ساٹھ کی دہائی کے آخر میں امریکہ میں سان فرانسسکو اور سانٹا کلارا وادی میں ٹیکنالوجی کا انقلاب جنم لے رہا تھا۔ اس انقلاب کو لانے میں ملٹری کنٹریکٹر، الیکٹرانکس فرم، مائکرو چِپ بنانے والے، وڈیو گیمز ڈیزائنر، اور کمپیوٹر کی کمپنیز شامل تھیں۔ اُس وقت ایک ہیکر کلچر بھی موجود تھا جو wireheads، phreakers، cyberpunks، hobbyists، اور geeks پر مشتمل تھا— جو عام لوگوں سے ہٹ کر سوچتے تھے۔ یہاں ایک نیم اکیڈمک گروپ تھا جو LSD (League for Spiritual Discovery) کے اثرات کا مطالعہ کر رہے تھے، اِن میں Doug Englbart تھے جو پالو آلٹو میں Augmentation Research Centre میں کام کرتے تھے اور اُنھوں نے آگے چل کر کمپیوٹر mouse اور گرافیکل یوزر انٹرفیس (GUI) کے بنانے میں مدد کی تھی۔ اس کے علاوہ Ken Kesey تھے جو ڈرگس کے ساتھ ساتھ میوزک اور لائٹ کا شو کرتے تھے جس میں ایک مقامی بینڈ جلوہ گر ہوتا تھا جو آگے چل کر “Grateful Dead” کے نام سے مشہور ہوا۔ وہاں ایک ہپّی تحریک تھی جو بے ایریا سے اُبھری تھی، اور باغی سیاست کے کارکن تھے جنھوں نے برکلے کی فری اسپیچ موومنٹ سے جنم لیا تھا۔ اِن سے اوپر ذاتی روشن خیالی کی راہ پر گامزن جین، ہندوازم، meditation، اور یوگا، primal scream and sensory deprivation ، Easlen and est کی تحریکیں تھیں۔
روشن خیالی اور ٹیکنالوجی، flower power اور processor power کے ملاپ کی جسمانی شکل اسٹیو جابز تھا جو صبح meditate کرتا تھا، دن میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں فزکس کی کلاسز کا آڈٹ کرتا تھا، رات کو Atari (وڈیو گیمز بنانے والی کمپنی) میں کام کرتا تھا اور اپنا کاروبار شروع کرنے کا خواب دیکھا کرتا تھا۔ جابز کے بقول اُس جگہ اور اُس وقت کچھ ہو رہا تھا۔ وہاں سے بہترین میوزک the Grateful Dead, Jefferson Airplane, Joan Baez, Janis Joplin، کی شکل میں سامنے آیا، اسی طرح integrated circuit اور the Whole Earth Catalog سامنے آئے۔
ابتدا میں ٹیکنالوجسٹ اور ہپّیز ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر پائے۔ اُن میں سے کئی کمپیوٹر کو پینٹاگون اور پاور اسٹرکچر کا حصہ سمجھتے تھے۔ “The Myth of the Machine” نامی کتاب میں تاریخ دان Lewis Mumford نے خبردار کیا تھا کہ کمپیوٹر ہماری آزادی چھین رہے ہیں اور زندگی کو بڑھانے والی قدروں کو تباہ کر رہے ہیں۔ اُس زمانے میں پنچ کارڈز پر لکھی ایک عبارت —“Do not fold, spindle or mutilate” —جنگ کے مخالف لیفٹسٹ کا محاورہ بن گیا تھا۔
لیکن 70 کی دہائی کے اوائل میں ایک تبدیلی رُونما ہوئی اور کمپیوٹر کو بیوروکریٹک آلہ کار کی بجائے انفرادی اظہار اور آزادی کی علامت سمجھا جانے لگا۔ اس صورتحال کی ابتدائی عکّاسی رچرڈ Brautigan کی 1967 کی نظم “All Watched Over by Machines of Loving Grace” میں ہوتی ہے جبکہ بعد کی صورتحال کی عکّاسی موسیقار بونو نے اُن الفاظ میں کی “Turn on, boot up, Jack in” ۔ بونو بعد میں جابز کے دوست بنے اور جو اکثر جابز کے ساتھ اس موضوع پر تبادلہ خیال کرتے تھے کہ ایسا کیونکر ہوا کہ Bay ایریا کے وہ افراد جو راک -ڈرگس- باغیانہ سرگرمیوں میں ڈوبے ہوئے تھے اُنھوں نے جاکے پرسنل کمپیوٹر کی صنعت کے بننے میں مدد دی۔ ایسا اس لئے ہوا کہ وہ دنیا کو مختلف نظروں سے دیکھتے تھے۔ East Coast، انگلستان، جرمنی، اور جاپان کا hierarchy کا نظام مختلف سوچنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا تھا۔ ساٹھ کی دہائی نے ایسی باغیانہ ذہنیت پیدا کی جو اُس دنیا کو تصور کرنے کے قابل تھی جو ابھی وجود میں نہیں آئی تھی۔
