گزشتہ اقوام کے قوانین و ضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے اس دور میں ہم اپنی ذندگی بسر نہیں کر سکتے ،کسی حد تک اگر بسر کرنے کی کوشش کریں بھی سہی تو ، کہیں نا کہیں بھول چوک ہو جاتی ہے ۔ وہ لوگ عالم تھے ۔۔
یاد رہے "عالم " حافظ نہیں۔۔
مطلب بہت علم اور سمجھ بوجھ والے۔۔ اچھا برا پرکھنے والے اور اپنی اولادوں کو ہدایت دینے والے کہ وہ بھی اپنے پرکھوں کی پیروی کرتے رہیں۔۔وہ لاگ فساد برپا نہیں کرتے تھے ۔۔کیوں؟؟
کیا وہ لوگ پیدائشی عالم تھے؟؟ نہیں۔۔
ان کے اباواجداد عالم اور صاف گو تھے ۔۔
ان کی بانسبت اگر غور کیا جائے ۔۔
ہم نا تو اتنے ذہین ہیں ۔۔ نا اتنے صاف گو ۔ اچھائی اور برائی تو دنیاداری ہے ،گزشتہ اقوام کے کچھ مذاہب میں موجود تھی لیکن وہ لوگ اس لحاظ سے نیز ہر لحاظ سے بہت تیز تھے ۔محنتی بھی بلا کے تھے۔۔ ہمارے موجودہ معاشرے میں محنت ،لگن اور کاوش کی جگہ سستی نے جنم لے لیا ہے ۔ کہ سوئیں تو سستی وہیں پنجے گاڑھ دیتی ہے ۔۔ کسی کام میں کوئی دلچسپی لیتا ہی نہیں۔۔ ہاں اس ۔معاشرے میں تقریباً 100 میں سے 10 فیصد لوگ ہی محنتی ملتے ہیں۔۔
ہم کہتے ہیں۔۔ کام میں دلچسپی تب ہو گی نا جب کام آسان ہوگا ۔۔ لیکن کام تو کام ہوتا ہے۔۔ ہاتھ پاوں ہلائے بغیر نہیں کیا جاتا ۔۔
میں بتاوں سب سے آسان کام کیا ہوتا ہے۔ ۔
بیڈ پر لیٹنا اور آنکھیں موند کے بےحس و حرکت ہو جانا۔۔
نیند بھی تو اک کام ہے۔۔۔ سائنسی کہاوت ہے کہ " ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے" تو ظاہر ہے نیند کا بھی رد عمل ہے ۔۔ "خواب" ذرا سے تنکے سے حُسن بنا ، حُسن سے حسین اور حسین تر ۔۔ جیسے ہی آنکھ کھلی ۔۔ خواب کانچ کی طرح آنکھ سے گر گئے ٹوٹ گئے کرچی کرچی ہو گئے ۔۔
خیر ، ہر عمل ایک سبق دیتا ہے ۔۔ گزشتہ اقوام خود تو نیست و نابود ہو گئیں اور سبق ہمارے پڑھنے کیلئے چھوڑ گئی ۔۔ لیکن سبق کیا صرف پڑھنے کیلئے ہوتے ہیں۔۔؟
بچے کی پیدائش سے لے کر ہوش سنبھالنے تک اسکو استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔۔ اسکے بعد اسے خود اپنا استاد بننا پڑتا ہے ۔۔
زندگی میں بہت سے استاد ملے ، بہت سے سبق پڑھے، بہت سے خواب دیکھے لیکن انکو پورا کیسے کرنا ہے ۔۔ سیکھا ہی نہیں۔۔
تعلیم کیا دیتی ہے؟؟ شعور نا !!
