(اسٹیو جابز کی خود نوشت سے ماخوز)
ایپل شائد دنیا کی واحد کمپیوٹر کمپنی ہے جس کے اپنے رٹیل اسٹورز ہیں۔ اس کا کیا پسِ منظر ہے آئیے جانتے ہیں مندرجہ ذیل تحریر میں
اسٹیو جابز ایسی کوئی بھی چیز جو صارف کے احساس (customer experience) کو متاثر کرتی ہو کا کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں دینے سے نفرت کرتا تھا۔ لیکن اُسے ایک مسئلے کا سامنا تھا۔ ایک مرحلہ ایسا تھا جس پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں تھا اور وہ تھا صارف کا ایپل کمپیوٹر خریدتے وقت کا احساس۔
بائٹ شاپ کے دن پورے ہو چکے تھے۔ کمپیوٹر کی صنعت کی سیلز مقامی اسپیشلائزڈ کمپیوٹر شاپس سے میگا chains اور بگ باکس اسٹورز کی طرف منتقل ہو رہی تھی جہاں موجود اکثر سیلز کلرک کو نا ہی ایپل کی پروڈکٹس کی خصوصیت کے بارے میں پتہ تھا اور نا ہی اس کے لئے کوئی حوصلہ افزائی موجود تھی۔ سیلز مین کو صرف اپنے 50$ کے کمیشن سے مطلب تھا۔ دوسرے کمپیوٹرز عمومی نوعیت کے تھے جبکہ ایپل جدید خصوصیات اور مہنگی قیمت کے ساتھ تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ iMac دوکانوں پر Dell اور Compaq کے درمیان شیلف میں لوگوں کو نظر آئے اور ایک بے خبر سیلز کلرک تمام کمپیوٹرز کی تفصیلات ایک ساتھ بیان کرے۔ “جب تک ہمیں اپنا پیغام صارف تک پہنچانے کے راستے نہیں نہیں مل جاتے ہم ناکام تھے” جابز نے کہا۔
انتہائی رازداری کے ساتھ 1999 کے آخر میں جابز نے اُن افراد کے انٹرویو کرنے شروع کئے جو اُس کے خیال میں ایپل کے رٹیل اسٹورز کی چین قائم کر سکتے تھے۔ اُن میں سے ایک اُمیدوار Ron Johnson میں اُسے ڈیزائن کے لئے لگاؤ اور ریٹیل کاروبار کا قدرتی جوش و خروش نظر آیا۔ ران جانسن، ٹارگٹ (امریکہ کا ایک بڑا رٹیل اسٹور) کا مرچنڈائزنگ کا نائب صدر تھا اور جداگانہ نظر آنے والی مصنوعات، جیسے teakettle جسے مائکل گریوز نے ڈیزائن کیا تھا، کو لانچ کرنے کا ذمّہ دار تھا۔ جانسن کو اسٹیو بات چیت کرنے میں بھلا لگا۔ جابز نے جانسن سے کہا اگر ایپل (کمپنی) کو کامیاب ہونا ہے تو اُسے ایجاد و اختراع میں کامیابی حاصل کرنی ہوگی اور یہ کامیابی صارف کیساتھ تعلق استوار کیے بنا نہیں حاصل کی جاسکتی تھی۔
جب جانسن دوسرے انٹرویو کے لئے جنوری 2000 میں واپس آیا تو جابز اُس کو لے کر چہل قدمی کے لئے نکل گیا۔ وہ صبح 8:30 بجے ایک وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے اسٹینفورڈ شاپنگ مال، جس میں 140 دکانیں تھیں، چلے گئے۔ مال میں اُس وقت دکانیں نہیں کھلی تھیں اس لئے اُنھوں نے بار بار مال کے اوپر سے نیچے تک چکّر لگائے، مال کی ترتیب پر تبادلہ خیال کیا، بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز کا چھوٹے اسٹورز کے حوالے سے کیا رول تھا، اور کیوں بعض اسپیشلٹی اسٹورز کامیاب تھے۔
