عقل کو دِل کا تابع ہونا چاہیے یا دِل کو عقل کا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر انسان مخلوق ہے، چاہے فطرت کی ہی اولاد سہی، تو کیا انسان کے بس میں ہے؟ کہ وہ اپنے لیے آپ لکھے، کہ زندگی کیسے گزارنی ہے؟
غلام احمد پرویز کی ایک کتاب، ’’انسان نے کیا سوچا‘‘ اس موضوع پر ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے فلاسفرز نے انسانی معاشرے کے لیے کس قسم کے نظام ہائے زندگی سوچے اور کس کس طرح وہ سب لوگ اس تحقیق میں ناکام رہے۔ کیسے ان کے نظام ناکام ہوئے اور کیسے ان نظام ہائے حیات میں لاینحل قسم کے پیراڈاکس پیدا ہوتے ہیں۔
اس کے بعد پرویز صاحب نے ایک اور کتاب لکھی، ’’خدا نے کیا کہا‘‘۔ اس کتاب میں انہوں نے ثابت کیا کہ انسان کے سوچے ہوئے تمام نظام ناکام ہیں اور کسی معاشرے کے لیے خدا کا بھیجا ہوا نظام ہی کامیاب ہوسکتاہے۔
مندرجہ بالا کتابوں کا ذکر کرنے کے بعد میں یہ عرض کرنا چاہونگا کہ میں اکثر کہتا رہتاہوں،
’’دس ہزار عاقلین مل کر ایک شخص کی آنکھوں میں آنسو یا ہونٹوں پہ مسکراہٹ نہیں لاسکتے جبکہ ایک اکیلا ’’دل والا‘‘ دس ہزار انسانوں کی آنکھوں میں ایک ساتھ آنسو یا اُن کے ہونٹوں پہ ایک ساتھ مسکان کھِلا سکتاہے‘‘
بات یہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں مذہب کی پکار کس طرح ہوتی ہے؟ مذہب کس طرح صدا لگاتاہے۔ مذہب براہِ راست دلوں کو پکارتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اعلیٰ مذاہب کی پکار میں بھی تعقل کا عنصر پایا جاتاہے جیسا کہ بقول پروفیسر وائیٹ ہیڈ،
’’مذہب کا ہردور عقلیت کا دور تھا‘‘
لیکن بنیادی طور پر مذہب کا مخاطب انسانی جذبات ہوتے ہیں یعنی دل ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال جیسے فلسفی، فلسفی ہوکر بھی اپنے فلسفی ہونے سے انکار کردیتے ہیں۔
جنون کا تعلق دل سے ہے۔ ہوش مندی کا تعلق عقل سے ہے۔ کیا دنیا کے سارے انسانوں کو عقل سے سمجھایا جاسکتاہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک وقت آئے جب زمین کےسارے انسان اتنے پڑھے لکھے اور عقلمند بن جائیں جتنے ماشااللہ ہمارے دورِ حاضر کے دانشمند روشن خیال احباب ہیں؟
اگر ایسا کوئی وقت آیا تو پھر تنوع فنا ہوجائے گا۔ یہ بھی اقبال نے ہی لکھاہے کہ،
’’حد سے بڑھا ہوانظم و ضبط کسی بھی معاشرے کی موت ہے‘‘
جنون ہمیشہ انسانی ارتقا کی ضرورت رہیگا۔ مشل فوکو نے کتنا اصرار کیا اس بات پر کہ ’’ہم کون ہوتے ہیں مجنونوں کو مجنون کہنے والے اور انہیں پاگل خانوں میں بند کرنے والے؟ ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے یہ جاننے کا کہ وہ سچ مچ پاگل ہیں؟ ہم نے انہیں پاگل خانوں میں بند کرکے ، انسانوں کو بہت سی نئی باتوں اور نئی چیزوں سے محروم کردیا‘‘
یہ جنون ہی ہے جو انسانوں کو چاند پر لے جاتاہے ۔ ہزارعقلی منصوبے موجود ہوں لیکن جذبہ موجود نہ ہو تو کوئی بھی گیم جیتنا ناممکن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر اہل علم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ’’دل اور عقل‘‘ دونوں کا ہونا ضروری ہے لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوجاتاہے جب یہ سوال اُٹھتاہے کہ ان دونوں میں سے فائق کون ہے؟ عقل یا دل؟ دل عقل کے تابع رہے یا عقل دل کے؟
اقبال کے خطبات میں پہلا خطبہ اسی موضوع پر ہے۔ خطبے کا نام ہے، ’’علم بالحواس و علم بالوحی‘‘۔ یاد رہے کہ وحی عقل کو نہیں دل کو ہوتی ہے۔ تو جو احباب اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو پڑھنا چاہتے ہوں وہ اقبال کا پہلا خطبہ پڑھ لیں، اردو میں یا اصل والا، انگریزی میں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“