ایک شخصیت ایسی تھی جو مختلف سوچنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی تھی اور اسٹیورٹ برانڈ کی تھی۔ اسٹیورٹ ایک وژنری شخص تھا اور LSD کے مطالعہ میں ساٹھ کے اوائل سے شامل تھا۔برانڈ کے مطابق اُس کی جینیریشن کی اکثریت کمپیوٹر کو ایک کنٹرول کرنے والے آلے کے طور پر دیکھتی تھی۔ لیکن ایک چھوٹی تعداد —جن کو بعد میں ہیکرز کہا گیا— نے کمپیوٹرز کو اپنایا اور اس کو آزادی کے آلہ کے طور پر استعمال کیا۔ برانڈ ایک اسٹور The Whole Earth Truck Store چلاتا تھا جس کی شروعات ایک گھومنے پھرنے والے ٹرک کے طور پر کی گئی تھی اور جو تعلیمی مواد اور کام آنے والے آلہ جات فروخت کرتا تھا۔ 1968 میں اُس نے اپنی پہنچ بڑھانے کے لئے Whole Earth Catalog نامی رسالہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس رسالے کے پہلے سرِورق پر خلا سے زمین کی لی گئی مشہورِ زمانہ تصویر شائع کی گئی تھی۔ اُس کا ذیلی ٹائٹل “Access to Tools” تھا۔ اس کا بنیادی فلسفہ “ٹیکنالوجی ہماری دوست ہوسکتی ہے” تھا۔ برانڈ نے رسالے کے پہلے ایڈیشن کے پہلے صفحے پر لکھا تھا ایک ایسی طاقت جنم لے رہی ہے جو فرد کو یہ طاقت بخشے گی کو وہ اپنی تعلیم خود حاصل کرسکے، اپنی inspiration خود ڈھونڈھ سکے، اپنے ماحول کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکے، اور اپنے ایڈونچر جس کے ساتھ وہ چاہتا ہے شیئر کرسکے۔ وہ آلے (tools) جو اس عمل کے ہونے میں مدد کرسکیں اُن کی تشہیر اس رسالے (Whole Earth Catalog)کے ذریعے کی جاتی تھی۔
اسٹیو جابز اس رسالے کا مدّاح بن گیا۔ اُس کو رسالے کے آخری شمارے نے خاص طور پر متاثر کیا جو 1971 میں شائع ہوا تھا۔ اسٹیو اس رسالے کو اپنے ساتھ کالج لے گیا اور پھر All One Farm جہاں وہ اکثر جایا کرتا تھا۔ جابز نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اُس رسالے کے بیک کور پر صبح کے وقت کی ایک وادی میں سے جاتی ہوئی سڑک کی تصویر تھی۔ یہ کچھ اس طرح سے تھی جس پر آپ ہائیکنگ کرنا پسند کرتے۔ اُس کے نیچے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے “Stay Hungry. Stay Foolish.”. برانڈ کے مطابق جابز رسالے کے مقاصد کی عملی تصویر تھا۔ وہ باغیانہ مزاج اور ٹیکنالوجی کا مرکب تھا۔ اُس نے “آلات انسان کے کام آنے کے لئے ہیں” کے خیال کو سمجھ لیا تھا۔
برانڈ کا کیٹلاگ Portola انسٹیٹیوٹ کے تعاون سے شائع ہوتا تھا۔ یہ ایک فاؤنڈیشن تھی جو کمپیوٹر کی تعلیم کی فروغ کے لئے کام کر رہی تھی۔ اس فاؤڈیشن نے “پیپلز کمپیوٹر کمپنی” کی لانچ میں بھی مدد کی تھی جو بنیادی طور پر کمپنی نہیں بلکہ ایک نیوز لیٹر اور “Computer power to the people” کے موٹو کے ساتھ ایک آرگنائزیشن تھی۔ یہاں پر کبھی کبھار بدھ کے دن potluck ڈنر ہوتے تھے۔ اس کے شرکاء میں سے گورڈن فرنچ اور فریڈ موور نے طے کیا کہ ایک باضابطہ کلب بنایا جائے جہاں personal electronics کے متعلق خبریں شیئر کی جاسکیں۔
اُن کے ارادے کو جنوری 1975 کے “پاپولر مکینکس” میگزین نے مزید تقویت دی جس کے سرّورق پر پہلی پرسنل کمپیوٹر کی کِٹ،آلٹیئر (Altair) کی تصویر تھی۔ آلٹیئر 495$ کی ایک کٹ تھی جس میں موجود الیکٹرانکس کے بورڈز کو آپس میں solder کر کے معمولی سا کام لیا جاسکتا تھا لیکن کمپیوٹر کا مشغلہ رکھنے والوں اور ہیکرز کے لئے یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ بِل گیٹس اور پال ایلن نے میگزین کو پڑھا اور آلٹیئر کی کٹ کے لئے ایک آسانی سے استعمال کی جانے والی پروگرامنگ لینگویج BASIC پر کام شروع کردیا۔ اس نے جابز اور ووزنیاک کی توجہ بھی اپنی طرف مبذول کروالی۔ اور جب آلٹیئر کی کٹ پیپلز کمپیوٹر کمپنی میں پہنچی تو وہ فرنچ اور موور کے قائم کئے جانے والے کلب کی پہلی میٹنگ کا مرکزی نکتہ بن گئی۔
اس کلب کا نام Homebrew Computer Club پڑ گیا۔ یہ ایک تبادلہ خیال کی جگہ بن گئی۔ موور نے 5 مارچ 1975 کو فرنچ کے گیراج میں منعقد ہونے والی پہلی میٹنگ کے لیے پمفلٹ تیار کیا جو کچھ اس طرح تھا: “کیا آپ اپنا کمپیوٹر بنا رہے ہیں؟ ٹرمینل، ٹی وی، ٹائپ رائٹر؟ اگر ہاں تو آپ اپنے ہم خیال لوگوں کی مجلس میں آنا پسند کریں۔”
