اپنی دھرتی پے غلام ۔حصہ سوئم
نانگلی۔ ایک گمنام مجاہدہ، غیرت اور عزت کی مکمل داستان۔
ھندوستان برصغیر میں مقامی لوگوں کو مختلف علاقوں میں مختلف ناموں اور القابات سے بلایا جاتا تھا/ ھے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ھر علاقے اور زبان کے اپنے نام تھے ۔ مگر ایک بات پر نام نہاد اونچی ذات والے سب متفق تھے کہ یہ سب نیچ ذات ھیں۔اور یہ اونچی ذات والے کون ھوتے تھے؟ جو پہاڑوں کے راستے یا سمندر کے راستے باھر سے آے ھوے ھیں۔
ھندوستان برصغیر میں ھزاروں سالوں تک/سے مقامی لوگوں پر سات بڑی کڑی پابندیاں عائد تھیں، اور جو ان پابندیوں کو توڑتا یا اس سے انحراف کرنے کی کوشش کرتا اسے اور اس کے خاندان کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں اکثر دفعہ موت کی سزا بھی دی جاتی تھی۔ سب سے کم سزا شہر یا گاوں بدر ھوتی تھی۔ یہ کڑی پابندیاں کیا تھیں؟
1 گھوڑے پر سواری نہیں کر سکتے تھے
2 پاوں میں جوتا نہیں پہن سکتے تھے
3 تلوار یا کوئ جنگی سامان نہیں رکھ سکتے تھے
4 پگڑی نہیں پہن سکتے تھے
5 شہر سے باھر رھنا پڑتا تھا یہ لوگ دن کے وقت صرف انسانی اور جانوروں کا فضلہ اور مرے ھوے جانور اٹھانے کے لئے آسکتے تھے۔ مگر آنے کے وقت گلے میں پڑا ھوا مٹکا بجانا پڑتا تھا تاکہ ان کا سایہ یا پاوں کے نشانوں پر کسی برھمن یا اونچی ذات کے منش کا پاوں ناں آجاے یہی وجہ تھی جب یہ شہر میں داخل ھوتے ایک تو اپنے شور سے لوگوں کو مطلع کرتے اور دوسرا کمر پر پیچھے کی جانب پتوں بھری شاخیں باندھتے تھے تاکہ ان کے قدموں کے نشان مٹتے جائیں۔ جب یہ انسانی و جانوروں کا فضلہ اپنے سر پر رکھ کر شہر سے باھر جاتے تو انہی کا ایک فرد آگے آگے خالی مٹکا بجاتے ھوے چلتا تھا تاکہ ان کا سایہ برھمن یا کھشتری پر ناں پڑ جاے۔
مجھے ایک انڈیا سے پاکستان ھجرت کرکے آنے والے ایک بوڑھے نے یہ واقعہ بتایا تھا۔ کہ کس طرح ھولی کے دنوں میں وہ ایک مٹکا خریدتے پھر اس میں انسانی فضلہ کرتے جاتے جب کافی مقدار وہ مٹکا بھر جاتا تو راستے میں کسی شودر/بھنگی کو ڈھونڈتے اور اس سے معاوضہ طے کرتے کہ مٹکے میں اناج ھے اور اسے فلاں بنیئے کی دوکان پر لے کر جانا ھے وہ بیچارہ مٹکا اپنے سر پر اٹھا کر چلتا اور یہ لوگ پیچھے پیچھے چلتے اور اچانک یہ پیچھے سے پتھر مار کر وہ مٹکا پھوڑ دیتے تھے اور وہ انسانی بول و براز اس کے اوپر گر جاتا تھا یہ لوگ " ھولی ھے ۔۔ھولی ھے" کے نعرے مارتے ھوے بھاگ جاتے تھے۔ اور وہ بھنگی تغعن اور بدبو میں شرابور ھکا بکا کھڑا رہ جاتا تھا۔ یہ چلن آج سے سو سال پہلے کا تھا اس سے پہلے کیا حالات تھے خدا پہتر جانتا ھے۔
6 زندہ جانور مار کر نہیں کھا سکتے تھے۔ مرا ھوا یا بچا ھوا جوٹھا گوشت کھانے کی اجازت تھی۔
7 سونا پہننے یا رکھنے کی اجازت نہیں تھی ۔
اس کے علاوہ بھی بےشمار پابندیاں تھیں۔ جو وقت اور ریاستوں کے ساتھ ساتھ بدل یا بڑھ جاتی تھیں۔ انہی میں ایک پابندی تھی ملاکارام (Mulakaram)۔
