وہ چراغ جو میرے باطن کو روشن کرگئے
ڈاکٹر نذرخلیق
عقل و عشق کے اتصال کی مثال۔۔۔۔حیدر قریشی
میں آج جو کچھ بھی ہوں والدین اور اُن لوگوں کی وجہ سے ہوں جو میرے لیے ’’ روشن چراغ ‘‘ کی طرح ہیں۔ماںباپ کی تربیت اور دعائیں آخر تک کام آتی ہیں اور اگر ماں باپ صالح اور متقی ہوں تو کیا ہی بات ہے۔آدمی انسان بنتا ہی ماں باپ کی صالحیت کی وجہ سے ہے۔اسی طرح دوست یار اگر صالح اور نیک ہوں تو آپ پر اُن کا رنگ چڑ ھتا ہے ۔اساتذہ اور بزرگ دوست ہمیشہ کامیابی کا زینہ بنتے ہیں ۔یقین مانیے میں نے جو بھی پایا ہے وہ یا تو والدین کی دعاؤں کے سبب سے پایا ہے یا پھر اساتذہ اور بزرگ دوستوں کی صحبت کی وجہ سے پایا ہے۔حیدر قریشی میرے بزرگ دوست ہیں ( شاید لفظ بزرگ اُن کو اچھا نہ لگے ) وہ دس سال سے اُوپر یا نیچے مجھ سے بڑے ہیں اگر چہ تلون مزاجی کے اعتبار سے وہ کبھی کبھی مجھ کم عمر والے لوگوں جیسی باتیں بھی کرنے لگتے ہیں ۔حیدر قریشی آج بہت بڑے شاعر ،افسانہ نگار ،محقق، نقاد ،مدیر ،کالم نگاراور انشائیہ نگار بھی ہیں مگر حیدر قریشی سے میرا تعلق اُس وقت سے ہے جب وہ ادب میں نئے نئے وارد ہوئے تھے اور میں صحافیانہ سر گر میوں میں قدم رکھ رہا تھا ادب کی الف بے سے بھی واقف نہیں تھا ۔حیدر قریشی ان دنوں صرف اخبارات میں اپنی ادبی چیزیں بھیج دیا کرتے تھے اور جب وہ شائع ہوتی تھیں تو بہت خوش ہوتے تھے، غالباً ہفت روزہ ’’ مدینہ ‘‘ بہاول پور اور روزنامہ ’’ مشرق ‘‘ لاہور میں وہ اپنی چیزیں بھیجا کرتے تھے ۔روزنامہ’’ مشرق ‘‘ لاہور کا ادبی ایڈیشن اُن دنوں انتظار حسین کی زیرِ نگرانی شائع ہوتا تھا۔حیدر قریشی پر ادب کا جنون سوار تھا مجھے یاد ہے کہ وہ مشرق کے ہفت روزہ ’’ ادبی ایڈ یشن ‘‘ کو دیکھنے کے لیے علی الصبح خان پور کٹورہ کے ریلوے سٹیشن پہنچ جاتے تھے اور چونکہ میرا گھر ریلوے سٹیشن کے قریب تھا اس لیے وہ مجھے بھی سٹیشن بلوا لیتے تھے ۔ہم صفحہ وہیں کھڑے کھڑے پڑھتے اور اگر اُن کی چیز شائع ہوئی ہوتی تو اخبار خرید لیتے ورنہ مطالعہ کرتے اور واپس آجاتے ۔حیدر قریشی کی اس ’’ ادبی دیوانگی ‘‘ کا اثر مجھ پر بھی ہوا گویا مجھے بھی شوق ہوا کہ کچھ لکھوں ۔حیدر قریشی کی شخصیت میں جنون اور دیوانگی میں نے پہلی مرتبہ انہی دنوں محسوس کی تھی لیکن ان کے جنون اور دیوانگی میں سلیقہ اور روحانیت موجود تھی اس لیے وہ بے ہنگم حرکات نہیں کرتے تھے۔شاید سلیقے اور روحانیت کے لیے ادب پہلا زینہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ادب کی طرف لپکے اور آج کل مکمل نہ سہی بہت حد تک ’’ روحانی ‘‘ ہو چکے ہیں ۔آپ ان کی تخلیقات میں روحانی وارداتوں کو پڑھ سکتے ہیں۔حیدر قریشی کی فطرت میں ’’ سیما بیت ‘‘ شروع سے ہے یہی وجہ ہے کہ ’’ دوست داری ‘‘ میں بھی وہ ذرا ’’ کم زور ‘‘ واقع ہوئے ہیں ۔اُن کے ساتھ ساتھ دوستی قائم رکھنا پڑتی ہے ۔ کیونکہ وہ خود قائم رکھنے میں یقین نہیں رکھتے۔سعید شباب اس لیے آج تک اُن کے دوست ہیں کہ انہوں نے قائم رکھی ہوئی ہے۔میرے ساتھ درجنوں دفعہ دوستی ٹوٹی اور بنی ہے کبھی میں نے جوڑی اور رکھی اور کبھی انہوں نے ۔یوں وقفوں وقفوں کے ساتھ دوستی قائم رہی ہے۔ویسے اس ’’ وقفوں ‘‘ والی دوستی میں بھی میرا ’’ عمل دخل ‘‘ زیادہ ہے ۔آج کل بھی دوستی چل رہی ہے لیکن پتہ نہیں کب وہ ناراض ہو جائیں اور دو تین سال کا وقفہ آجائے۔