وہ دونوں بات چیت کرتے ہوئے مال میں چہل قدمی کر رہے تھے جب 10 بجے دکانیں کھلیں اور وہ Eddie Bauer (کے اسٹور) میں گئے۔ اُس میں ایک داخلی دروازہ مال کے اندر سے اور ایک پارکنگ سے تھا۔ جابز نے فیصلہ کیا کہ ایپل کے اسٹورز میں صرف ایک داخلی دروازہ ہوگا جو customer experience کو کنٹرول کرنے میں آسانی پیدا کرے گا۔ دونوں کے مطابق Eddie Bauer کا اسٹور لمبا اور تنگ تھا۔ یہ بہت ضروری تھا کہ صارف اسٹور میں داخل ہوتے ہی اسٹور کی ترتیب سے خود کو ہم آہنگ کرلے۔
مال میں کوئی بھی Tech اسٹور نہیں تھا، اور جانسن نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے صارف جب ایک مہنگی خریداری، جیسا کہ کمپیوٹر، کرتا ہے جو اُس کے عام معمول سے ہٹ کر ہوتی ہے تو وہ ایک مشکل محل و وقوع پر واقع اسٹور جانا مشکل تصور نہیں کرتا۔ اس جگہ کا کرایہ بھی کم ہوتا ہے۔ جابز نے جانسن کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ جابز کے خیال میں ایپل کے اسٹورز مالز میں اور مرکزی سڑک پر واقع ہونے چاہئے جہاں لوگوں کا رش زیادہ ہو، چاہے وہ جگہ کتنی ہی مہنگی کیوں نا ہو۔ “ہم صارف کو اس بات پر تو شائد مائل نا کر سکیں کہ وہ دس میل ڈرائیو کر کے ہماری پروڈکٹس کو چیک کرے لیکن ہم اُس کو دس فٹ چلنے کے لئے مائل کر سکتے ہیں” جابز نے کہا۔ خاص طور ونڈوز استعمال کرنے والے۔ “اگر وہ اسٹورز کے سامنے سے گزر رہے ہوں اور اسٹورز اُن کو اپنی طرف اس طرح مائل کرے کہ وہ تجسس کی وجہ سے اسٹورز کا رخ کریں، اور ہمیں اس بات کا موقع مل سکے کہ ہم اُنھیں بتا سکیں کہ ہمارے پاس کیا ہے تو یہ ہماری جیت ہوگی۔”
جانسن نے کہا کہ اسٹور کے سائز کی وجہ سے برانڈ کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ “کیا ایپل Gap کے جتنا بڑا برانڈ ہے؟” اُس نے جابز سے سوال کیا۔ جابز نے کہا کہ اُس سے کہیں بڑا۔ جانسن نے جواب دیا کہ ایپل کے اسٹورز پھر بڑے ہونے چاہئے۔ “ورنہ تمھاری کوئی وقعت نہیں ہوگی” جابز نے مارک مارکیولہ کا maxim بیان کیا کہ ایک اچھی کمپنی کو اپنی اہمیت اور قدروں کا اظہار اپنی ہر چیز، پیکیجنگ سے لے کر مارکیٹنگ میں لازمی کرنا چاہئے۔ جانسن نے اسے بہت پسند کیا۔ اس چیز کا اطلاق کمپنی کے اسٹورز پر بھی ہوتا تھا۔ “اسٹور برانڈ کے سب سے طاقتور اظہار کا ذریعہ بنے گا” اُس نے پیشن گوئی کی۔ اُس نے کہا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو وہ مین ہٹن میں Seventy-second اور میڈیسن پر واقع Ralph Lauren کا لکڑی سے تراشا ہوا اور آرٹ سے مزین مینشن کی طرح اسٹور گیا تھا۔ “میں جب بھی پولو کی شرٹ خریدتا ہوں تو میں اُس مینشن کا تصور کرتا ہوں جو Ralph کے ideals کا عملی اظہار تھا۔” جانسن نے کہا۔ “Gap کے ساتھ یہ مکی Drexler نے کیا۔ آپ صاف ستھری جگہ، wooden floors، اور طے کئے ہوئے کپڑوں کے بغیر گیپ کے اسٹورز کا تصور نہیں کر سکتے”
