عقل اگر بازار سے مل سکتی تو آج سب سے زیادہ کن کے پاس ہوتی؟ …امریکی ریاست منی سوٹا میں ایک چھوٹا سا قصبہ راچسٹر ہے جہاں دنیا کا مشہور ترین ہسپتال میو کلینک ہے۔ ایک روایت کے مطابق دنیا کا پہلا بائی پاس (دل کا آپریشن) وہیں ہوا تھا۔ مشرقی اوسط کے ایک بادشاہ نے (سعودی نہیں) وہاں علاج کرانا تھا۔ راچسٹر کے ایک بڑے ہوٹل کی کئی منزلیں خرید لی گئیں' پھر ان میں تبدیلیاں کی گئیں تاکہ جہاں پناہ کے ''معیارِ زندگی'' سے مناسبت پیدا ہو۔ ان بہت سی تبدیلیوں میں ایک یہ بھی تھی کہ کمروں کے کنڈے تالے' چابیاں' غسل خانوں کی ٹونٹیاں اور وہ چیزیں جن کو ہاتھ سے چھونا پڑتا ہے' خالص سونے کی لگائی گئیں۔ نائن الیون کے بعد حالات بدل گئے' ہوٹل والوں نے یہ چیزیں نیلام میں فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن امریکیوں نے خریدنے سے انکار کر دیا اس لئے کہ زندگی کو آرام دہ بنانے میں انکا کوئی کردار نہیں تھا۔
عقل اگر بازار میں مل سکتی تو آج سب سے زیادہ کن کے پاس ہوتی؟ 27 سالہ سعودی خاتون کپتان ہنادی ذکریا ہندی نے ہوا بازی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پہلی سعودی خاتون پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا شہزادہ الولید بن طلال بہت بڑا بزنس مین ہے۔ اسکی کمپنی کنگ ڈم ہولڈنگ کمپنی کے پاس جیٹ ہوائی جہازوں کا پُورا بیڑہ ہے۔ کمپنی نے ہنادی ذکریا سے دس سالہ معاہدہ کیا اور اسے اپنا پائلٹ بنا کر اسکی مزید تربیت شروع کر دی۔ کمپنی کی شامت اُس وقت آئی جب شہزادہ الولید نے اظہار مسرت کیلئے اخبار میں پورے پورے صفحے کے اشتہارات شائع کرائے سعودی خواتین کو ترقی کا ایک سنگ میل عبور کرنے پر مبارکباد پیش کی۔
عقل اگر بازار سے مل سکتی تو سب سے زیادہ کن کے پاس ہوتی؟ ان اشتہارات سے آگ بھڑک اُٹھی۔ عورت اور وہ بھی مسلمان عورت ۔ اور ہوائی جہاز چلائے …! پارسائی کے اجارہ داروں نے ویب سائٹوں پر قیامت برپا کر دی۔ ان آوازوں میں نمایاں ترین آواز پروفیسر شیخ یوسف الاحمد کی تھی۔ آپ بہت بڑے ماہر فقہ ہیں اور ریاض کی اسلامی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ دلیل یہ تھی کہ عورت کا تنہا سفر کرنا جائز نہیں ہے اور محرم کا ساتھ ہونا لازم ہے اور جہاز اڑاتے وقت محرم ساتھ نہیں ہوگا اس لئے یہ سارا سلسلہ ہی غیر شرعی ہے اور اشتہارات بھی شریعت کے منافی ہیں!
یہ 1990ء کی بات ہے جب شیخ عبدالعزیز بن باز مرحوم نے فتویٰ دیا کہ عورتیں کار نہیں چلا سکتیں۔ اُسی سال 47 باغی عورتوں نے سعودی دارالحکومت ریاض میں آدھ گھنٹہ تک کاریں چلائیں۔ آدھ گھنٹہ اس لئے کہ انہیں زبردستی روک دیا گیا۔ ان خواتین کو ملازمتوں سے نکال دیا گیا اور انکے اور انکے اہل خانہ کے ملک سے باہر سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ عقل اگر بازار سے مل سکتی تو آج سب سے زیادہ کن کے پاس ہوتی؟ اب آپ ریاض کے مسائل کو وہیں چھوڑ دیں اور میرے ہمراہ لاہور چلیں یہ دسمبر کی بات ہے جب راجہ اصغر صاحب کے داماد نے شکاگو سے فون کیا۔ بچے کی ولادت قریب ہے۔ داماد کی امی نے آنا تھا لیکن وہ سخت بیمار ہو گئیں۔ اب اسکے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپ اور آنٹی فوراً پہنچیں۔ راجہ اصغر بیگم کو لیکر امریکی سفارت خانے آئے۔ بیگم کو تین دن میں ویزہ مل گیا لیکن راجہ اصغر صاحب کے نام کے اردگرد امریکی کمپیوٹر نے دائرہ لگا دیا۔ یہ نام کچھ ایسے ناموں کیساتھ خلط ملط ہو رہا تھا جو مشکوک ہیں جب تک معاملات واضح نہیں ہوتے راجہ اصغر صاحب کو ویزہ نہیں ملے گا۔ واقفِ حال لوگوں نے بتایا کہ اس میں ایک ماہ بھی لگ سکتا ہے اور چار ماہ بھی! اب راجہ صاحب کی بیگم کیا کریں؟ محرم کو ویزہ نہیں مل رہا۔ بیٹی کے ہاں شکاگو میں ولادت ہونیوالی ہے' اُسکے پاس کوئی بھی نہیں۔ کیا کیا جائے؟ اگر بغیر محرم کے سفر کریں گی تو شیخ یوسف الاحمد فتویٰ جاری کر دینگے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے!