ایک روحانی ادبی شخص ہمیشہ مخلص اوربے لوث ہوتا ہے۔حیدر قریشی ایک مخلص اور ادبی شخص تو ہیں ہی مگر مفکر بھی ہیں وہ ہر معاملے پر خوب غور و فکر کرتے ہیں اور اُس کو سلجھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔آپ ان کی تخلیقات میں غور و فکر کی جھلکیاں ملا حظہ کر سکتے ہیں ،وہ محض تخیل کی بنیاد پر اپنی تخلیقات کو وجود میں نہیں لاتے ۔زیادہ تر کائنات انسان اور خدا کی ذات پر غور کرتے ہیں ۔میں یہ باتیں تخیل کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا بلکہ اُن مکالموں کی روشنی میں کہہ رہاہوں جو اُن کے اور میرے درمیان ہوا کرتے تھے۔اُن کی تخلیقات اور مضامین اس حقیقت کے گواہ ہیں۔جب تک وہ میرے شہر خان پور کٹورا میں رہے ایک بے چین گیانی کی طرح رہے ۔میں ان کے ساتھ تھا ۔ہم مستقبل کے منصوبے بنایا کرتے تھے۔وہ مجھ سے بہت آگے تھے اس لیے وہ خان پور سے مجھ سے پہلے ہجرت کر گئے تھے۔بے روزگار ہوئے لیکن بے روزگاری نے اُنکو کندن بنایا اور یوں وہ ایبٹ آباد سے سیدھے جرمنی سدحار گئے ۔آج وہ ’’جرمن شہری ‘‘ ہیں اور ہم ’’ اسلام آبادی ‘‘ ۔ جرمنی جانے سے پہلے وہ ادب میں اپنا مقام و مرتبہ منوا چکے تھے۔وہ ہمیشہ پہلے نقصان کرتے تھے اور پھر نقصان کے فوائد بھی گنواتے تھے ۔مثلاًانہیں بھابھی کے زیور بیچنے کا دکھ تھا مگر اس کے عوض ’’ جدید اد ب ‘‘کی اشاعت اور اس کے پھلنے پھولنے کی خوشی بھی تھی ۔مجھے یاد ہے کہ حیدر قریشی نے جدید ادب سے پہلے ایک نیم ادبی فلمی رسالہ ’’ سنگیت ‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا ۔میں اُن کے معاونین میںشامل تھا ۔سن یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ میں ہشتم کلاس میں تھا اور حیدر قریشی بی۔اے یا ایم ۔اے اُردو کر چکے تھے۔اُس رسالے پر حیدر قریشی کے بہت پیسے لگے تھے۔اس لیے دوسرے شمارے کے شائع کرنے کی نوبت ہی نہ آئی۔حیدر قریشی اُس وقت خان پور کٹورا کے قریب جیٹھہ بھٹہ کی ’’ حئی سنز شوگر ملز ‘‘ میں مزدورکی حیثیت سے کام کرتے تھے اور وہ بھی ’’ سیزنل مزدور ‘‘ کے طور پر۔حیدر قریشی کی اس دیوانگی پر خان پور کے سکہ بند مگر مال دار شعراء و ادباء حیدر قریشی کے ارد گرد جمع ہوئے آج حیدر قریشی بین الاقوامی ادبااور شعراکی فہرست میں ہیں اُن پر بیسیوں تحقیقی مقالات لکھے جا چکے ہیں جبکہ اُن کا نام و نشان محض اُن کے شہر تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
