تیرہ اپریل 2029ء بروز جمعہ کو ایپوفس 99942 ایسٹرائڈ زمین کے بالکل پاس سے گزرے گا ۔ 1120 فٹ کے برابر کسی جسم کا ہماری زمین سے صرف اکتیس ہزار کلومیٹرز کا فاصلہ رہ جائے گا اتنا قریب کہ زمین سے بھیجے گئے کئی سیٹلائٹ بھی اس سے دور ہیں ۔
ایپوفس اپنے بڑے سائز اور زمین کے اتنا پاس سے گزرنے کی وجہ سے اتنا واضح ہو گا کہ دو بلین لوگ اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ پائیں گے ۔
یہ پہلے جنوبی کرے میں ایک روشن ستارے کی مانند طلوع ہو کر مشرق سے مغرب کی طرف اپنا سفر کرتے ہوئے پہلے آسٹریلیا اور پھر بحر ہند کے اوپر سے ہوتا ہوا افریقہ سے گزرے گا ۔
خوش قسمتی سے یہ تاریخی اور شاندار نظارہ خطرناک نہیں ہو گا جیسا کہ سائنسدان خیال کر رہے تھے کہ اس کا زمین سے ٹکرانے کا خدشہ ہے ۔
جب یہ خطرہ ٹل گیا تو پھر بھی سائنسدان پر یقین نہیں تھے کہ زمین کی کشش ثقل کا اس سیارچے پہ کتنا اثر ہو سکتا ہے ۔
رچرڈ بنزل جو کہ کیمبرج میں سیاریاتی سائنسدان کے پروفیسر ہیں انکا کہنا ہے کہ ایپوفس کا تعلق ممکنہ طور پر ان خطرناک سیارچوں سے ہے جن کا مدار زمین کے بہت قریب آ جاتا ہے اور اس دہائی کا سب سے نزدیک ترین سیارچہ ہونے کی وجہ سے ایپوفس زمین کو کسی خطرے کی طرح لاحق سیارچوں کی فہرست میں شامل ہے ۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایپوفس زمین سے نہیں ٹکرائے گا ۔
چونکہ اب سائنسدانوں کو یقین ہے کہ ایپوفس سے زمین کو کوئی خطرہ نہیں لیکن اس سے پہلے یہ سیارچے سترہ سال تک خطرناک سیارچوں کی فہرست میں موجود رہا ہے اور اس کے بار بار کے چکروں کی وجہ سے یہ سائنسدانوں کے لئے اہم ہے ۔
ایپوفس 19 جون 2004ء کو رائے ٹکر، ڈیوڈ جے تھولن اور فیبریزیو برنارڈی کی ٹیم نے دریافت کیا اس وقت اس کو 2004MN4 شناخت کیا گیا ۔ شروع میں کچھ تکنیکی مسائل اور موسم کی خراب صورتحال کی وجہ سے ٹیم اس کو صرف دو دن تک دیکھ پائی لیکن جلدی اس سیارچے کے بارے میں سائنسدانوں نے مزید ریسرچ کر لی ۔
2005ء میں سیارچے کو یونانی دیوتا ایپوفس کا نام دیا گیا جو ایک بڑے سانپ کی شکل کا ہے اور جب سورج کا دیوتا را آسمان پر چکر لگا رہا ہوتا ہے تو وہ اس کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ اسی سال بنزل جس ٹیم کا حصہ تھا انھوں نے اس کا رنگ اور ترتیب دریافت کر لی اور انھوں نے کہا کہ یہ شہاب ثاقب کی سب سے عام قسم سے ملتا ہے جو کہ زیادہ تر پتھروں اور سیلیکیٹ سے بنے ہوتے ہیں ۔
ناسا نے اسکو پتھریلے سیارچے کا نام دیا اس پر لوہا اور نکل جیسی دھاتیں پائی جاتی ہیں اس کی شکل لمبی اور دو لوبز والی ، ایک پتھریلی مونگ پھلی کے جیسی ہے ۔ یہ 4.6 بلین سالوں سے سیاریاتی بیلٹ میں موجود ہے غالبا یہ سیاروں کے تصادم کے نتیجے میں وجود میں آیا اور اسی تصادم کے نتیجے میں رفتار پکڑ کر اپنے موجودہ مدار میں داخل ہو گیا جو کہ زمین سے قریب ہے ۔