ایلن بام (Alan Baum) نے HP کے بلیٹن بورڈ پر اس پمفلٹ کو پڑھا اور ووزنیاک کو اُس کے بارے میں بتایا جس نے اُس کے ساتھ جانے کی حامی بھر لی۔ “وہ رات میری زندگی کی اہم راتوں میں سے ایک ثابت ہوئی”، ووزنیاک نے یاد کرتے ہوئے کہا۔ اُس رات تقریباً تیس اور لوگ وہاں آئے اور فرنچ کا گیراج لوگوں سے بھر کر اُبل پڑا تھا کہ لوگ باہر بھی کھڑے تھے۔ سب نے اپنی اپنی دلچسپیوں کے بارے میں باری باری بتایا۔ ووزنیاک، جس نے بعد میں اعتراف کیا کہ وہ گھبرایا ہوا تھا، نے بتایا کہ اُس نے وڈیو گیمز، pay movies for hotels، سائنٹیفک کیلکولیٹر، اور ٹی وی ٹرمینل کے ڈیزائن کو پسند کیا۔ وہاں پر نئے Altair کا بھی مظاہرہ کیا گیا لیکن ووزنیاک کے نزدیک مائکروپروسیسر کی specification sheet کو دیکھنا زیادہ اہم تھا۔
جیسے اُس نے مائکروپروسیسر کے بارے میں سوچا —جو کہ ایک چِپ ہے جس پر پورا سینٹرل پروسیسنگ یونٹ موجود ہے—اُس کو گہرائی میں جاکر اُس کا پتہ چلا۔ وہ کی بورڈ اور مانیٹر کے ساتھ ایک ٹرمینل ڈیزائن کر رہا تھا جو دُور موجود ایک منی کمپیوٹر سے connect ہوتا۔ مائکروپروسیسر کا استعمال کر کے وہ منی کمپیوٹر کی کچھ capacity ٹرمینل کے اندر ہی رکھ سکتا تھا جس کے نتیجے میں وہ desktop پر ایک چھوٹا stand-alone کمپیوٹر بن سکتا تھا۔ یہ ایک پائیدار خیال تھا: کی بورڈ، اسکرین، اور کمپیوٹر سب کے سب ایک integrated پرسنل پیکج میں۔ “یہ مکمل پرسنل کمپیوٹر کا ایک تصور میرے دماغ میں آیا” ووزنیاک نے کہا، “اُس رات میں نے ایک کاغذ پر اسکیچ بنانا شروع کیا جو بعد میں Apple I کے نام سے جانا گیا۔”
شروع میں اُس نے آلٹیئر میں موجود Intel 8080 پروسیسر استعمال کرنے کا ارادہ کیا لیکن آلٹیئر میں استعمال ہونے والے ایک مائکرو پروسیسر کی قیمت اُس کے ایک مہینے کے کرائے سے زیادہ تھی تو اُس نے متبادل کی تلاش شروع کی۔ اُس کو ایک مائکروپروسیسر Motorola 6800 ملا جس کو HP میں موجود اُس کے ایک دوست نے 40$ میں لاکر دیا۔ اُس کے بعد اُس نے MOS Technologies کا بنایا ہوا چِپ دریافت کیا جو electronically بلکل ویسا ہی تھا لیکن اُس کی قیمت 20$ تھی۔ اس کی وجہ سے اُس کی مشین سستی تو ہوجاتی لیکن اُس کی طویل مُدّت میں قیمت زیادہ تھی کیونکہ انٹیل کی چِپ آگے جاکر انڈسٹری کا اسٹینڈرڈ بنی اور ایپل کمپیوٹرز اُن سے مطابقت نہیں رکھ پاتے۔
ہر روز کام کے بعد ووزنیاک گھر جاکر ڈنر کرتا اور پھر واپس HP جا کر اپنے پرسنل کمپیوٹر کے تخیّل پر کام کرتا۔ اُس نے اپنے cubicle پُرزے پھیلا رکھے تھے اور اُن کو کس جگہ رکھنا ہے کے بارے میں سوچتا اور اُن کو اپنے motherboard پر سولڈر کرتا۔ اُس کے بعد اُس نے سافٹ ویئر لکھنا شروع کیا جس کے ذریعے مائکروپروسیسر نے اسکرین پر images ڈسپلے کرنے تھے۔ چونکہ وہ کسی کو سافٹویئر لکھنے کی قیمت نہیں ادا کرسکتا تھا اس لئے اُس نے خود سے کوڈ لکھے۔ ایک دو مہینوں کے بعد وہ اس کو ٹیسٹ کرنے کے لئے تیار تھا۔ “میں نے کی بورڈ کی کچھ keys سے ٹائپ کیا اور میں ششدر رہ گیا ! حروف اسکرین پر نظر آ رہے تھے”۔ وہ اتوار، جون 29، 1975، کا دن تھا جو پرسنل کمپیوٹر کے لئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ “ایسا تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا تھا،” ووزنیاک نے بعد میں کہا،”کہ کسی نے کی بورڈ پر کیریکٹر ٹائپ کئے ہوں اور اُسے عین اپنے سامنے اپنے ہی کمپیوٹر کی اسکرین پر ظاہر ہوتے ہوے دیکھا ہو۔”
اسٹیو جابز اس سے کافی متاثر ہوا۔ اُس نے ووزنیاک پر سوالات کی بوچھاڑ کردی: کیا کمپیوٹر کو نیٹ ورک کے ذریعے connect کیا جاسکتا ہے؟ کیا میموری کی اسٹوریج کے لئے کمپیوٹر کے ساتھ ڈسک لگائی جاسکتی ہے؟ وہ ووزنیاک کی پُرزے حاصل کرنے میں بھی مدد کرنے لگا۔ خاص طور پر dynamic random-access memory chips حاصل کرنے میں۔ جابز نے کچھ کالیں کی اور انٹیل سے کچھ چپس مفت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔”اسٹیو کچھ اسی طرح کا بندہ تھا،” ووزنیاک نے کہا۔ “میرا مطلب ہے وہ جانتا تھا کہ سیلز ریپریزیٹیٹو سے کس طرح بات کرنی۔ میں ایسا کبھی نہیں کرسکتا تھا۔ میں بہت شرمیلا ہوں۔
