اپنی دھرتی کے غلام ۔حصہ دوم
عورت نے ھمیشہ مرد ذات کے نام نہاد برتری کی ھمیشہ قیمت ادا کی ھے خاص طور پر غلام عورتوں اور لونڈیوں اور سماجی اونچ نیچ اور طبقاتی تعصب میں بھی سب سے ذیادہ عورت ذات نے ھی ظلم اور جبر بھگتا ھے۔ مثلا" عرب و مسلم فاتحین مردوں کو تو ِخصی کرکے خواجہ سرا بنا لیتے تھے اور یہ چلن عربوں سے پہلے بھی عام تھا۔ مفتوح قوموں اور قبائل کی عورتوں کو لونڈیاں بنانے کا چلن بھی تاریخ میں عام تھا۔ مگر عربوں نے ایک نئی جدت پیدا کی کہ مفتوح لونڈیوں کو کھلے بالوں اور کھلے سینے کے ساتھ رھنا پڑتا تھا تاکہ دور سے ھی ھر ایک کو پتہ چل جاے کہ آزاد عورت اور غلام لونڈی کون سی ھے ھاں اگر وہ مالک کو پسند آگئی ھے تو پھر اسے بہت سی مراعات حاصل ھو جاتی تھیں جب تک وہ مالک کی منظور نظر ناں ھو جاے تب تک اسے ننگے سر اور ننگے سینے کے ساتھ ھی مالک کے مہمانوں کی بھی تواضع کرنا پڑتی تھی،اسی طرح غلام عورتوں کی خریدو فروخت کے وقت بھی لونڈیاں تقریبا" برھنہ ھی ھوتی تھیں۔ یہی چلن یونانیوں رومیوں اور قدیم اقوام میں بھی پایا جاتا تھا۔ اسی طرح مغرب میں، اپنے دور کا ایک اور تجربہ کیا گیا تھا انہوں نے سیاہ فام غلاموں سے ایسے ھی منافع کمایا جیسے ھم بھینس اور بکریاں پال کر ان سے بچے پیدا کرتے اور بڑے ھونے پر ان بچوں کو آگے فروخت کردیتے ھیں اور بھینس یا بکری اپنے پاس ھی رکھتے ھیں بالکل انہوں نے یہ روش اپنائی تھی جبکہ عربوں میں بھی یہ عادت تھی مگر انہوں نے اس کو کاروبار نہیں بنایا تھا۔ فرق اتنا ھے کہ عربوں کی لونڈیوں سے جو بچے پیدا ھوتے تھے وہ مالکوں ھی کی مہربانی ھوتے تھے جبکہ گورے اپنے غلاموں کو خصی نہیں کرتے تھے بلکہ ان غلاموں سے نسل بڑھاتے اور ان کے بچے فروخت کرتے تھے۔ اس حوالے سے ایک ڈرامہ سیریل بھی چلا تھا The Roots امریکہ کے سیاہ فاموں پر بنائ گئی ایک ڈوکومینٹری فلم تھی بہت ھی خوبصورت اور درد ناک سچائ دکھائ گئی تھی۔ اسی طرح پرتگال کے کھیتوں میں کام کرنے والے سیاہ فام غلاموں کے پاوں کے پنجے آگے سے کاٹ دیئے جاتے تھے تاکہ وہ چل کر کام تو کر سکیں مگر بھاگ ناں جائیں۔ اسی طرح غلاموں کے جسموں پر دھکتی ھوئ سلاخوں سے نشان بنانا جیسے آج ھم چوروں سے بچاو کے لئے بھینسوں کے جسموں پر اپنی مھریں لگاتے ھیں۔
انڈیا پر جب سینٹرل ایشیاء سے آے ھوے لٹیروں اور قابضین آریانہ نسل نے قبضہ کیا تو انہوں نے بھی انڈیا کے مقامی لوگوں کو غلام بنایا سینکڑوں قسم کی پابندیوں میں مقامی لوگوں کو جکڑ دیا۔ اگرچہ مسلمانوں اور انگریزوں اور پھر جمہوریت کے آنے کے بعد بہت سی پابندیوں اور غلام رسومات سے آزادی ملی مگر آج بی انڈیا اور پاکستان میں بہت سی ایسی رسومات اور خاموش قوانین موجود ھیں جن سے مقامی باشندے حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ھو سکے ھیں۔ مثلا" آج بھی مقامی باشندہ عربوں اور سینٹرل ایشیاء سے آے ھوے لوگوں سے کمتر سمجھا جاتا ھے(اب اس پر مذھب اور ذات کا ڈھکوسلا مڑھ دیا گیا ھے)ذات برادری اور حسب نسب کے تعصب اور جھگڑے ھر سال ھزاروں لوگوں کی جان لے لیتا ھے۔ معاشی اور تعلیمی ترقی کے ساتھ ھماری ذات بھی بدلتی اور پہاڑوں پر چڑھتی جاتی ھے یا پھر سمندر پار کر جاتی ھے، اور کمزور اور مقامی باشندے نیچ اور کمین تر ھوتے چلے جاتے ھیں۔ (جاری ھے)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“