راجہ اصغر صاحب کی بیگم شکاگو جا سکیں یا نہیں؟ اس مسئلے کو یہیں چھوڑئیے اور ذرا زحمت کر کے میرے ہمراہ سڈنی چلئے۔ نسیمہ اپنے شوہر کیساتھ سڈنی میں رہ رہی ہے۔ نسیمہ کے والدین ڈھاکہ میں ہیں۔ ڈھاکہ سے فون آتا ہے نسیمہ کے والد ہسپتال میں داخل ہیں۔ بے ہوشی کے دورے پڑتے ہیں۔ ہوش آتا ہے تو ایک ہی سوال کرتے ہیں ''نسیمہ کہاں ہے؟ کہ میرے پاس وقت کم ہے۔'' نسیمہ رو رہی ہے۔ بچپن سے لیکر اب تک کے واقعات اُسکی آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ اُسکے والد نے مزدوری کی۔ صحت کو قربان کر دیا لیکن بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور نسیمہ کی اس طرح پرورش اور تربیت کی کہ اُسے اپنے والد سے زیادہ عظیم شخصیت دنیا میں کوئی نہیں دکھائی دیتی۔
وہ شوہر کو کہتی ہے کہ خدا کیلئے میرے ڈھاکہ جانے کا انتظام کرو۔ شوہر فوراً کمپنی کے جی ایم سے بات کرتا ہے۔ جی ایم معذرت کرتا ہے۔ قانون چھٹی کی اجازت نہیں دیتا۔ نوکری شروع کئے چند ہفتے ہوئے ہیں کمپنی کے پاس اس کا نعم البدل بھی ان دنوں نہیں ہے۔ آپکا کیا خیال ہے؟ نسیمہ کو کیا کرنا چاہئے؟ شیخ یوسف الاحمد کیا مشورہ دیتے ہیں؟ کیا وہ بغیر محرم کے سفر کرے؟ تاکہ سڈنی سے ڈھاکہ پہنچ سکے اور مرتے ہوئے باپ کے سینے سے لگ کر دل گیر حسرتوں کی آگ پر پانی کے چھینٹے مارے اور جنت کے دریچوں کو کھلتا ہوا دیکھے جن سے اُس کا اکل حلال کھانے اور کھلانے والا باپ گزرنے والا ہے' یا بغیر محرم کے سفر نہ کرے' سڈنی ہی میں رہے' روئے' غش کھائے…؎
اسیرو! کچھ نہ ہوگا شور و شر سے
لپٹ کر سو رہو زنجیرِ در سے
اور زندگی کے آخری لمحے تک باپ کا چہرہ نہ دیکھنے کا ماتم کرتی رہے ! جب کہا گیا تھا کہ عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے تو یہ وہ زمانہ تھا جب سفر اونٹوں اور گھوڑوں پر ہوتا تھا۔ قافلے لٹتے تھے' راستے میں کھانا پینا' سامان کی حفاظت' اپنا دفاع اور ضروری امور نمٹانے کیلئے محرم کا ساتھ ہونا ضروری تھا لیکن کیا آج سفر کے حالات وہی ہیں؟ کیا ضروری ہے کہ باپ بیٹی کو لینے کیلئے کراچی سے لاس اینجلس جائے؟ شوہر ملازمت کو خیرباد کہہ کر بیوی کو سڈنی سے ڈھاکہ لائے پھر وہاں انتظار کرے اور اسے واپس لیکر جائے؟ امام ابوحنیفہ نے بغداد میں جو تحقیقی مرکز قائم کیا تھا وہاں انکے ہونہار شاگرد اور اس وقت کے جید علما اس کام پر مامور تھے کہ ہزاروں لاکھوں فرضی مسائل جو مستقبل میں پیش آ سکتے ہیں … سامنے رکھ کر غور کریں' تحقیق کریں' بحث کریں' قرآن و سنت' صحابہ کے اعمال و اقوال اور اہل علم کی آرا سب پر غور کریں اور اجتہاد کریں کہ کون سی صورتحال میں کیا کرنا ہوگا۔ آج حج کے دوران شیطان کو کنکر مارنے کیلئے وہاں کا نقشہ ہی بدل دیا گیا ہے اس لئے کہ ایک لاکھ مسلمان جب خدا کے رسولؐ کے ہمراہ آخری حج میں شریک تھے تو صورتحال مختلف تھی اور آج چالیس لاکھ مسلمان ایک مختل صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
عقل اگر بازار سے مل سکتی تو آج سب سے زیادہ کن کے پاس ہوتی؟ مجھے اس سوال کا جواب نہیں معلوم ۔ آپ خود کوشش کر کے معلوم کر لیجئے لیکن میں تو یہ گزارش کر رہا ہوں کہ جب تک اجتہاد نہیں ہوگا اور علماء کرام اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرینگے۔ سوات میں غیر محرم کیساتھ گھر سے نکلنے والی لڑکی کو کوڑے لگتے رہیں گے لیکن جن عورتوں کو بلوچستان میں زندہ دفن کیا گیا اُنکے مجرموں کو کیا سزا دی گئی؟ انہیں زندہ دفن کرنے کا دفاع کرنیوالے کو تو مرکزی کابینہ میں وزیر کا عہدہ دیا گیا اور جس شخص نے 'جرگے' کی صدارت کر کے کم سن بچیوں کو تاوان میں دینے کا حکم دیا وہ بھی وزیر بنایا گیا۔ سوات میں بچی کو کوڑے مارنا یقیناً ظلم ہے۔ ہم اسکی مذمت کرتے ہیں لیکن فیوڈل بن کر ظلم کیا جائے تو کیا وہ ظلم۔ ظلم نہیں رہتا؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ عقل بازار میں دست یاب نہیں !!
http://columns.izharulhaq.net/2009_04_01_archive.html
“