ایپوفس کی دریافت کے بعد جب یہ پتہ چلا کہ اسکا مدار زمین کے کتنا قریب ہے تو سائنسدانوں کو فکر ہو گئی 2004ء میں یہ مشاہدہ تھا کہ 2029 ء میں اس سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کے 2.7 فیصد چانس ہوں گے ریڈارز سے ان مشاہدات پر مزید تحقیق سے اگرچہ یہ چانس مزید کم ہو گئے لیکن پھر بھی ایپوفس کا زمین سے ٹکرانے کا خطرہ برقرار رہا ۔ 2006ء میں ایپوفس کے 2029ء میں زمین سے ٹکرا جانے والے اندازے کو مکمل غلط کہہ دیا گیا لیکن 2068ء میں اسکے چکر کے بارے میں ابھی کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا تھا ۔ 2029ء کے بعد اس کی رفتار زمین کی کشش کی وجہ سے متاثر ہو گی ۔ سائنسدان چونکہ 2015ء سے 2019ء تک اس کو سورج کے بہت نزدیک روشنی میں ہونے کی وجہ سے دیکھ ہی نہیں پائے اس لئے 2068ء کے بارے میں پورے یقین سے ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ سیارچہ واقعی اپنے نام کی طرح خطرناک ہی ہے۔
جب یہ سیارچہ ہمارے ستاروں سے دور ہٹا تو اسکا بہتر طور پر مشاہدہ کیا گیا اور سائنسدانوں کی ٹیم اسکی رفتار سے آخر کار یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئی کہ 2068ء میں یہ زمین پر کس طرح اثر انداز ہو گا ۔
ایپوفس کو مختلف خلا ایجنسیوں کی خطرے کی فہرست میں سے نکالنا اتنا آسان نہیں تھا اس کے لئے بہت زیادہ مشاہدے کی ضرورت تھی سائنسدانوں نے راڈار اور بصری دوربینوں سے 2021ء تک ڈیٹا اکٹھا کیا اور پھر ایپوفس کی رفتار کے بارے میں ناسا کی جانب سے بیان جاری کیا گیا ۔ ایپوفس کو جب سے دریافت کیا گیا ہے تب سے ہی مسلسل مشاہدے میں رکھا گیا ہے اور تمام دنیا کے ماہر فلکیات دانوں سے حاصل کردہ ڈیٹا کو انالائز کرنے کے بعد اسکے اپریل 2029ء کے زمین کے پاس آنے کے بارے میں بیانات جاری کئے گئے ہیں ۔ ٹیم نے ایپوفس کا سورج کے گرد چکر ناپا ہے جو کہ 0.9 سے لے کر 1.2 سالوں پر محیط ہے ۔ اب تک کے ڈیٹا کو دیکھنے کے بعد سائنسدانوں کی جانب سے ایک ماڈل بنایا گیا ہے جس میں یہ پتہ چلتا ہے کہ 2029ء اور 2068ء میں زمین کے قریب آنے سے کشش ثقل اس پر کیسے اثر کرے گی سائنسدان اس ماڈل کے ذریعے مزید سو سالوں تک یہ اثر جانچ سکتے ہیں ۔
زمین اور ایپوفس کے نزدیک آنے کا اثر دیکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے جبکہ ہمارے پاس پہلے سے ایسا کوئی ریکارڈ بھی موجود نہیں سوائے چھیاسٹھ ملین سال قبل ٹکرانے والے شہاب ثاقب کے اور اس طرح کے تصادم کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانا اتنا آسان نہیں ہوتا اس کے لئے بہت سے عوامل مدنظر رکھنے پڑتے ہیں جن میں سیارچے کا سائز ،حجم ،رفتار اور کس زاویے سے ٹکرائے گا یہ سب شامل ہیں۔