جابز نے ووزنیاک کے ساتھ Homebrew کلب جانا شروع کردیا۔ وہ ٹی وی مانیٹر کو اُٹھا کر اُس کے ساتھ جاتا اور اُسے وہاں اُس کی چیزوں کو سیٹ کرنے میں مدد دیتا۔ اب اس میٹنگ نے سو سے زائد افراد کی توجہ اپنی جانب مرکوز کر لی تھی اور اب یہ فرنچ کے گیراج کی جگہ اسٹینفورڈ لینیئر ایکسیلیٹر سینٹر کے آڈیٹوریم میں مُنعقد ہونے لگی تھی۔ اُس وقت اُن میٹنگز کی صدارت Lee Felsenstein کرتے تھے جو انجینیئرنگ اسکول کے ڈراپ آؤٹ تھے اور فری اسپیچ موومنٹ میں شریک رہے تھے اور جنگ مخالف ایکٹیوسٹ تھے۔
ووزنیاک کلب کی میٹنگز میں بات کرنے سے بہت شرماتا تھا لیکن میٹنگز کے بعد لوگ اُس کی مشین کے اطراف جمع ہوجاتے تھے اور وہ بڑے فخر سے اپنے کام کے بارے میں لوگوں کو بتاتا تھا۔ موور (Moore) چاہتا تھا کہ کلب ایک ایسی جگہ ہو جہاں خیالات کا تبادلہ کیا جائے نا کہ اس جگہ کو کاروبار کے لئے استعمال کیا جائے۔ ووزنیاک نے بتایا کہ کلب کی تھیم “دوسروں کی مدد کرنا تھا”۔ یہ بات ہیکر کلچر سے مطابقت رکھتی تھی کہ معلومات مفت میں میسّر ہونا چاہئے۔ “میں نے ایپل ون اس لئے ڈیزائن کیا تھا کہ میں اُسے لوگوں کو مفت میں دینا چاہتا تھا”، ووزنیاک نے کہا۔
بل گیٹس اس خیال سے متفق نہیں تھا۔ جب اُس نے اور پال ایلن نے آلٹیئر کے لئے BASIC انٹرپریٹر مکمّل کر لیا تو وہ اس بات پر بہت ناراض تھا کہ ہوم بریو گروپ کے ممبر اُس کو بنا قیمت ادا کئے اُسے کاپی اور شیئر کر رہے تھے۔ تو اُس نے گروپ ممبرز کے نام ایک خط لکھا جو کلب کا مشہور خط بن گیا۔ “جیسا کہ کلب کے اراکین کی اکثریت جانتی ہوگی، آپ میں سے اکثر نے سافٹ ویئر (BASIC) چوری کیا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟… آپ (کے اس عمل)نے ایک اچھے سافٹ ویئر کو لکھے جانے سے روکا ہے۔اُن حالات میں کوئی بھی پروفیشنل کام کس طرح جاری رکھ سکتا ہے؟… میں کسی کے بھی جانب سے پیسے ادا کرنے کے خط کی تعریف کروں گا۔”
اسٹیو جابز نے بھی اس خیال کو قبول نہیں کیا تھا کہ ووزنیاک کی تخلیقات، چاہے وہ بلیو باکس ہو یا کمپیوٹر، مفت میں میسّر ہوں۔ تو اُس نے ووزنیاک کو اپنی schematic کی کاپیاں ایسے ہی نا دینے کے لئے قائل کیا۔ جابز کا کہنا تھا کہ اکثر لوگوں کے پاس اُن چیزوں کے بنانے کا وقت نہیں ہے تو کیوں نا ہم پرنٹڈ سرکٹ بورڈز بنا کر انھیں بیچیں۔ یہ ایک طرح سے اُن دونوں کے تعلق کی مثال تھی۔ “میں جب بھی کبھی کوئی اچھی چیز بناتا تھا جابز اُس کے ذریعے ہمارے لئے پیسہ بنانے کا راستہ نکال لیتا تھا،” ووزنیاک نے کہا۔ ووزنیاک نے اس بات کو قبول کیا کہ وہ اکیلا ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔”کمپیوٹر کو بیچنے کا خیال میرے ذہن سے کبھی نہیں گُزرا۔ یہ اسٹیو ہی تھا جس نے کہا کہ اُن کو بیچ کر دیکھتے ہیں”۔
جابز نے ایک منصوبہ بنایا کہ اٹاری میں موجود ایک بندہ کو جسے وہ جانتا تھا سرکٹ بورڈ draw کرنے کے لئے ادائیگی کی جائے اور پھر پچاس کے لگ بھگ بورڈز پرنٹ کئے جائیں۔ اُن پر 1000$ کی لاگت آتی اور ساتھ میں ڈیزائنر کو فیس دینی پڑتی۔ وہ اُنھیں 40$ فی پیس کے بیچ سکتے تھے اور اس میں اُنھیں 700$ کا فائدہ تھا۔ ووزنیاک کو یقین نہیں تھا کہ وہ سارے پرنٹڈ سرکٹ بورڈز کو بیچ سکتے ہیں۔ وہ پہلے ہی کرائے کی مد میں دئیے جانے والے اپنے چیکس کے باؤنس ہونے کی وجہ سے مُشکل میں تھا اور اُسے ہر ماہ کا کرایہ نقد ادا کرنا پڑ رہا تھا۔
