادا کرنے آتے تھے ان کا بعد میں قتل ہوا معلوم نہیں کیوں۔ایک بار پانی کی لایؑن پھٹ گیؑ تو خواتین مسجد میں لگے ہینڈ پمپ سے پانی لاییؑں ۔ میری تقریبا" نیؑ نویلی دلہن نے یہ کام کرنے سے صاف انکار کیا تو بھٹی کی بیوی نے اس کا ساتھ دیا۔مجبورا" ہم زن مرید دوستوں نے اپنی اپنی بیوی کے متروک سیاہ لیڈی ہملٹن والے برقعے صندوقوں سے نکال کر پہنے۔ بالٹی اٹھایؑ اور جنس بدل کر خواتین کی لایؑن میں کھڑے ہو گےؑ ۔ اور چلو بھر پانی لےکرہی آےؑ۔ہنسنے کی بات نہیں۔ باوا ادم سمیت ہم سب زن مرید ہیں
ایک سال بعد اچانک ایک سہانی صبح میرے کوارٹر کا فوج نے محاصرہ کرلیا۔یہ سب نیوی والے تھے جنہوں نے مجھے بھی گھر میں بند کردیا۔ خوف اور سنسنی کی اس فضا میں ایک جونییؑر افسر نے میرے گھر میں آکے وضو کیا اور نماز پڑھی تو بتایا کہ میرا پڑوسی کسی ریر ایڈمرل کا پی اے تھا۔ اس نے صاحب کے بنک اکاونٹ میں خرد برد کی تھی۔ نیوی والے اسے لے گےؑ ۔ رات بھرکی تفتیش میں اس کی حالت غیر ہویؑ تو گھر میں رونا پیٹنا مچا۔ گھر والوں نے آیت کریمہ کے ورد کا اہتمام کیا، ہم تو خیر ہمساےؑ تھے،۔ محلے کے لوگ آےؑ نہیں۔۔سوالاکھ بار آیت کریمہ پڑھنے کا ٹارگٹ پورا کرنا مشکل ہوا تو مسجد سے رجوع کیا گیا، وہاں سے چار طلبا اور چگی داڑھی لنگی والے پیش امام کا وفد آیا اور بیٹھ گیا۔ان سے کہا گیا کہ پڑھنا شروع کریں توبنگالی نے کسی عالم دین کی طرح کہا"پہلے نیاز کا کھانا ہوتا ہے"۔۔ان کو بتایا گیا کہ بریانی کی دیگ تیار ہونے میں دیر ہے تو ملاجی نے شاگردوں کو اشارہ کیا ۔وہ سب اٹھے اور واک آوٹ کر گےؑ
میں گارڈن روڈ۔۔ فیڈرل بی ایریا۔ گلشن اقبال ہوتا 1995 میں گلشن معمار میں اپنے خوابوں کے محل پہنچ گیا اور بالاخر 1905 میں ؎ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ۔ بیک ٹو دی پویلین پنڈی۔۔ لیکن اس ہجرت کے دوران ایک طویل وقفہ ایسا بھی آیا جب شاید دس سال میں تین ہٹی کی طرف نہیں گیا۔۔ ۔۔۔اور اسی دوران موجودہ مزار معرض وجود میں آیا جو رفتہ رفتہ اب مرجع خاص و عام ہے۔یہ میں جانتا ہوں کہ پیر وہاں کویؑ نہیں تھا۔آپ بھی سوچےؑ کہ پھریہ کس کا مزار شریف ہے ۔جو فرمودہؑ اقبال کو درست ثابت کرتا ہے۔
بابگ درا میں ایک نظم ہے شیطان کا اپنی مجلس شوریٰ سے خطاب۔ اس میں شیطان اپنے کارندوں سے کہتا ہے
مست رکھوذکروفکرصبح گاہی میں اسے
پختہ ترکر دو مزاج خانقاہی میں اسے
"اسے" سے مراد کون ہے؟