امپیریل کالج لندن کے زمینی سائنس اور انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر گیرتھ کولنز کا کہنا ہے کہ ایپوفس کے زمین سے ٹکرانے کے چانس تو نہیں ہیں لیکن اس کے اثرات 340 میٹر تک محسوس ہوں گے ۔ سائز اور رفتار کے ساتھ ساتھ ہدف کی جگہ بھی بہت اہمیت رکھتی ہے اگر اس کا اثر سمندر پر پڑے تو سونامی بن سکتی اور اگر زمین پر پڑے تو گرد کا طوفان آنے کا خطرہ ہے اور سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ زمین پر انسانی آبادی پر اس کے اثرات کیا ہونگے ۔ سائنسدانوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر ایپوفس بیس کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے بھی زمین سے ٹکرا جاتا تو اسکے نتیجے میں دس بلین جیول انرجی پیدا ہو جاتی یہ کسی بھی عالمی نیوکلیئر ہتھیار سے زیادہ ہو سکتی ہے اور ہیرو شیما پر گرائے جانیوالے بموں سے تو کروڑوں مرتبہ زیادہ ہو سکتی ہے ۔ اگر یہ آبادی والے علاقے یا سمندر کے کنارے آباد شہر سے ٹکرائے تو ہونے والی تباہی کے ساتھ ساتھ شدید ترین زلزلہ ، بھاری تھرمل ریڈی ایشن اور ساری فضا برقی لہروں سے بھر جائے ۔
لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک ایپوفس جیسا کوئی سیارچے زمین سے ٹکرا نہیں جاتا اس کے اثرات کے بارے میں ہم یقین سے کچھ نہیں کہ سکتے صرف اندازے ہی لگا سکتے ہیں لیکن اس طرح کے اندازے بھی ہمیں سیارچوں کے مدار انکی رفتار اور زمین سے ٹکراو کے متعلق مختلف پہلو سے سوچنے کا موقع دیتے ہیں ۔
اب چونکہ زمین سے ٹکراو کا خطرہ ٹل چکا ہے تو سائنسدان اس سیارچے کے متعلق سائنسی معلومات اکٹھی کرنے میں لگے ہوئے ہیں اسکے اگلے دورے میں اگرچہ ابھی آٹھ سال پڑے ہیں تب تک یقینا ایپوفس کے بارے میں کافی کچھ مزید دریافت ہو جائے گا۔
زمین کے نزدیک آنے پر سائنسدان ایپوفس کے سمندری لہروں پر اثرات کا خصوصی مشاہدہ کریں گے لیکن دوسرے بہت سے عوامل کی وجہ سے ایپوفس کے مدار اور رفتار میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے 2029ء میں اس کے نزدیک آنے پر سائنسدان اسکے سائز، شکل اور ترتیب کے ساتھ اسکا بہترین ماڈل بنانے کے قابل ہوں گے اور اسکے گھومنے، کپکپانے یا لڑکھڑانے کی ہلکی سی رفتار سے بھی اس کی اندرونی ساخت کا پتہ چلا سکیں گے جیسے کہ زمین ،مریخ اور چاند کے بارے میں اور انکی زیریں سطح کے بارے میں جانتے ہیں۔ ایسے کسی سیارچے کی اندرونی ساخت کو اتنے نزدیک سے مشاہدہ کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہو گا اور چونکہ ایپوفس اسی فیصد شہابیوں سے ملتا جلتا لگتا ہے تو سائنسدانوں کے لئے انکے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرنا اور مستقبل میں ان سے درپیش خطرے کا اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی اور یہ ڈیٹا فزکس کی دنیا میں اور ہماری زمین کو شہابیوں کے خطرات سے بچانے میں بہت اہم ہو گا اس سب کے علاوہ 2029ء میں ایپوفس کا نظارہ یقینا دیکھنے والا ہو گا کیونکہ ایسے فلکیاتی اجسام ہزاروں سالوں میں زمین کے نزدیک آیا کرتے ہیں اور یقینا اس نظارے کو کوئی بھی چھوڑنا نہیں چاہے گا ۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...