جابز، ووزنیاک کو اپیل کرنا جانتا تھا۔ وہ اُس سے بحث نہیں کرتا تھا کہ وہ یقیناً پیسے بنا لیں گے بلکہ وہ اُسے ایک فن ایڈونچر کی طرح لینے کا کہتا تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے پیسے ضائع بھی چلے جاتے ہیں تو کم سے کم زندگی میں ایک دفعہ ہماری کمپنی تو ہوگی۔ اس خیال نے ووزنیاک کو بھی پُرجوش کردیا کہ دو بہترین دوست ایک کمپنی شروع کریں گے۔
کمپنی کھولنے کے لئے سرمایہ جمع کرنے کے لئے ووزنیاک نے اپنا HP65 کیلکولیٹر 500$ میں ایک خریدار کو بیچنے کی کوشش کی جس نے آخر میں اُس سے یہ آدھی قیمت میں لیا۔ اپنا حصہ ادا کرنے کے لئے جابز نے اپنی والکس ویگن 1500$ میں فروخت کردی لیکن اُس کا خریدار دو ہفتے بعد ہی آگیا کہ اس کا انجن خراب ہوگیا ہے۔ جابز نے آدھا خرچہ اُٹھانے کی حامی بھر لی۔ ان چھوٹی چھوٹی رکاوٹوں کے باوجود اُن دونوں کے پاس 1300$ کا سرمایہ، پروڈکٹ کا ڈیزائن، اور ایک منصوبہ تھا۔ اب وہ اپنی کمپیوٹر کمپنی شروع کرسکتے تھے۔
اب جب کہ وہ اپنی کمپنی شروع کرنا چاہتے تھے تو اُس کے لئے اُنھیں اُس کے نام کی ضرورت تھی۔ اُنھوں نے مختلف ناموں پر غور کیا جیسے Matrix, Executek، اور انتہائی سادہ نام جیسے Personal Computer Inc. کمپنی کا نام فائنل کرنے کی ڈیڈلائن کمپنی کے پیپرز فائل کرنے تک تھی۔ آخرِ کار جابز نے کمپنی کا نام “ایپل” تجویز کیا۔ اُس کا پسِ منظر یہ تھا کہ وہ پھلوں کی غذا پر تھا اور اُسی وقت ایپل کے فارم سے لوٹا تھا۔ اس کی ایک اور وجہ تھی کہ فون بُک میں اُن کی کمپنی کا نام اٹاری سے پہلے آتا۔ جابز نے ووزنیاک سے کہا کہ اگر اگلی سہ پہر تک کوئی اور نام اُن کے ذہن میں نہیں آتا تو اُنھوں نے کمپنی کا نام “ایپل” ہی رکھنا ہے۔
ووزنیاک کاروبار کے لئے سارا وقت دینے کے لئے تیّار نہیں تھا۔ وہ دل سے HP کمپنی کا ملازم تھا تو اُس نے سوچا کہ اُسے دن میں اپنی نوکری برقرار رکھنی چاہئے۔جابز نے یہ محسوس کیا کہ اُس کے اور ووزنیاک کے درمیان کسی بات پر اختلاف ہونے پر معاملات سے کس طرح نمٹا جائے گا جس پر اُس نے اپنی کمپنی اٹاری میں اپنے ایک دوست ران وائن، جنھوں نے ایک دفعہ سلاٹ مشین کی کمپنی شروع کی تھی، کو ساتھ ملایا۔
وائن جانتا تھا کہ ووزنیاک سے HP کی جاب چھڑوانا آسان نہیں ہوگا اور نا ہی اُس وقت اس کی ضرورت تھی۔ اہم بات یہ تھی کہ ووزنیاک کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ اُس کے کمپیوٹر کے ڈیزائن ایپل کمپنی کی ملکیت ہوں گے۔ اس کے برخلاف ووزنیاک یہ چاہتا تھا کہ اُس کے وضع کردہ ڈیزائن HP بھی استعمال کر سکے اور وہ دوسری مصنوعات میں بھی استعمال کرسکے۔ وائن کے مطابق اُنھوں نے اور جابز نے یہ محسوس کیا کہ یہ سرکٹ ایپل کمپیوٹر کی بنیاد ہونگے۔ اُنھوں نے اس بات پر وائن کے اپارٹمنٹ میں دو گھنٹہ تک گفتگو کی اور ووزنیاک سے اس بات کو قبول کروایا۔ اُس کا موقف یہ تھا کہ ایک عظیم انجینئر کو اُسی وقت یاد رکھا جاسکتا ہے جب وہ ایک عظیم marketer کے ساتھ کام کرے اور اس کے لئے اُسے اپنے ڈیزائن ایپل کمپنی کے لئے مُختص کرنے پڑیں گے۔ جابز وائن کے ووزنیاک کو قائل کرنے سے بڑا متاثر ہوا اور اس نے وائن کو کمپنی میں %10 شیئر کی پیشکش کی۔
وائن نے کہا کہ دونوں کی شخصیت بہت مختلف تھی لیکن وہ ایک مضبوط ٹیم تھے۔ووزنیاک ایک کم گو اور شرمیلا شخص تھا جبکہ جابز لوگوں میں گھلنے ملنے والا اور اُن سے کام نکالنا جانتا تھا۔ “میں کبھی بھی لوگوں سے ڈیل نہیں کرنا چاہتا تھا” ووزنیاک نے کہا۔ جابز اس کے مقابلے میں لوگوں سے سختی سے بات کر سکتا تھا۔ لیکن ووزنیاک کے بقول جابز نے کبھی اُس سے تُرش لہجے میں بات نہیں کی۔
اس کے باوجود کے ووزنیاک اپنے ڈیزائن کو ایپل کمپنی کی ملکیت میں دینے کے لئے تیار ہو گیا تھا لیکن پھر بھی اُس کا یہ ماننا تھا کہ اُسے سب سے پہلے یہ ڈیزائن HP کمپنی کے سامنے رکھنے چاہئے کیونکہ اُس نے یہ ڈیزائن HP کمپنی میں رہتے ہوئے بنائے تھے۔ تو اُس نے 1976 کے موسمِ بہار میں HP میں اپنے مینیجرز کو اپنے ڈیزائن دکھائے۔ HP میں سینیئر ایگزیکٹو اُس کے ڈیزائن سے متاثر ضرور ہوئے لیکن وہ اس طرح کے ڈیزائن نہیں تھے جن کو HP کمپنی بناتی۔ “مجھے مایوسی ہوئی” ووزنیاک نے کہا، “لیکن اب میں ایپل کمپنی میں پارٹنرشپ کے لئے آزاد تھا۔