حیدر قریشی ادیب بھی ہیں اور اچھے انسان بھی ہیں ۔وہ پابندِ صوم و صلوٰۃ اور گریہ زاری کرنے والے بھی ہیں۔وہ لوگوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور خود کو اللہ کی مرضی پر چھوڑ دینے کے قائل ہیں۔بدلہ لینا اور دل میں غصہ کرنا اُن کے ضمیر میں شامل نہیں ہے۔ایک مرتبہ خان پور کے ایک نو دولتیے ایڈوکیٹ نے اُن کو تھپڑ رسید کر دیا ۔وجہ محض یہ تھی کہ اُٹھ کر سلام کیوں نہیں کیا ۔میں بھی وہیں موجود تھا ۔میں نے احتجاج کیا۔حیدر قریشی نے مجھے روکا ۔لیکن میں نے اس سارے واقعے کو ہفت روزہ ’’ زندگی ‘‘ لاہور کے صفحات پر پہنچایا۔تاہم حیدر قریشی نے اس معاملے کو اللہ پر چھوڑا ۔آج وہ شخص حیدر قریشی کا نام احترام سے لیتا ہے اور شرمندہ ہے ۔صبر، بر داشت اور حسنِ ظن کی اس سے بڑی مثال نہیں مل سکتی۔
اللہ پاک نے حیدر قریشی کو ایک زرخیز ذہن اور دل عطا کیا ہے۔ اس لیے ذہن سے جو لکھتے ہیں اُس میں معنی خیزیاں اور جہانِ معنی ہوتا ہے ۔ان کے مضامین اور کالم اس حقیقت کے گواہ ہیں ۔جب ذہن سے معنویت کا ایک جہان پیدا ہو جاتا ہے تو علم و عرفان کے چشمے پھوٹتے ہیں ۔حیدر قریشی نے علم کو عرفان اور عرفان کو روحانیت تک پہنچایا ہے ۔ایسا وہی شخص کر سکتا ہے جو ’’ نابغہ ٔ روزگار ‘‘ ہو جو ہر موضوع پر بات کر سکتا ہو۔دل و دماغ کا جب اتصال ہوتا ہے تو پھر ’’ اقبالی ادب ‘‘ پیدا ہوتا ہے ۔اور جب ’’ اقبالی ادب ‘‘ پیدا ہوتا ہے تو غور و فکر کے نئے گوشے وا ہوتے ہیں۔عشق و سر مستی کی بہار آتی ہے۔ اُردو ادب میں سب سے پہلے غالب کے ہاں دل و دماغ کا اتصال ہوا پھر اقبال کے ہاں زیادہ شدت اور سلجھاؤ نظر آ یا۔بعد میں فیض نے بھی اس چشمے سے فیض پایامگر حیدر قریشی بھی اس چشمے کے کنارے پہنچے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اس چشمے سے پانی بھرا ہے۔تخیل میں اگر عقل کی روشنی بھی ہوتو تخلیقات مینارہ ٔ نور بن جاتی ہیں۔
حیدر قریشی کی غربت فکر کو روشنی مہیا کرتی تو اُن کا تخیل انہیں ’’ عشق ‘‘ میں ماورایت کی دنیا میں لے جاتا ہے ۔میں نے حیدر قریشی کی غربت بھی دیکھی ہے اور اُن کا عشق بھی دیکھا ہے ۔یقین مانیے وہ غربت میں بھی اپنے ضمیر کا سودا کرنے کے قائل نہیں رہے اور عشق میں اُس معیار کے قائل رہے جو ’’ راسپو ٹین ‘‘ نہیں بلکہ وارث شاہ بناتا ہے۔میں نے ان کی غربت کی حد بھی دیکھی ہے اور ان کی معشوق کے حسن کے جلوے بھی دیکھے ہیںوہ جلوے جہاں بڑے بڑوں کا ایمان جاتا رہتا ہے۔حیدر قریشی کے بارے میں بہت کچھ کہہ سکتا ہوں مگر صفحات کم ہیں کبھی کتاب کی صورت میں لکھوں گا اگر لکھنے کی مہلت ملی تو
ڈاکٹر نذر خلیق کی کتب
۱۔ حیدر قریشی کی ادبی خدمات
زیر ترتیب کتب
۱۔ اقبال اور بہاولپور
۲۔ اُردو ادب میں سرقہ اور جعل سازی
۳۔ روشن چراغ (خاکے )
۴۔ میری کہانی خطوط کی زبانی ( خطوط)
۵۔ نقوشِ ماضی (کالم)
۶۔ تنقیدی زاویے (مضامین)
۷۔ حیدر قریشی کی تخلیقات کا جائزہ
۸۔ محسن خان پوری کی کتب کا جائزہ
۹۔ تحقیقی مقالات
۱۰۔ بڑے لوگوں سے مکالمہ
( انٹرویو)
٭٭٭٭٭