بیسویں صدی انسانی مہم جوئی کا عروج تھا۔ اس صدی میں دنیا کا چپہ چپہ دریافت کر لیا گیا۔ ہم قطبِ شمالی اور قطبِ جنوبی پر پہنچے۔ دنیا کا سب سے اونچا مقام سر کیا۔ دنیا کے سب سے گہرے سمندر کی تہہ تک ہو آئے۔ ہماری جو فتح سب سے بڑی تھی، وہ یہ کہ ہم پہلی بار اس زمین سے باہر نکلے اور چاند پر قدم رکھ دئے۔ اپالو پروگرام ایک بہت ہی مہنگا پروگرام تھا۔ اس پروگرام میں چار لاکھ لوگوں نے حصہ لیا جن میں سے تین خلاباز موت کا شکار ہوئے۔ دس مشن چاند پر بھیجے جانے تھے۔ ان میں سے تین منسوخ ہو گئے۔ ایک ناکام رہا۔ تین سال کے عرصے میں چھ مشنز اور بارہ افراد چاند تک پہنچے۔ اپالو 17 کے عملے نے تین روز چاند پر گزارے۔ آج اس شاندار کامیابی کو نصف صدی گزر چکی۔
اس کامیابی میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں جشن منایا گیا۔ یہ دنیا کو ملانے اور جوڑنے والی کامیابی وقت گزر گیا۔ یاد پرانی ہو گئی۔ ایک نسل گزر گئی۔ آج دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو اس کامیابی کو ماننے سے ہی انکاری ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ لاکھوں افراد کے اس مشن کا حصہ ہونے کے بعد، اس کے ہر طرح کے سائنسی ثبوت موجود ہونے کے بعد “متبادل حقیقت” پر یقین کرنے والے اس کو سازش گردانتے ہیں۔ یہ سب کیسے ہوا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پر سب سے پہلے آرٹیکل لکھنے والے جان ولفورڈ تھے جن کا کہنا تھا کہ خلائی مشن کے فنڈز کو لوگوں کے منہ بند کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے تا کہ سوویت یونین سے خلائی دوڑ جیتی جا سکے۔ خیال یہ دیا گیا تھا کہ وین ایلن ریڈی ایشن بیلٹ کو عبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ریڈی ایشن سائنس کی ناقص سمجھ کا نتیجہ تھا۔ سائنس کی عدم تفہیم ہی سازشی تھیوریوں کی بنیاد رہی ہے۔
اس کےبعد ولیم برائن نے ایک اور خیال پیش کیا۔ ان کے مطابق ہم چاند تک پہنچے تو ضرور ہیں لیکن ایسا کرنے کے لئے خلائی مخلوق نے تعاون کیا ہے اور یہ راز ناسا کبھی بھی نہیں بتائے گا۔ اس سٗر میں سٗر ملاتے ہوئے رچرڈ ہوگ لینڈ نے خیال پیش کیا کہ ناسا نے چاند کی سطح پر شیشے کے بڑے سٹرکچر دریافت کئے ہیں۔ خلا بازوں کو ہپناٹائز کر کے ان کی یادداشت مٹا دی گئی ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ چاند پر لینڈنگ کے بارے میں پھیلائی گئی سازشی تھیوریاں بھی ناسا خود پھیلا رہا ہے تا کہ خلائی مخلوق کی دریافت کو چھپایا جا سکے اور توجہ اصل چیز کی طرف جائے ہی نہیں۔
اگر آپ نے آرتھر کلارک کی کتاب سینٹینل پڑھی ہو جو سائنس فکشن کی ایک مختصر کتاب تھی اور چاند پر جانے سے پانچ سال قبل لکھی گئی تو پہچان گئے ہوں گے کہ یہ خیالات وہاں سے لئے گئے تھے۔ یہ پرانی تھیم ہی ری سائکل ہو کر اس بارے میں گھڑی گئی سازشی تھیورٰیوں میں بار بار استعمال ہوتی رہی ہیں۔
یہ سب خیالات سنسنی پھیلانے والے ٹیبلوائیڈ یا پھر معاشرے کے کنارے پر رہنے والے لوگوں کے تھے جو یو ایف او جیسے چیزوں پر یقین رکھنے والے تھے۔ اس کو مین سٹریم بنانے والے بل کیسنگ تھے جنہوں نے 1975 میں ایک نیا خیال پیش کیا۔ بل کیسنگ راکٹ ڈائین کمپنی کے سابقہ ملازم تھے اور پیشے میں جرنلسٹ کا کام کرتے تھے۔ اس کمپنی کا چاند پر جانے والے سیٹرن فائیو راکٹ کا انجن F1 بنانے میں کردار تھا۔ انہوں نے کتابچہ چھاپا، “ہم چاند پر نہیں گئے”۔ اگر آپ چاند پر سازشی تھیوری پر یقین رکھنے والوں کے آرگومنٹ پڑھیں یا ویڈیو دیکھیں تو زیادہ تر مواد اسی کتابچے سے لیا جاتا ہے۔ یہاں پر بھی سائنس کی ناقص سمجھ صاف نظر آتی ہے۔ کیسنگ کی کتاب کے تین ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ تیسرا 2002 میں چھپا۔