جب وہ وہاں سے فارغ ہوئے تو وہ ایپل کے دفتر واپس گئے اور ایک کانفرنس روم میں بیٹھ کر ایپل کی پروڈکٹس سے کھیلنے لگے۔ ایک عام اسٹور کے shelves کو بھرنے کے لحاظ سے ایپل کے پاس اتنی پروڈکٹس نہیں تھیں لیکن یہ ایک طرح سے اُن کے لئے فائدہ مند تھا۔ وہ جس قسم کا اسٹور بنانا چاہتے تھے اُس کو ایپل کی کم پروڈکٹس کی وجہ سے فائدہ تھا۔ اس طرح سے لوگوں کو ایپل کی پروڈکٹس کی آزمائش کا زیادہ موقع میسّر آتا۔ “اکثر لوگ ایپل کی پروڈکٹس کو نہیں جانتے،” جانسن نے کہا۔ وہ ایپل کو مخصوص لوگوں کے استعمال میں آنے والی ایک پروڈکٹ سمجھتے تھے۔ جابز ایپل کو سب کے استعمال کے قابل سمجھی جانے والی پروڈکٹ بنانا چاہتا تھا۔ یہ ایک ایسا اسٹور ہوتا جہاں لوگ صرف ایپل کی پروڈکٹس کی آزمائش کرتے اور یہ اسٹورز ایپل پروڈکٹس کی آسانی سے استعمال کئے جانے، اور تخلیقی ہونے کی عملی علامت ہوتا۔
جب جابز نے بالآخر اپنا آئیڈیا بورڈ کے سامنے پیش کیا تو اس پر زیادہ جوش و خروش کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اُن دنوں گیٹ وے کمپیوٹرز نے شہر کے نواحی علاقوں میں رٹیل اسٹورز کھولنے کا تجربہ کیا تھا اور اُن کو نقصان اُٹھانا پڑا تھا لیکن جابز کی دلیل یہ تھی کہ اُس کے اسٹورز بہتر پرفارم کریں گے کیونکہ وہ مہنگے علاقوں میں کھولے جائیں گے۔ “Think different” اور “Here’s to the crazy ones” اچھے اشتہاری سلوگن تو ہوسکتے تھے لیکن اُن کو کارپوریٹ اسٹریٹجی کے طور پر اپنانے سے بورڈ ہچکچا رہا تھا۔ “میں اپنا سر کھُجا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ پاگل پن ہے،” آرٹ لیونسن نے کہا، جو Genentech کا سی ای او تھا اور جس نے 2000 میں ایپل کے بورڈ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ آرٹ کے مطابق ایپل ایک چھوٹی کمپنی تھی اور اُسے یقین نہیں تھا کہ وہ اس چیز کی حمایت کر سکتا تھا۔ ایڈ ولارڈ بھی مشکوک تھا۔ “ گیٹ وے (کمپیوٹرز) نے اس کی کوشش کی تھی اور ناکام رہا تھا جبکہ Dell اپنے کمپیوٹر اسٹورز کو بیچ میں لائے بغیر بیچ رہا تھا اور کامیاب تھا” اُس نے بحث کی۔ جابز بورڈ ممبران کی جانب سے اس حوصلہ شکنی سے خوش نہیں تھا۔ آخری دفعہ جب ایسا ہوا تھا تو اُس نے بورڈ کے اکثر ممبران کو تبدیل کر دیا تھا۔ اس دفعہ کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر اور کچھ جابز کے ساتھ جاری کشمکش سے تھک کر ولارڈ نے بورڈ سے استعفی دے دیا۔ لیکن اُس کے ایسا کرنے سے پہلے بورڈ نے آزمائشی بنیادوں پر چار ایپل اسٹورز کی منظوری دے دی تھی۔
