ان سے ملیں، یہ گریس ٹیم ہیں۔ انہیں 2021 میں آسٹریلین آف دی ایر Australian of the year کا اعزاز ملا ہے۔ گریس ٹیم 26 سال کی ہیں۔ اور اس لحاظ سے کم عمر میں ہی انہوں نے ایک بڑا مقام حاصل کر لیا ہے۔
یہ اعزاز گریس ٹیم کی جرات، بیباکی، محنت، اور مقصد کی لگن کے اعتراف کی بنا پر دیا گیا ہے۔
سکول میں جب یہ چودہ پندھرہ سال کی تھیں ان کے 58 سالہ ٹیچر نے ان کا جنسی استحصال کیا اور کرتا ہی چلا گیا۔ سکول کے بعد دفتر کے ایک کمرے میں بارہا ان کی یونیفارم اترتی رہی اور یہی معمول بن گیا۔ گریس اس زیادتی کی گویا عادی سی ہو گئیں اور اسی کو زندگی سمجھ کر سہمی سسکتی جیتی رہیں۔ مگر اس ہوس کی شکار اکثر اور خواتین کی طرح گریس بھی اندر ہی اندر ٹوٹ پھوٹ بھی رہی تھیں۔
گریس ٹیم آسٹریلیا کے صوبہ تسمانیہ میں رہتی تھیں۔ انہوں نے یہ صوبہ اور ملک چھوڑ دیا۔ بچپن میں جنسی ہوس کا لقمہ بننے والے کئی بچوں کی زبانیں بند ہو جاتی ہیں۔ وہ اس موضوع پر بات بھی کریں تو ان کی سنتا کوئی نہیں۔ سو اپنے اندر کی چیخوں کو خاموش کرنے کے لئے گریس نے ایک راستہ نکال لیا۔ نشے اور ڈرگ کا راستہ۔
ٹوٹی پھوٹی گریس اور ٹوٹ پھوٹ رہی تھیں جب ان کی نظر سے ایک پیغام گزرا ۔۔۔۔
‘اس لڑکی کو بولنے دو، اس لڑکی کی زبان بند مت کرو، اسے کہنے دو، اسکی سنو، Let her speak’.
Let her speak
ایک تحریک تھی جو نومبر 2018 میں تسمانیہ میں اخبار نویس نینا فینل نے آغاز کی۔ اس تحریک کا مقصد جنسی زیادتی کا شکار بچوں اور ریپ کی ماری خواتین کو آواز مہیا کرنا تھا جو انصاف کے کٹہروں میں سنی جا سکے۔ اس تحریک نے گریس کے ذہن اور بدن میں نئی راح پھونک دی۔ انہوں نے جرات سے اپنے آپ کو مجتمع کیا اور بچیوں کی عزت کے کام پر لگ گئیں۔
گریس کا سفر آسان نہیں تھا۔ جو ساتھی گریس نے زندگی کے سفر کے لئے چن لیا تھا۔ اس نے بھی اپنی ملازمت ترک کی دی اور اپنی دوست کے ساتھ اس کے مشن میں ہمراہ ہوگئے۔
یہ دھتکاری ہوئی لڑکی آج حق کے لئے لڑنے کی ایک علامت ہے۔ یہ بدن روز روز جس کی توہیںن ہوتی رہی، آج ہمارے آسٹریلیا کا ہیرو ہے۔ گریس کی کہانی TV کے کئی پروگرام اور اخباروں میں ریکارڈ ہے۔
شاید یہ ضروری ہے کہ ہم جنسی استحصال کے شکار مظلوم انسانوں کو قوتِ گویائی دینے میں ممد ہو جائیں۔ شاید ہم بچوں پر جنسی ہوس کاری paedophilia کی سو فی صد بیخ کنی تو نہ کر سکیں گے، اور نہ ہی شاید بلا رضامندی کے ذبردستی اور تحکمانہ جنسی دبائو یا ریپ کو مکمل طور پر دنیا سے نابود کر سکیں گے۔ مگر شاید ہم اتنا تو ضرور کر سکتے ہیں کہ مدرسوں، رشتہ داروں اور دوستوں اور آفس کی آڑ میں ہونے والے جنسی مظالم اور جنسی چسکے بازی سے بچوں اور بڑوں کو بچا لیں۔ بچوں کو خود حفاظتی کی تعلیم دیں۔ خواتین کو اتنی جرات دیں کہ وہ کھل کر بات کر سکیں۔ ریپ اور پیڈوفیلیا کے بارے میں ہم لکھیں۔ اس کے نفسیاتی اثرات کی بات کریں۔ بتائیں کہ اس کے بچائو کی کیا تدابیر ہوں۔ پولیس اور عدالتی نظام کو اس ضمن میں حساس کرنے کے کیا طریقے ہوں۔ اور بھی بہت کچھ۔ آئیں ہم دنیا میں انسانوں کے لئے کچھ بہتر کرتے جائیں۔