چاند پر تصویروں میں ستارے کہاں ہیں؟ ہوا نہیں تو جھنڈا کیوں لہرا رہا ہے؟ چاند پر لینڈر کے نیچے بلاسٹ کریٹر کیوں نہیں؟ وغیرہ۔ یہ بل کیسنگ کے کتابچے سے ہے۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ F1 انجن والا راکٹ چاند پر جا ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ انجن قابلِ اعتبار نہٰں تھا۔ اس کی جگہ پر B1 راکٹ استعمال کرنا پڑے اور ان میں اتنی پاور ہی نہیں تھے کہ وہ چاند تک مشن کو لے کر جا سکیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جیف بیزوس (جو ایمیزون کے چیف ایگزیکٹو ہیں) کی کمپنی کو اپالو 11 کا سمندر سے انجن 2013 میں ملا تو وہ F1 تھا جس سے بل کیسنگ کا یہ نکتہ واضح طور پر غلط ثابت ہو گیا۔ بل کیسنگ نہ ہی سائنس دان تھے اور نہ ہی انجینئیر۔ وہ راکٹ ڈائنن میں تکینیکی پبلی کیشن کا کام کیا کرتے تھے۔ ان کا دعوی تھا کہ وہ اس نتیجے پر اس لئے پہنچے ہیں کہ انہوں نے اپنی ملازمت کے دوران مرکری، جیمینائی اور اپالو مشنز کے متعلق کچھ دستاویزات دیکھی تھیں۔ کیسنگ اس ادارے میں 31 مئی 1963 تک رہے تھے یعنی چاند پر جانے سے چھ سال قبل تک۔
سازشی نظریات پر یقین رکھنے والے حلقوں میں مقبولیت کے بعد کیسنگ اپنی تھیوریز میں مزید اچھوتے خیال پیش کرنا شروع ہو گئے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اپالو اول کی آگ بھی ناسا نے خود لگائی ہے اور چیلنجر شٹل کا حادثہ بھی جان بوجھ کر کروایا ہے۔ کیونکہ یہ والے خلاباز اس ڈرامے کو بے نقاب کرنے لگے تھے۔ ہالی وڈ میں بننے والی فلم کیپری کورن ون کی وجہ سے بھی ان خیالات کو مقبولیت ملی۔ فلم کی کہانی میں ناسا نے مریخ پر مشن کا ڈرامہ رچایا تھا اور ناکام ہونے والے مشن کی کامیابی کا اعلان کیا تھا۔ سازشی تھیوری والے عناصر کو بڑی حوصلہ افزائی اس وقت ہوئی جب فاکس ٹی وی نے 2001 میں بل کیسنگ کا بنایا ہوا پروگرام ٹی وی پر نشر کیا۔ اس وقت تک چاند پر لینڈ ہوئے بتیس برس گزر چکے تھے۔ اس وقت کے ناظرین ایک نئی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ تکنیکی سمجھ نہ ہونے والوں کو ایسے آرگومنٹ اپیل بھی کرتے تھے۔
ناسا یا امریکی حکومت نے اس قسم کی باتیں کرنے والوں اور ان خیالات کا جواب دینا کبھی بھی مناسب نہیں سمجھا۔ ناسا کا کہنا تھا کہ یہ بے سروپا باتیں اس قابل ہی نہیں کہ ان کا جواب دیا جائے۔ اس سٹریٹیجی نے اور دوسری طرف حکومت پر عدم اعتمادی کی فضا نے سازشی تھیوری رکھنے والوں کی اور ان کے پھیلنے میں مدد کی۔ سازشی تھیوری گھڑنا ایک چیز ہے لیکن جب تک اس پر یقین کرنے والے نہ ہوں، اس کو گھڑنے کا فائدہ نہیں۔ ان کے لئے نیٹ ورک میں وہ لوگ چاہیئں جو اس بارے میں مواد تیار کریں، وہ جو ان پر یقین کریں اور سب سے اہم وہ جو ان کی تبلیغ کرتے ہوں۔ چونکہ سائنس کی سمجھ کی سطح عام لوگوں میں کم ہے تو ان تھیوریز میں سائنس کا غلط ہونا ان کے پھیلنے میں کبھی رکاوٹ نہیں بنتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نفسیات کا ایک بنیادی اصول ہے کہ اگر ایک بار کسی چیز پر یقین ہو جائے تو پھر اس کو نہیں ہلایا جا سکتا۔ یہ یقین سازشی نظریات پر ہو، خلائی مخلوق پر، سیاسی نظریے پر، بھوت پریت پر یا کسی بھی اور شکل میں۔ یقین کی سٹیج تک پہنچنے کے بعد واپسی کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ خواہ اس کے مقابلے میں کوئی بھی ثبوت سامنے لا کھڑا کیا جائے۔ کیونکہ یقین سچ سے طاقتور ہے اور دل کو تسلی دیتا ہے۔ کچھ لوگوں کے لئے یہ اس قدر اہم بن جاتا ہے کہ اگر ان کو چیلنج کیا جائے تو وہ لڑنے پر تیار ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے نفسیات کا ایک اور دلچسپ اصول ہے جس کو بیک فائر ایفیکٹ کہا جاتا ہے۔ جس قدر زور سے ثبوت دئے جائیں گے، اس قدر زور سے ان کا متبادل حقیقت پر یقین مضبوط تر ہو جائے گا۔
اس طرح کی “متبادل حقیقت” کا شکار کونسے لوگ زیادہ ہوتے ہیں؟ اس کا تعلق عمر، جنس، پیشے یا سیاسی وابستگی سے نہیں۔ جمع کئے گئے اعداد و شمار سے پتا لگتا ہے کہ جس فیکٹر سے سب سے زیادہ فرق پڑتا ہے، وہ تعلیم ہے۔ یونیورسٹی آف میامی کی طویل مدتی سٹڈی اس بارے میں کی گئی۔ ایسے لوگ جو ہائی سکول تک پڑھے ہوں، ان کا گریجویٹ ہونے والوں کے مقابلے میں سازشی نظریات کا شکار ہونے کا امکان دگنا ہوتا ہے۔
ویرن سوامی جو نفسیات کے پروفیسر ہیں، ان کا کہنا ہے، “اگر آپ ایک مرتبہ ایک سازشی نظریے پر یقین کرنا شروع کر دیں تو اس کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے کہ آپ دوسرے نظریات کو بھی جلد اپنا لیں گے۔ ایسے لوگ جو بے چینی کا شکار ہوں، نفسیاتی دباوٗ میں ہوں یا پھر ایسا محسوس کرتے ہوں کہ ان کی زندگی کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں نہیں رہا، ان کا سازشی نظریات کا شکار ہو جانے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔ ایسے لوگ ان چیزوں میں پیٹرن تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں جہاں پر وہ ہوتے ہی نہیں اور اس کو دنیا کی وضاحت کے طور پر استعمال کرنے لگتے ہیں۔”
ساٹھ، ستر یا اسی کی دہائی کے مقابلے میں آج دنیا بڑی مختلف جگہ ہے۔ غیریقنی مستقبل آج کی دنیا کا نام ہے۔ یہ مجموعی طور پر کنٹرول چھن جانے کا احساس دیتا ہے اور ایسی صورتحال سازشی نظریات کے لئے زرخیز زمین ہوتی ہے۔ دوسرا پہلو یہ کہ اب انٹرنیٹ پر ہر مضحکہ خیز نظریے کے حق میں اور اس کو “کنفرم” کرنے کے لئے “شواہد” ڈھونڈنا مشکل کام نہیں رہا۔ دنیا کو جاننا، سائنس کو سمجھنا، انفارمیشن کو پراسس کرنا صبر آزما کام ہیں اور محنت مانگتے ہیں۔ سازشی نظریات ان سب تکلفات سے آزاد ہوتے ہیں۔ صرف یقین کافی ہے۔ چیٹ روم، بلاگ، فورم اور یوٹیوب چینل اس قبائلیت پسند ذہنیت کی تسکین بھی بآسانی کر دیتے ہیں۔ اس سب میں سچ ثانوی ہو جاتا ہے، خواہ کتنا بھی واضح کیوں نہ ہو۔ سازشی تھیوری پر یقین رکھنا زندگی میں کنٹرول تو نہیں لے کر آتا، ایک تسلی لے کر آتا ہے کہ دنیا میں کسی اور کا کنٹرول ہے اور میں اس کے خلاف کھڑا ہوں۔ یہ احساس ہی کئی لوگوں کو اطمینان دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس یقین سے حاصل ہونے تسلی اپنی جگہ پر لیکن دنیا کو دیکھنے کے اس طریقے سے ایک مسئلہ ضرور ہے۔ وہ مسئلہ مستقبل کا ہے۔ خواہ ناسا ہو یا کوئی اور۔ دنیا کو اس طرح دیکھنے والوں کو ہر عقل و علم کی بات کے پیچھے کچھ خفیہ ایجنڈا ہی نظر آتا رہے گا۔ ان کا “سچ” ان کو آج کا اطمینان شاید دے دے۔ لیکن یہ رویہ گر کسی گروہ میں سرایت کر جائے تو پھر ایسی متبادل حقیقت میں رہنے والے گروہ کا مستقبل۔۔۔۔۔۔ ؟؟ جبکہ دوسری طرف ہماری وہ کامیابیاں، جو ہمارے انسان ہونے کا فخر ہیں، جو ہم حاصل کر چکے، جو حاصل کر رہے ہیں، جو حاصل کر لیں گے، ترقی کا یہ سفر چلتا رہے گا۔