بورڈ میں جابز کا ایک حمایتی موجود تھا۔ 1999 میں اُس نے Millard Drexler جس نے بطور سی ای او Gap اسٹورز کی کایا ہی پلٹ دی تھی، بورڈ میں لیا تھا۔ وہ دنیا کے اُن چند لوگوں میں شامل تھا جو جابز کی طرح ڈیزائن اور امیج کے معاملے میں جابز کی طرح کامیاب تھے۔ ساتھ ہی وہ جابز کی طرح پروڈکٹ کے مکمل کنٹرول کا قائل تھا۔ Gap کے اسٹورز میں صرف Gap کی مصنوعات فروخت کی جاتی تھی۔ Drexler نے ڈپارٹمنٹ اسٹور کے بزنس کو اس وجہ سے چھوڑا تھا کہ وہ اپنی پروڈکٹ پر مکمل کنٹرول نہیں کر پا رہا تھا۔ اسٹیو بھی یہی سوچ رکھتا تھا اور شائد اسی وجہ سے وہ Drexler کو ایپل میں لایا تھا۔
Drexler نے جابز کو ایک مشورہ دیا۔ اور وہ یہ تھا کہ رازداری کے ساتھ ایپل کے اسٹورز کا پروٹو ٹائپ بناؤ، اُس کو آراستہ کرو اور اُس وقت تک اُس کے چکّر لگاتے رہو جب تک تم مطمئن نہیں ہوجاتے۔ تو جانسن اور جابز نے Cupertino میں ایک خالی ویئر ہاؤس کرائے پر لیا۔ اگلے چھ مہینوں تک ہر منگل کو وہ دونوں وہاں جمع ہو کر سوچ و بچار کرتے اور اپنی رٹیل فلاسفی کی نوک پلک سنوارتے۔ وہ جگہ ایپل کے ڈیزائن اسٹوڈیو کے جتنی تھی۔ جابز اُس جگہ کا خود سے دورہ کرنا پسند کرتا تھا۔
بعض دفعہ وہ اپنے اعتماد کے لوگوں کو، جن میں Drexler اور لیری الیسن شامل تھے، اُس جگہ کا دورہ کرواتا تھا۔ جب کئی ویک اینڈز پر جابز الّیسن کو ویئر ہاؤس جانے پر مجبور کیا تو اُس نے آنے سے انکار کردیا۔ الّیسن کی کمپنی Oracle اُس زمانے میں hand held check out system کے لئے سافٹ ویئر ڈیزائن کر رہی تھی۔ اسٹیو نے اس میں گہری دلچسپی لی۔ وہ چاہتا تھا کہ صارف کو ایپل اسٹور میں خریداری کرتے وقت کم سے کم قدم اُٹھانے پڑیں۔ اگر آپ ایپل کے اسٹورز کو دیکھیں تو اس میں آپ کو اسٹیو کا خوبصورتی اور سادگی سے لگاؤ نظر آئے گا۔
جب Drexler پروٹو ٹائپ اسٹور کو دیکھنے کے لئے آیا تو اُسے کئی چیزیں ایسی لگیں جن سے صارف کی توجہ پروڈکٹ سے ہٹ سکتی تھی۔ اُس نے کہا کہ صارف کے لئے رٹیل space میں چہل قدمی کی جگہ ہونی چاہئے اور اور ایک نظر میں اُسے اسٹور کی ترتیب سمجھ میں آجانی چاہئے۔ جابز نے اس بات کی حمایت کی۔ ان سب چیزوں کے نتیجے میں جابز ایسا اسٹور بنانے کی پوزیشن میں آگیا جہاں وہ customer experience کو مکمل کنٹرول کرسکتا تھا۔