جو ہمارے معاشرے میں دور دور تک کہیں نظر ہی نہیں آتا ۔۔ بڑے سے بڑا کامیاب انسان دیکھ لیں۔۔ انا کے پانی میں اس حد تک سیراب ہے کہ عام اور ناکام شخص کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا ۔۔ تعلیم یہ تو نہیں سکھاتی ۔۔
لیکن کیوں۔۔؟ کیونکہ ۔۔انھوں نے امتحانات کے علاوہ تعلیم پڑھی ہی نہیں۔۔ لیکن ہاں۔۔بہت کم لوگ ٹھیک استعمال کرتے ہیں۔۔
بڑے سے بڑے کتب خانے سے کتابیں لیں۔۔لیکن ی ہہ نہیں سکھایا کہ انکو رکھنا کیسے ہے انکا ادب کیسے کرنا ہے۔۔ سات سال سے نماز سکھائی جاتی ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ جس کیلئے نماز پڑھ رہے ہیں اس سے ملاقات کیلئے خالص ہونا کتنا اہم ہے ۔دنیا جہان سے بالکل بے نیاز ہو کر نماز کی ادائیگی کی جاتی ہے ،کسی نے نہیں سکھایا ۔ سکھایا بھی تو محض اتنا کہ نماز غور و فکر کیساتھ پڑھنی چاہئیے ۔۔ آسان الفاظ میں کہا لیکن آسان تو بتایا ہی نہیں۔۔ اب ہماری مرضی ہم جیسے پڑھیں۔۔آسان الفاظ میں سمجھا دیتے تو کیا تھا ۔۔نماز میں غور و فکرکرنا کتنا مشکل ہے وہ تو کوئی مصروف بندے سے پوچھے ۔جس کے پاس دنیا کے جھنجھٹ بھی موجود ہیں اور نماز کی ادائیگی بھی لازم ہے ۔
سکھانے والوں کو کیا کرنا تھا۔ ۔؟؟
محض یہ کہنا تھا کہ دنیا جہاں کو دل میں پناہ دے کر اللہ سے ملاقات نہیں کی جاتی۔۔
بس!! آگے ہماری مرضی ۔۔بھئی ہمارا اور اللہ کا معاملہ ہے ۔آپ نے اپنا کام کر دیا ، شکریہ!!
بولنا تو سیکھ لیا۔۔نہیں سیکھا تو بس یہ کہ کب ، کہاں اور کیسے بولنا ہے ۔۔
خواب بن تو لیتے ہیں۔۔ انھیں پورا کیسے کیا جاتا ہے بھلا ؟؟ محنت سے۔۔ جو ہم سے ہوتی ہی نہیں۔ قرآن کو دماغ میں تو محفوظ کر لیا۔۔ دل میں کیسے اتارتے ہیں۔۔ ؟؟
دوسروں پہ تنقید میں ہمارا حق اول ہے۔۔ کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانکنے کی کوشش کی ۔۔!! نہیں۔۔۔۔۔
ان سب میں قصور نا تو والدین کا ہے۔ اور نا اساتذہ کا ۔
کون سے پیرنٹس چاہیں گے کہ انکی اولاد نکمی ہو۔۔ انھوں نے اپنی طرف ہے پوری کوشش کی ۔۔
کون سا استاد چاہے گا کہ اسکے طالب علم ناکام ہوں۔۔؟
تو قصور کس کا ہے۔۔؟؟؟
ہمارا اپنا ۔۔۔۔!!!
استاد صرف اس ملک و قوم کے معمار ہوتے ہیں جو خود تعمیر ہونا چاہیں ۔ ورنہ تو ہر کسی کی اپنی مرضی ہے جو جیسے جیئے ۔۔اور اساتذہ کا علم ، بے بہا خزانہ ہے جو ضائع کرنے کیلئے نہیں ہوتا ۔۔
کمی ہم میں ہے۔۔ کہ سہولت ہونے کے باوجود ہم نے اسے استعمال ہی نہیں کیا۔۔ ہم نے خواب دیکھے، انھیں پورا کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔۔
حل شدہ پرچہ ہمارے ہاتھ میں تھا اور ہم سوال اپنے بائیں ہاتھ میں لیے بس بیٹھے رہے ۔۔ کچھ کیا بھی نہیں ۔۔ان کے جوابات ڈھونڈے بھی نہیں۔۔
ان سب کے بعد پھر آخر میں کیا ہوتا ہے۔۔ ؟؟ ہم نصیب کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں ۔۔ فلاں ادارہ ٹھیک نہیں تھا ، فلاں شعبہ دلچسپ نہیں تھا ، فلاں استاد ٹھیک نہیں پڑھا سکا ۔۔
تو اب یوں تو نہیں ہونا چاہئیے نا ۔۔ ہم اپنی ذمہ داری خود ہیں۔۔ ہمارا ٹیچر یا ہمارے والدین ہمیں ہاتھ پکڑ کر کورا کاغذ مکمل نہیں کروا سکتے ۔۔ وہ بس کہنے کی حد تک کوشش کر سکتے ہیں۔۔ ۔تو ہم کسی صورت کسی کو بھی اپنے کئے کا ذمہ دار نہیں ٹہرا سکتے ۔۔کیونکہ ہمارا نصیب ہمارے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔۔ ذندگی جینے کے کچھ اہم آداب ہوتے ہیں سلیقے ہوتے ہیں جن سے ہم مکمل طور پہ غافل ہیں۔۔
ذرا سوچئے!!!!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...