کیرالہ کے قریب ایک آزاد ریاست تھی جس کا نام تھا تراونکور ( Travancore)۔ ریاست پر حکمران ایک براھمن خاندان تھا اور یہ خاندان انگریزوں کا تو باجگزار تھا مگر اس کے قانون اپنے تھے، ملاکارام کیرالہ زبان کا مقامی لفظ ھے جس کو انگریزی میں Breast Tax کہتے ھیں۔ یہ ٹیکس یا لگان صرف نچلی ذات والی لڑکیوں اور عورتوں پر لاگو ھوتا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ نچلی ذات کی لڑکی جیسے ھی جوان ھوتی تو اسے اپنی چھاتیوں کو ڈھانپنے کا ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا جو لڑکی یا عورت یہ ٹیکس نہیں ادا کر سکتی تھی اسے اپنی چھاتیوں کو ڈھانپنے کی اجازت نہیں ھوتی تھی، اس ٹیکس کو وصول کرنے والا ھرکارہ ھر گھر کے دروازے پر جاکر ٹیکس وصول کرتا تھا اور ھر بار چھاتیاں دیکھ کر ٹیکس کا تعین کیا جاتا تھا یعنی ھر بار اس ھرکارے کو سینہ کھول کر لڑکی یا عورت کو اپنی چھاتیاں دیکھانی پڑتی تھی۔یاد رھے یہ ٹیکس صرف نچلی ذات والوں سے لیا جاتا تھا برھمن سماج بڑی سختی سے اس پر عمل درآمد کراتا تھا، ٹیکس چھاتیوں کا سائز دیکھ کر لیا جاتا تھا جتنی بھاری چھاتیاں ھوں گی اتنا ذیادہ ٹیکس لاگو ھوگا۔
کیونکہ انگریزوں کے راج لاگو ھونے کی وجہ سے بہت سے کالے قانون متروک ھو چکے تھے مگر اس ریاست میں یہ شرمناک ٹیکس ایک اندوہناک حادثے کے بعد انگریز سرکار کےدباو پر ختم ھوا تھا ۔
اس علاقے کے شودر (مقامی لوگ) نادار (Nadar) اور ازھاوا(Izhava) کہلاتے تھے۔ مگر دلچسپ بات تھی کہ مسلمان۔ ھر قسم کا غیر ملکی اور جو شودر مسیحی مذھب اختیار کر لیتے تھے وہ اس ٹیکس سے آزاد ھو جاتے تھے۔ اسی لئے بہت سے شودروں نے اس نفرت انگیز ٹیکس سے جان چھڑانے کے لئے مسیحت قبول کر لی تھی ۔ مگر ان تمام بندشوں اور ذلتوں کے باوجود بہت سارے نچلی ذات کے لوگوں نے اپنا دھرم اپنانے رکھا۔
اب آتے ھیں اس واقعے کی طرف جس نے انگریز سرکار اور انسانیت کو شرما کر رکھ دیا تھا۔
اس کا نام نانگلی تھا۔شادی شدہ عورت تھی مگر اس " رام کی بھومی میں ملاکارام " جیسی لعنت سے بہت تنگ تھی خاص طور پر جب وہ منحوس ٹیکس لینے والا آتا اور اس کی چھاتیوں کو بغور دیکھتا اور ٹیکس کا بھاو تاو کرتا تھا۔ نانگلی نے کئی دفعہ اپنی جاتی کی عورتوں کو اس ٹیکس کے خلاف بولنے اور احتجاج کرنے کے لئے زور دیا مگر سزا کے ڈر سے عورتیں اس کی بات ٹال جاتی تھیں۔ ایک دن جب ٹیکس دینے والا آیا تو اس نے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا۔ اور سینے پر بندھا کپڑا بھی اتارنے سے انکار کر دیا نجانے کیا تلِخ کلامی ھوئ یا کیا ھوا کہ نانگلی نے کہا کہ " تمہیں ملاکارام چاھیے" ؟ ٹہرو لا کر دیتی ھوں، اور نانگلی اندر اپنے جھونپڑے میں گئی اور چند ھی منٹوں بعد کیلے کے پتوں میں لپٹی ھوئ کوئ نرم نرم چیز لا کر اس کے ہاتھوں پے رکھ دی، اور نانگلی نے تقریبا" چیختے ھوے کہا " کہ انہی کی وجہ سے تم روز روز ملاکارام مانگنے آتے تھے؟ آج کے بعد کبھی نہیں آو گے اب یہاں سے اپنی منحوس شکل لے کر دفعہ ھو جاو" ۔ اور یہ کہ کر وہ کراھتے ھوے اپنے جھونپڑے میں چلے گئی۔ اس ھرکارے کو اس قدر ذلت اور غصے کی توقع نہیں تھی کچھ ناں سمجھتے ھوے اس نے ان کیلے کے پتوں کی پوٹلی کو کھولا تو وہ کانپ گیا اور ایک چیخ مار کر اس پوٹلی کو ویہیں پھینک کر بھاگ گیا۔ اس شور کا سن کر آس پڑوس کے لوگ اکٹھے ھو گئے کسی نے پوٹلی کھول کر دیکھا تو اس میں نانگلی کی دونوں کٹی ھوئ چھاتیاں تھیں، جو اس نے خود کاٹ کر اس ھرکارے کو دے دیں تھی اور اس منحوس ٹیکس سے مکت ھوگئی تھی۔ چند ھی گھنٹوں بعد ذیادہ خون بہنے کی وجہ سے نانگلی کی موت واقع ھوگئی تھی۔ نانگلی کے شوھر چروکانندن کے لئے یہ سانحہ ناقابل برداشت تھا۔ اور اس نے نانگلی کی چتا میں کود کر خود کو بھی اس امر داستان میں زندہ کرلیا۔ نانگلی اور چروکانندن کی قربانی رنگ لائ، اور نچلی ذات کی عورتوں نے 1813 سے لے کر 1829 تک احتجاج کیا۔ اور برھمن سرکار نے ناچار اس ٹیکس پر تو روک لگا دیا۔ مگر چھاتیاں ڈھانپنے کی پھر بھی اجازت ناں تھی مگر نانگلی کی موت نے جو آگ لگائ تھی وہ بہت پھیل چکی تھی اس آگ میں بہت سے اسکول اور چرچ بھی جلے تب مدراس کے گورنر نے 1859 میں، تراونکور کے راجہ پر دباؤ ڈال کر اسے ھر ذات کی عورت کو مکمل اپنا جسم ڈھانپنے کی آزادی کا قانون پاس کرنے کا حکم دیا۔ اور پھر اس کے بعد ھر ذات کی عورت اپنا سینہ ڈھانپ کر چل سکتی تھی، مگر راجا یہاں بھی اپنا گھٹیا پن دکھا گیا نچلی ذات کی عورت یا لڑکی جب بھی شاھی خاندان کی عورتوں کے سامنے آے گی تو کھلے ھوے سینے کے ساتھ آے گی، یہ ریاست 1949 تک سلامت تھی بعد میں اسے ھند سرکار نے انڈیا کا حصہ بنالیا تھا۔ اور یہ کیرالہ صوبے کا حصہ ھے۔
دلچسپ بات ھے انڈیا کہ حکومت بےشمار تاریخ کے ھیرو اور ھیروئین کا ذکر اپنی کتابوں اور سلیبس میں کرتی ھے مگر نانگلی کا ذکر کرتے ھوے اسے موت آتی ھے وجہ؟ وجہ یہ ھے کہ انڈیا کا چھوت چھات والا معاشرہ آج بھی ویہیں کھڑا ھے جہاں وہ صدیوں پہلے تھا۔ وہ نانگلی کی داستان کو ایک روایت تو مانتا ھے مگر سچائ سے انکار کرتا ھے۔ یہی وجہ ھے انڈیا کا مکمل انسائکلوپیڈیا Quora اس واقعے سے انکاری ھے جبکہ ھر سال لاکھوں لوگ اس کی سمادھی پر جاتے ھیں اور آج بھی انڈیا میں اس کی چوتھی پیڑھی موجود ھے اور ملیالم عورتیں اسے اپنا قومی ھیرو مانتی ھیں اور اسے پہلی Feminist مانتی ھیں، مگر برھمن سماج کو اس سچائ سے بہت تکلیف ھوتی ھے اور اسی لئیے وہ اس بہادر اور عظیم عورت اور اس کے وفادار شوھر کی قربانی کو اپنی گھٹیا طبقاتی سوچ میں دبانا چاھتے ھیں۔مگر نانگلی کی شہرت اور عزت مقامی لوگوں میں اور دنیا میں تیزی سے بڑھ رھی وہ دن دور نہیں جب برھمن سامراج کو اس کی عظمت کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