اکتوبر 2000 میں جبکہ پروٹو ٹائپ اسٹور بنانے کا عمل مکمل ہونے والا تھا ایک رات جانسن بیدار ہوا اور اُس کو اس سوچ نے گھیر لیا کہ کوئی بنیادی چیز غلط ہے۔ وہ اسٹور کو ایپل کی مختلف پروڈکٹ کے اردگرد ترتیب دے رہے تھے۔ لیکن جابز نے ایک نئے تصور پر کام کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ تصور کمپیوٹر کے اردگرد گھومتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں آپ کا کمپیوٹر آپ کے کیمرے کی وڈیوز اور تصویروں کا انتظام کرتا اور کسی دن آپ کے میوزک پلیئر، گانے، کتابیں اور میگزین بھی۔ جانسن نے جو آدھی رات اُٹھ کر سوچ و بچار کی تھی اُس کے مطابق اسٹور کو کمپنی کی چار پروڈکٹ کے اردگر نہیں ترتیب دینا چاہئے بلکہ ایسی چیزوں کے اردگرد بھی جو لوگ کرنا چاہیں۔ مثال کے طور پر ایک ایسی جگہ ہونی چاہئے کہا کئی Macs اور پاور بکس iMovie کے سافٹویئر کو چلائیں اور لوگوں کو پتہ چلے کہ وہ کس طرح اپنے وڈیو کیمرے سے وڈیو امپورٹ کرسکتے ہیں اور اُن کو ایڈٹ کر سکتے ہیں۔
جانسن اُس منگل کو آفس جلدی پہنچا اور جابز کو اپنے نئے خیالات سے آگاہ کیا جن کے مطابق اُن کو اسٹور کو ازسرِ نو ترتیب دینا پڑے گا۔ جانسن نے اس سے قبل جابز کے غصے کے بارے میں سن رکھا تھا لیکن اب تک اس کا سامنا نہیں کیا تھا۔ جابز بھڑک اُٹھا۔اُس نے کہا کہ اُس نے اتنی محنت سے چھ مہینے اسٹور کو ڈیزائن کرنے کا کام کیا اور اب جانسن چاہتا ہے کہ ہر چیز بدل دی جائے۔ جابز اچانک خاموش ہوگیا۔ “میں تھک گیا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں ایک اور اسٹور ازسرِ نو ڈیزائن کر سکتا ہوں۔
جانسن بلکل خاموش ہوگیا۔ اور جابز چاہتا بھی یہی تھا کہ جانسن خاموش رہے۔ جب وہ پروٹو ٹائپ اسٹور کی طرف روانہ ہوئے جہاں دیگر افراد منگل کی ہفتہ وار میٹنگ کے لئے جمع ہوتے تھے تو جابز نے جانسن سے کہا کہ وہاں پہنچ کر وہ بلکل خاموش رہے گا اور اپنے نئے خیالات کا اظہار نہیں کرے گا۔ اس لئے دورانِ سفر مکمل خاموشی رہی۔ جب وہ وہاں پہنچے تو جابز، جانسن کی تجاویز کا جائزہ لے چکا تھا۔ “میں جانتا تھا کہ ران صحیح تھا،” جابز نے یاد کیا۔ اُس وقت جانسن کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب جابز نے میٹنگ میں یہ ابتدائیہ کلمات کہے۔ “ران سمجھتا ہے کہ ہم نے سب کچھ غلط سمجھا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اسٹور کو پروڈکٹ کے اردگرد ترتیب دینے کی بجائے اُن چیزوں کے ارد گرد ترتیب دینا چاہئے جو لوگ کرنا چاہتے ہیں۔” ایک لمحے کے لئے جابز رکا پھر اُس نے کہا، “اور کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ صحیح کہ رہا ہے۔” اُس نے کہا وہ (اسٹور کی) ازسرِ نو ترتیب کریں گے، اس کے باوجود کہ ایسا کرنے سے اُن کا جنوری میں اسٹور کا افتتاح کرنے کا منصوبہ تین یا چار ماہ کے التوا کا شکار ہوجائے گا۔ “ہمارے پاس صرف ایک موقع ہے کہ ہم اُسے صحیح طور پر کریں۔”