اپریل 1، 1977 کو جابز اور ووزنیاک، ماؤنٹین ویو میں وائن کے اپارٹمنٹ گئے تاکہ شراکت داری کا معاہدہ بنایا جاسکے۔ وائن کو اس طرح کی دستاویزات بنانے کا کچھ تجربہ تھا تو اُس نے تین صفحات پر مشتمل معاہدہ تیار کیا۔ تینوں کے حصّے واضح تھے یعنی جابز اور ووزنیاک کی 45, 45 فیصد جبکہ وائن کا حصہ %10۔ یہ طے پایا گیا کہ 100$ سے زیادہ کے خرچے کے لئے دو پارٹنرز کی منظوری درکار ہوگی۔ اس کے علاوہ ذمّہ داریوں کا بھی تعین کیا گیا۔ ووزنیاک کے ذمّہ الیکٹریکل انجینئرنگ کا بڑا حصہ تھا، جابز کی ذمّہ داریوں میں الیکٹریکل انجینئیرنگ کے عمومی معاملات اور مارکیٹنگ تھی، جبکہ وائن کے ذمّہ مکینیکل انجینئرنگ کا بڑا حصہ اور ڈاکیومنٹیشن تھا۔ تینوں نے اپنے اپنے انداز میں معاہدے پر دستخط کئے۔
وائن اس کے بعد وسوسوں کا شکار ہوگیا۔ جب جابز نے زیادہ رقم اُدھار لینے اور خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا تو وائن کو اپنی پہلی کمپنی کی ناکامی یاد آئی۔ وہ دوبارہ اس طرح کی صورتحال سے نہیں گزرنا چاہتا تھا۔ جابز اور ووزنیاک کے کوئی ذاتی اثاثے نہیں تھے لیکن وائن (جو گلوبل فائنانشل آرماگاڈون کے بارے میں فکر مند رہتا تھا) نے اپنے میٹرس میں سونے کے سکّے چھپا رکھے تھے۔ کیونکہ اُنھوں نے کمپنی کو کارپوریشن کی بجائے پارٹنرشپ کی شکل میں بنایا تھا اس لئے سارے پارٹنر اُدھار میں لئے جانی والی رقوم کے ذمّہ دار تھے اور وائن کو خوف تھا کہ دیوالیہ ہونے کی صورت میں سب اُس کے پیچھے آتے۔ تو وہ معاہدہ ہونے کے محض گیارہ دن بعد ہی سانٹا کلارا کاؤنٹی کے آفس آیا اور پارٹنرشپ سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا۔ وائن کو اُس کے حصے کے مطابق پہلے 800$ اور پھر 1500$ کی ادائیگی کی گئی۔
اگر تو وائن اپنے حصہ سے دستبردار نہیں ہوتا تو 2010 کے آخر میں اُس کے %10 اثاثوں کی قیمت 2.6$ بلین ڈالر ہوتی۔ لیکن اُس وقت وہ نیواڈا، پاہرمپ میں واقع اپنے چھوٹے سے گھر میں رہ رہا ہے۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ اُسے اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔
ایپل کمپنی کے قیام کے بعد جابز اور ووزنیاک دونوں Home Brew Club میں اکٹھے پریزنٹیشن دیتے۔ ووزنیاک اپنے نئے تیار کردہ سرکٹ بورڈ کو اُٹھا کر سرکٹ بورڈ، 8 کلو بائٹ کی میموری اور BASIC کا ورژن جو اُس نے لکھا تھا کی تفصیلات بیان کرتا۔ وہ اپنے بنائے گئے کی بورڈ جس سے انسان آسانی سے ٹائپ کرسکتا تھا کی خاص طور پر وضاحت کرتا تھا۔ اُس کے بعد جابز کی باری آتی جو یہ بتاتا کہ ایپل کے اندر Altair کے مقابلے میں تمام پُرزے built in ہیں۔ اس کے بعد وہ موجود لوگوں سے سوال کرتا کہ لوگ اس قسم کی مشین کے لئے کتنی قیمت ادا کرنا پسند کریں گے۔
حاضرین کچھ زیادہ متاثر نہیں تھے۔ اس کی ایک وجہ شائد یہ تھی کہ ایپل میں Intel 8080 مائکروپروسیسر نہیں تھا۔ لیکن ایک شخص ایسا تھا جو اُن کو مزید سننے کے لئے رک گیا۔ اُس کا نام Paul Terrell تھا اور 1975 میں اُس نے کمپیوٹر کا ایک اسٹور Byte Shop کے نام سے کھولا تھا۔ ایک سال کے بعد اُس کے تین اسٹور تھے اور وہ پورے ملک میں اپنے اسٹورز کی چین بنانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ جابز نے بڑے جوش و خروش سے پال کو اپنے کمپیوٹر کی تفصیلات کے بارے میں بتایا۔ پال کافی متاثر ہوا اور جاتے ہوئے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیتے ہوئے گیا کہ “رابطے میں رہو”۔