جابز کہانیاں سنانے میں ماہر تھا، اور اُس نے اُس روز بھی اپنی ٹیم کو کہانی سنائی کہ کیسے اس سے قبل جو چیزیں اُس نے کی ہیں اُس میں ایسا موقع آجاتا تھا کہ اُسے اپنا کام ازسرِ نو شروع کرنا پڑتا تھا۔ ہر دفعہ ایسا ہوا تھا کہ اُس کوئی ایسی چیز دوبارہ کرنی پڑی جو وہ سمجھتا تھا کہ پر فیکٹ نہیں ہے۔اُس نے اُن کو Toy Story اور Macintosh کی مثال دی۔ “اگر کوئی چیز درست نہیں ہے تو آپ اُسے یہ کہ کر نظر انداز نہیں کرسکتے کہ آپ اُسے بعد میں درست کریں گے،” اُس نے کہا۔ “دوسری کمپنیاں یہی کرتی ہیں۔”
جب ازسرِنو ترتیب دیا ہوا پروٹو ٹائپ جنوری میں مکمل ہوگیا تو اُس نے بورڈ کو پہلی دفعہ اُس کو دیکھنے کی اجازت دی۔ اُس نے اسٹور کے ڈیزائن کے پیچھے کار فرما تصورات کو ایک وائٹ بورڈ پر اسکیچ کے ذریعے سمجھایا۔ پھر اُس نے بورڈ ممبرز کو ایک وین میں بٹھا کر اسٹور دکھانے لے گیا۔ جب اُنھوں نے جابز اور جانسن کا ڈیزائن کردہ اسٹور دیکھا تو سب نے متّفقہ طور پر اُس کی منظوری دے دی۔ بورڈ اس بات پر متفق ہوا کہ نیا اسٹور ریٹیلنگ اور برانڈ امیج کو ایک نئے اُفق پر لے جائے گا۔ اور اس بات کو بھی یقینی بنائے گا کہ صارفین ایپل کمپیوٹرز کو Dell اور Compaq کی طرح عام سی کموڈیٹی پروڈکٹ نا سمجھیں۔
لیکن باہر کے اکثر ماہرین نے اس آئیڈیے کو ناقابلِ عمل قرار دیا۔ کسی نے کہا لگتا ہے جابز نے مختلف انداز میں سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ ایک رٹیل کنسلٹنٹ نے ایپل کے اسٹورز کو دو سال دئیے کہ اُس کے بعد یہ اسٹورز بند ہوجائیں گے۔
مئی 19، 2001 میں ایپل کے پہلے اسٹور کا ٹائی سن کارنر، ورجینیا میں افتتاح ہوا۔ اس میں کاؤنٹر سفید رنگ کے تھے اور فرش bleach لکڑی کا تھا اور ایک بڑا “Think Different” کا پوسٹر موجود تھا۔ اکثر ماہرین کا اندازہ غلط ثابت ہو۔ گیٹ وے کمپیوٹرز کے اسٹورز میں اوسطً 250 لوگ ایک ہفتے کے دوران آتے تھے جبکہ سن 2004 میں ایپل اسٹورز میں 5,400 لوگ فی ہفتہ آتے تھے۔ اُسی سال ایپل اسٹورز کو 1.2$ بلین کی آمدنی ہوئی جو ریٹیل انڈسٹری میں ایک ریکارڈ تھا۔ہر اسٹور میں ہر چار منٹ بعد سیلز کا حساب کتاب کیا جاتا تھا تاکہ مینوفیکچرنگ، سپلائی، اور سیلز میں ہم آہنگی لائی جاسکے۔
جیسے جیسے اسٹورز ترقّی کرتے گئے جابز اُن کے ہر پہلو سے وابستہ رہا۔ Lee Clow یاد کرتے ہیں جب اسٹورز کھلنے والے تھے، اسٹیو نے آدھے گھنٹے ہم سے اس بات پر غور کروایا کہ ریسٹ روم کی سائن میں گرے رنگ کا کونسا شیڈ ہوگا۔ ایپل کے اسٹورز اگرچہ Bohlin Cywinski Jackson کی آرکیٹیکچرل فرم نے ڈیزائن کئے تھے لیکن جابز نے سارے بڑے فیصلے کئے۔