جابز دوسرے ہی دن Byte Shop میں ننگے پیر ہی چلاگیا اور پال سے 50 کمپیوٹرز کا آرڈر حاصل کیا۔ لیکن پال نے ایک شرط رکھی تھی۔ وہ محض 50$ کے پرنٹڈ سرکٹ بورڈز نہیں چاہتا تھا، جن کو خریدنے کے بعد لوگوں کو بازار سے chips خرید کر اسمبل کرنا پڑتا۔ اس طرح زیادہ لوگوں کی بجائے صرف شوقین مزاج لوگ ہی اس طرف متوجہ ہوتے۔ اس کی بجائے وہ مکمل اسمبل شدہ بورڈز چاہتا تھا اور وہ ہر piece کے لئے 500$ نقد، ڈلیوری کے وقت، ادا کرنے کے لئے تیار تھا۔
جابز نے فوراً ووزنیاک کو HP میں فون کرکے اس آفر کے بارے میں بتایا جو حیران و ششدر رہ گیا۔”میں اُس لمحے کو کبھی نہیں بھولوں گا” ووزنیاک نے کہا۔ اس آرڈر کو مکمّل کرنے کے لئے اُن لوگوں کو 15,000$ مالیت کے پُرزے درکار تھے۔ ایلن بام اور جابز کے والد 5000$ بطور قرضہ دینے کے لئے تیار ہوگئے۔ جابز نے بینک سے قرضہ لینے کی کوشش کی لیکن بینک مینیجر نے اُس کی شکل دیکھ کر ہی اُسے قرضہ دینے سے انکار کردیا۔ جابز Haltek کمپنی گیا اور پُرزے فراہم کرنے کی صورت میں ایپل کمپنی میں شیئر دینے کی پیشکش کی اور کمپنی کے مالک نے اُنھیں چند لاؤبالی نوجوان سمجھ کر اُن کو انکار کردیا۔ اٹاری میں Alcorn صرف اُسی صورت میں chips دینے کے لئے تیار تھا جب وہ نقد ادا کریں۔ بالآخر پال نے Cramer الیکٹرانکس کے مینیجر جو اس بات کے لئے راضی کیا کہ وہ پال ٹیریل کو کال کرے اور اس بات کی تصدیق کرلے کہ اُس نے جابز کو 25,000$ کا آرڈر دیا ہے۔ پال اُس وقت ایک کانفرنس میں تھا جب اُس نے اعلان سنا کہ اُس کے لئے ایک ایمرجنسی کال ہے۔ Cramer کے مینیجر نے اُسے کہا کہ دو نوجوان اُس کے پاس آئے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس Byte Shop کا آرڈر ہے۔ کیا یہ صحیح ہے۔ پال نے جابز کی بات کی تصدیق کی اور Cramer الیکٹرانکس جابز کو تیس دن کے لئے پُرزے اُدھار پر دینے کے لئے تیار ہو گیا۔
لاس آلٹوس میں موجود جابز کا گھر اُن پچاس Apple I بورڈز کے لئے اسمبلی کی جگہ بن گیا جو Byte Shop کو تیس دن کے اندر ڈلیور کرنے تھے اور اُن کو اس کی ادائیگی ملنی تھی۔ جابز اور ووزنیاک کے ساتھ ساتھ تمام میسّر افراد جن میں Daniel Kottke، جابز کی سابقہ گرل فرینڈ الیزبتھ ہولمز اور جابز کی حاملہ بہن پیٹی (Patty) اس کام کے لئے جمع کئے گئے۔ Patty کا خالی کردہ بیڈروم، کچن کی ٹیبل، اور گیراج کو کام کرنے کی جگہ قرار دیا گیا۔ ہولمز جو جوئیلری کی کلاسز لے چکی تھی اُس کو chips کی soldering کی ذمّہ داری دی گئی۔ ہولمز نے ویسے تو صحیح کام کیا لیکن کچھ بورڈز پر flux آگیا جس پر جابز نے اُس کو soldering سے ہٹا کر کچن میں bookkeeping اور پیپر ورک کے کام پر لگادیا کیونکہ وہ کوئی بھی پُرزہ ضائع کرنے کا متحمّل نہیں ہوسکتا تھا۔ جابز نے پھر soldering خود کی۔ جب ایک بورڈ مکمّل ہوجاتا تو اُسے ووزنیاک کو دے دیا جاتا جو اُسے ٹی وی اور کی بورڈ کے ساتھ پلگ کرتا تاکہ تصدیق کر سکے کہ وہ صحیح کام کر رہا ہے۔ اگر وہ صحیح نکلتا تو اُسے ایک باکس میں رکھ دیا جاتا لیکن اگر وہ صحیح نہیں نکلتا تو ووزنیاک اُس میں پتہ لگاتا کہ کونسی پن جُڑنے سے رہ گئی ہے۔
پال جابز (اسٹیو جابز کے والد) نے عارضی طور پر اپنے گیراج میں پُرانی گاڑیوں کی ریپیئر کا کام روک دیا تھا تاکہ ایپل کی ٹیم کام کرسکے۔ اُنھوں نے ایک پرانی ورک بنچ کام کرنے کے لئے ڈال دی تھی، ایک پلاسٹر بورڈ کی وال پر schematic آویزاں کی گئی تھی، اور درازیں بنائی تھیں جن میں پُرزے رکھے جا سکتے تھے۔ کمپیوٹر بورڈز کو سخت گرمی کے لئے بھی ٹیسٹ کیا جارہا تھا جس کے لئے پال جابز نے heat lamps پر مشتمل burn box بنایا تھا۔ اس دوران میں کبھی کبھار گرما گرمی بھی ہوجاتی تھی اور پال جابز اسٹیو کو ٹھنڈا ہونے کا مشورہ دیتا تھا۔ کام کے دوران وقفوں میں اسٹیو اور kottke باہر لان میں جا کر گٹار بجاتے تھے۔
کلارا جابز نے اپنا پھیلے ہوے گھر کو اپنے بیٹے اسٹیو کی خاطر قبول کرلیا تھا۔ لیکن وہ گھر میں بہت سارے لوگوں کی موجودگی سے پریشان تھیں۔ وہ اسٹیو کے کم کھانا کھانے پر بھی پریشان تھیں وہ اُسے صحتمند دیکھنا چاہتی تھیں۔