جابز کی خاص توجہ سیڑھیوں کی طرف تھی۔ جابز نے اس سے قبل بھی، جب وہ NeXT کمپیوٹر میں تھا سیڑھیوں پر کافی کام کیا تھا اور اس حوالے سے اُس نے پیٹنٹ بھی فائل کئے تھے۔ جب 1985 میں اُس کو ایپل سے نکال دیا گیا تھا اُس نے اٹلی کا دورہ کیا تھا اور وہاں وہ فلورنس کی سائڈ واک پر سُرمئی پتھر سے بڑا متاثر ہوا تھا۔ اُس نے اُن پتھروں کا استعمال اسٹور میں کیا۔ اُس کے بعض ساتھیوں نے اُسے مشورہ بھی دیا کہ وہ کنکریٹ کے ذریعے بھی اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہے جو انتہائی کم قیمت میں دستیاب ہوگا۔
ایپل اسٹور کی ایک اور خصوصیت Genius Bar ہے۔ اس کا خیال جانسن کو فور سیزن اور رٹز کارلٹن ہوٹل کے استقبالیہ کو دیکھ کر آیا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ ہم اس پر ایپل کے ذہین لوگوں کو رکھ سکتے ہیں۔
جابز نے اس آئیڈیے کو پسند نہیں کیا۔ اُس نے کہاں تم اُن لوگوں کو Genius نہیں بلکہ Geek کہ کر پکار سکتے ہو۔ جانسن اپنے آئیڈئیے کو رد کئے جانے سے مایوس ہوگیا لیکن اگلے دن جب وہ ایپل کے جنرل کاؤنسل کی طرف گیا تو اُس نے بتایا کہ جابز نے “Genius Bar” کے لفظ کو ٹریڈ مارک کے طور پر رجسٹر کرانے کے لئے کہا ہے۔
صحیح معنوں میں 2006 میں مین ہٹن کی ففتھ ایوینیو پر کھلنے والے اسٹور میں جابز نے اپنے کئی خیالات کو عملی جامع پہنایا۔ اس اسٹور کو پہلے سال ہر ہفتے تقریباً پچاس ہزار افراد نے وزٹ کیا۔
جابز نے ایپل اسٹورز کے لئے اتنا ہی جوش و خروش پیدا کیا جیسا وہ اپنی کسی پروڈکٹ کے لئے کرتا تھا۔ لوگ ایپل کے اسٹورز کو دیکھنے کے لئے دور دراز سے سفر کرنے لگے اور ایپل کے اسٹورز کے سامنے رات گزارنے لگے تاکہ اگلے دن وہ سب سے پہلے اسٹور کو دیکھیں۔
جولائی 2011 تک یعنی پہلے ایپل اسٹور کے کھلنے کے دس سال بعد ایپل اسٹورز کی تعداد 326 ہو چکی تھی۔ سب سے بڑا اسٹور کونٹ گارڈن لندن کا ہے جبکہ ٹوکیو میں سب سے اُونچا اسٹور ہے۔ ایک اسٹور کی اوسط سالانہ آمدنی 34$ ملّین ہے جبکہ 2010 کے مالی سال کے لئے خالص آمدنی 9.8$ بلین تھی۔ ایپل اسٹورز کا حصہ اگرچہ ایپل کی آمدنی میں صرف %15 تھا لیکن اُن اسٹور کی وجہ سے ایپل کمپنی کا اپنے صارفین سے تعلق بنا اور براہ راست اپنا پیغام اپنے صارفین تک پہنچا پائے۔
اگرچہ 2011 میں جابز کینسر کے مرض سے نبرد آزما تھا لیکن وہ اپنا اکثر وقت مستقبل کے اسٹورز کے خاکے بنانے میں گزارتا تھا۔ خاص طور پر اُس اسٹور کے جو وہ نیو یارک شہر کے گرینڈ سینٹرل ٹرمینل میں بنانا چاہتا تھا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...