جب درجن کے قریب بورڈز کو ووزنیاک نے پاس کردیا تو جابز اُن کو لے کر بائٹ شاپ گیا۔ پال Terrell اُن کو دیکھ کر قدرے مایوس ہوا کیونکہ اُس میں کوئی پاور سپلائی، کیس، مانیٹر، یا کی بورڈ نہیں تھا۔ وہ قدرے بہتر چیز کی توقع کر رہا تھا۔ لیکن بالآخر وہ جابز سے ڈیلوری وصول کرنے اور ادائیگی کرنے کے لئے تیار ہوگیا۔
تیس دن کے بعد ایپل منافع بخش ہوگیا تھا۔ وہ بورڈز کو ابتدائی تخمینے سے بھی کم میں بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے کیونکہ کچھ پارٹس اُن کو انتہائی سستے مل گئے تھے۔ جو پچاس بورڈز اُنھوں نے بائٹ شاپ کو فروخت کئے تھے اُسے حاصل شدہ رقم سے وہ سو بورڈز بنانے کا میٹریل لے سکتے تھے۔ اب وہ بقایا پچاس بورڈز بنا کر اور اُنھیں اپنے دوستوں اور Home Brew کلب کے ممبروں کو بیچ کر حقیقی منافع کما سکتے تھے۔
الزبیتھ اب ایپل کی باقائدہ پارٹ ٹائم بُک کیپر بن گئی تھی وہ 4$ فی گھنٹہ پر ہفتے میں ایک دفعہ سان فرانسسکو سے کام کرنے کے لئے آتی تھی۔ ایپل کمپنی حقیقی معنوں میں ایک کمپنی نظر آئے اس کے لئے جابز نے ایک answering سروس کی خدمات حاصل کر لی تھی۔
ووزنیاک نے بورڈ کے دوسرے ورژن کے بارے میں سوچنا شروع کردیا تھا اس لئے پہلی مشین کو وہ Apple I کے نام سے پکار رہے تھے۔ جابز اور ووزنیاک Camino Real جاتے تھے تاکہ وہ الیکٹرانکس اسٹورز کے ذریعے اپنی مشین بکوا سکیں۔ بائٹ شاپ کو پچاس بورڈز بیچنے اور اپنے دوستوں کو بقایا پچاس بورڈز بیچنے کے علاوہ وہ مزید سو بورڈ دکانوں پر بیچنے کے لئے بنا رہے تھے۔ ووزنیاک اور جابز دونوں کی سوچ میں فرق تھا۔ ووزنیاک چاہتا تھا کہ وہ بورڈز کو اُتنی ہی قیمت میں فروخت کردیں جتنی اُن پر لاگت آرہی ہے لیکن جابز سنجیدگی کے ساتھ منافع کمانا چاہتا تھا۔ جابز کی رائے نے فوقیت حاصل کی۔ جابز قریبا تین گنا منافع پر بورڈز بیچتا تھا اور 500$ اُس نے بورڈز کی ہول سیل قیمت رکھی تھی جبکہ رٹیل ریٹ پر %33 مارک اپ رکھا تھا جس کے نتیجے میں بورڈز کی قیمت 666.66$ تھی۔ 2010 میں Apple l کا ایک بورڈ 213,000$ میں نیلام ہوا۔
ایپل ون کے اوپر پہلا فیچر Interface نامی رسالے کے جولائی 1976 کے شمارے میں شائع ہوا۔ جابز اور اُس کے دوست بدستور جابز کے گھر میں بورڈز بنا رہے تھے لیکن فیچر میں جابز کو ڈائیریکٹر آف مارکیٹنگ اور Atari کمپنی کا سابقہ کنسلٹنٹ بتایا گیا تھا۔
اب Altair کے علاوہ اُن کے مدِ مقابل مزید کمپنیاں آگئی تھی جن میں IMSAI 8080، اور Processor Technology Corporation کا بنایا ہوا SOL-20۔ اس کو Homebrew کلب کے ممبران Lee Felsenstein اور Gordon French نے ڈیزائن کیا تھا۔ اُن سب کے پاس موقع تھا کہ وہ 1976 میں لیبر ڈے کے موقع پر نیو جرسی کے شہر اٹلانٹک سٹی میں ہونے والے سالانہ پرسنل کمپیوٹر فیسٹیول میں حصہ لیں۔ اسٹیو اور ووزنیاک نے فلاڈلفیا کے لئے TWA کی فلائٹ لی۔ وہ اپنے ساتھ ایپل ون اور دوسرے کمپیوٹر، جس پر ووزنیاک کام کر رہا تھا، کا پروٹو ٹائپ لے کر گئے۔ اُن کی نشستوں سے پیچھے Felsenstein بیٹھا ہوا تھا جس نے ایپل ون کی طرف دیکھا اور اُسے “thoroughly unimpressive” قرار دیا۔
نمائش کے دوران ووزنیاک نے اپنا بیشتر وقت ہوٹل کے کمرے میں اپنے نئے پروٹو ٹائپ پر کام کرتے ہوئے گزارا۔ اُسے نمائش میں کھڑے ہوتے ہوئے شرم آرہی تھی Daniel Kottke نے نمائش میں آنے کے لئے ٹرین لی تھی اور وہ جابز کی غیر موجودگی میں ٹیبل پر کھڑا ہوتا تھا۔ جابز نمائش میں موجود مدِ مقابل کو دیکھنے کے لئے نمائش گاہ کا چکّر لگاتا تھا۔ اُسے نمائش میں موجود دوسرے کمپیوٹرز نے متاثر نہیں کیا، ہاں SOL20 کچھ بہتر تھا۔ اُس کا ایک چمکتا ہوا میٹل کیس تھا، ایک کی بورڈ، ایک پاور سپلائی اور کیبلز تھیں۔ ایسا نظر آتا تھا کہ اُسے سلجھے ہوئے لوگوں نے ڈیزائن کیا ہے۔ ایپل ون دوسری طرف اپنے بنانے والوں کی طرح تھوڑا اُجڈ سا نظر آتا تھا۔